کرونا انفیکشن کی دہشت کے معاشرتی اور نفسیاتی اثرات

جوں جوں مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، لوگوں کے اضطراب اور پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فوٹو: فائل

جوں جوں مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، لوگوں کے اضطراب اور پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فوٹو: فائل

کرونا وائرس نے ہر طرف دہشت پھیلا رکھی ہے، خوف و ہراس طاری ہے، سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔ ٹی وی چینلز اور اَن پڑھ اینکرز عوام الناس کو باخبر رکھنے کی بجائے پریشان اور کنفیوژن کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔

لاک ڈاؤن کے باعث سڑکیں اور گلیاں، شہر اور میدان اجڑے دیار کا منظر پیش کر رہے ہیں۔کراچی جو روشنیوں کا شہر تھا۔ اب وہاں کچھ دنوں سے ہو کا عالم ہے۔وہاں کی سڑکیں جہاں چھ چھ گھنٹے ٹریفک جام رہتی تھی وہاں اب ویرانی ہے۔ ہر طرف اداسی اور پریشانی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ لوگوں میں پریشانی، اضطراب اور ڈپریشن کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔

پرائیویٹ پریکٹس میں زیادہ تر کھانسی، نزلہ، زکام اور سانس پھولنے کی علامات والے مریض آ رہے ہیں، ان میں سے اکثر واجبی سی علامات والے ہوتے ہیں۔ مگر ہر مریض یہ سوال ضرور پوچھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب! کہیں مجھے کرونا کی بیماری تو نہیں ہو گئی؟ ’’میں کرونا سے محفوظ ہوں؟‘‘ کہیں مجھے کرونا انفیکشن تو نہیں ہوگیا؟ بار بار تسلی دینا پڑتی ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا پہ چلنے والے نت نئے اشتہارات اور مشوروں نے عوام الناس کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ ہر مریض سوال پوچھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اب کیا ہوگا؟

جوں جوں مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، لوگوں کے اضطراب اور پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کریں؟ کہاں جائیں؟ جوں جوں ٹی وی اور میڈیا پر لاک ڈاؤن کی خبریں آرہی ہیں عوام میں اضطراب اور پریشانی بڑھ رہی ہے۔ کرونا وائرس نے پوری دنیا میں پنجے گاڑنے کے بعد اب ہمارے ممالک کا رُخ کیا ہے۔ اس سلسلے میں کیے گئے حکومتی اقدامات قابل تعریف ہیں۔ بقائے شہر اب شہر کے اجڑنے یعنی تنہا اور اکیلا رہنے میں ہے۔ جو گھر کے اندر ہے اور اس کی نقل و حرکت گھر کی چار دیواری تک محدود ہے، وہ خود بھی محفوظ ہے اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھنے میں ممدو معاون ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ گھر میں ایک فرد کو کرونا کا مرض لاحق ہوگیا تو پھر دوسرے اس سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ اس لیے جو محدود ہے وہ حقیقتاً محفوظ ہے۔

کرونا وائرس کے معاشرتی اثرات کے ساتھ اس کے نفساتی اثرات یہ ہیں کہ زیادہ تر لوگ چڑ چڑے، جھگڑالو اور پریشان اور مضطرب ہو رہے ہیں۔ اکثر لوگ اس وجہ سے سر درد اور نیند نہ آنے کی شکایت کر رہے ہیں۔ کئی مریض آ کر بتاتے ہیں کہ جب سے کرونا آیا ہے ان کی بھوک اور نیند ختم ہو گئی ہے۔

معاشرتی اثرات

کرونا انفیکشن کے خوف اور دہشت کی وجہ سے لوگ معاشرتی ناہمواری اور بے اعتدالی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہر بندہ پریشان ہے، اداس ہے۔ اداسی کے ساتھ شہر، گلیاں اور بازار بھی سائیں سائیں کر رہے ہیں۔ غریب بھی پریشان ہیں اور امیر بھی۔ غریب اور دیہاڑی دار مزدور اس وجہ سے پریشان ہیں کہ لاک ڈاؤن کے باعث دیہاڑی نہیں ملے گی، مزدوری نہیں ملے گی تو کھائیں گے کہاں سے۔ روز افزوں مہنگائی کے باعث دو وقت کی روٹی کھانا مشکل ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے قابل تحسین اعلان کیا ہے کہ لاکھوں مزدورں کو تین ہزار روپے مہینہ راشن کے لیے دیے جائیں گے۔ چلو اس سے کچھ پریشانی تو کم ہوگی۔ الحمدللہ! ہماری فلاحی تنظیم کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی بھی میدان عمل میں ہے۔

ایک طرف کرونا کے متعلق عوام الناس میں آگہی پیدا کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف کرونا سے متاثرہ مزدور خاندانوں کے لیے راشن پیکیج کا انتظام کیا گیا ہے۔ کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے ملک بھر میں مراکز لاہور، اسلام آباد، بارہ کہو، جعفر آباد (بلوچستان)، مظفر گڑھ، سوات مردان اور بنوں میں متاثرہ افراد کو مفت راشن پیکیج گھر گھر پہنچانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب افراد کو توفیق دے کہ وہ مصیبت کی اس گھڑی میں اپنا کردار ادا کریں۔ اپنی اپنی تجوریوں کے منہ کھولیں اور ان کے آس پاس جو مزدور لوگ ہیں ان کا خیال رکھیں اور ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے انہیں راشن اور دوسری ضروری اشیاء ان کے گھر پہنچائیں تاکہ وہ لاک ڈاؤن کے دنوں میں بھوک یا بیماری کی وجہ سے ذہنی انتشار کا شکار نہ ہوں اور ان کے بچے کہیں بھوک اور افلاس سے نہ مر جائیں۔

اس وقت تمام پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگوں کی عموماً اور میڈیکل طبقے کی خصوصاً ذمہ داری ہے کہ عوام الناس کو کرونا وائرس انفیکشن کے خطرات سے آگاہ کریں۔ انہیں احتیاطی تدابیر کرنے کے بارے میں بتلائیں۔ کیونکہ اس وقت کرونا وائرس سے بچنے کا واحد ذریعہ اپنے آپ کو اپنے اپنے مقامات گھروں تک محدود رکھنا ہے۔ مذہبی اجتماعات پر بھی پابندی ہے۔ اسلام عالمگیر اور آفاقی مذہب ہے۔ اسلام جسمانی صفائی اور روحانی بالیدگی پر زیادہ زور دیتا ہے۔

حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کر کے بار بار اپنے ہاتھ منہ دھو کر اپنے آپ کو اپنے پیاروں کو کرونا انفیکشن کے خطرات سے بچا سکتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق شروع کے دنوں میں انفیکشن پھیلانے والا کرونا وائرس بہت طاقتور اور Lethel تھا لیکن اب اس کا نسبتاً کمزور Strain ہے جو زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہو رہا۔ ان شاء اللہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مزید کمزور ہو جائے گا اور اپنی تباہ کاریوں اور بربادیوں سے لوگوں کو زیادہ متاثر نہیں کر سکے گا۔ مزید برآں ہمارے لوگوں میں بیماریوں سے لڑنے کی قوت مدافعت بھی بہت زیادہ ہے۔

یہ ہم سب کی معاشرتی ذمہ داری ہے کہ عوام الناس میں شعور پیدا کیا جائے کہ وہ حفظان صحت کے اصولوں کو اپنائیں۔ اس وقت گھروں میں ضروری ہے کہ بڑی عمر کے لوگوں کی صحت کا خاص طور پر خیال رکھا جائے کیونکہ کرونا کے انفیکشن سے سب سے زیادہ 70 تا 85 سال کے وہ لوگ متاثر ہو رہے ہیں جو کسی نہ کسی قسم کی سانس کی تکلیف ، دل کی بیماری، شوگر یا کسی اور مرض میں مبتلا ہیں۔

بڑی عمر کے لوگوں میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے اور کرونا کا خبیث وائرس ان کے پھیپھڑوں میں جا کر پیوست ہو کر پھیپھڑوں کے Tissues کو نقصان پہنچاتا ہے جس کی وجہ سے سانس کی خرابی اور سانس اکھڑنے کے ساتھ ساتھ پھیپھڑے تقریباً ناکارہ ہو جاتے ہیں اور اس سے سانس کی خرابی کی وجہ سے فوری موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بڑی عمر کے لوگوں کو ان کے کمروں تک مقید کر دیا جائے تاکہ وہ باہر نہ نکلیں۔ اگر وہ باہر نکلیں گے تو وہ خود بھی کسی مریض سے مرض کا شکار ہو سکتے ہیں اور اگر گھر میں کسی ایک کو مرض لگ جائے تو پھر دوسروں کو بھی لگنے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔

مسجدوں میں بھی اجتماعات سے پرہیز کرنا چاہیے۔ صرف فرض نماز مسجد میں ہو پرانی صفیں دریاں، قالین اٹھا دیئے جائیں اور فرشوں کو جراثیم کش لیکوڈ اور سرف سے اچھی طرح صاف کر کے نماز فرض ادا کی جائے۔ حال میں بارہ کہو، اسلام آباد کی مسجد میں ٹھہری ہوئی تبلیغی جماعت کے چھ لوگوں میں کرونا کی تشخیص ہوئی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ مسجدوں میں اجتماعات سے پرہیز کیا جائے۔ گھروں میں بھی شادیوں کے اجتماع اور اجتماعی کھانوں سے بھی پرہیز کیا جائے۔

ضروری ہے کہ ان دنوں بھوک رکھ کر کھانا کھایا جائے، بے ہنگم اور مرغن کھانوں سے پرہیز کیا جائے۔ پینے والی چیزیں،گرم پانی، جوس، سوپ، جوشاندہ لیا جائے۔ سبزیوں اور سلاد کا زیادہ استعمال کیا جائے۔ بوڑھے لوگوں کو سوپ اور دلیہ وغیرہ دیں۔ بوڑھے لوگ ایک کمرے تک محدود رہ کر چڑچڑے پن کا شکار ہو سکتے ہیں، انہیں بہترین سہولتیں مہیا کریں، ان کا خیال رکھیں۔ نماز کے لیے کمرے کا ایک کونہ منتخب کریں۔ ان شاء اللہ ان ہدایات پر عمل کر کے وہ کرونا انفیکشن کے خطرات سے محفوظ رہیں گے اور آپ کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کریں گے۔

کرونا انفیکشن کے نفسیاتی اثرات

کرونا انفیکشن جہاں دنیا بھر میں ہلاکتوں کا باعث بن رہا ہے۔ وہاں اس نے کروڑوں انسانوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ کرونا کے مریض جان کی بازی بھی ہار رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے نوجوان، بوڑھے، بچے اس کے خطرات کے باعث نفسیاتی اور ذہنی الجھنوں کا شکار بھی ہو رہے ہیں۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ کدھر جائے۔ ہیلپ لائن سے رابطہ کر کے بھی تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔ نہ ڈاکٹروں کے پاس جا کر تسلی ہوتی ہے۔

دنیا بھر کے ڈاکٹرز، فارماکولوجسٹ اور فارماسسٹ اس تگ و دو میں ہیں کہ کرونا کے خلاف ویکسین یا کوئی کارگر دوا بنا لیں مگر اس میں مہینوں لگیں گے۔ چند ایک دواؤں کے نام بھی لیے جا رہے ہیں جیسے کلوروکین وغیرہ۔ ایسے میں ہم نے بھی کرونا انفیکشن کے مریضوں میں قوت مدافعت پیدا کرنے کے لیے ان کے پھیپھڑے مضبوط بنانے کے لیے ہلدی، زیتون کے تیل، شہد اور ملٹھی پر مشتمل ایک شربت متعارف کروایا ہے جسے پی کر بہت سے مریضوں نے بتایا ہے کہ اس سے ان کی طبیعت بحال ہوئی ہے اور ان کی کھانسی، نزلہ، زکام اور سانس اکھڑنے کی علامات کم ہو گئی ہیں۔

اس وقت سماجی طور پر ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو سہارا دیا جائے۔ ایک دوسرے کے کام آیا جائے۔ بیماری سے بچنے کے لیے احتیاط لازم ہے۔ حکومتی اقدامات کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروی ہے کہ رو رو کر عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگی جائے استغفار کیا جائے۔ صلوٰۃ الحاجت اور دو رکعت نمازِ نفل توبہ ادا کی جائے۔ ہم ساری انسانیت کے لیے دعا کرتے ہیں کیونکہ اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ’’جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا پوری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔

حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بیماری اللہ کی طرف سے آتی ہے اور اس سے شفا بھی اللہ تعالیٰ ہی دیتے ہیں۔ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ ہر بیماری کے لیے دوا ہے اور جب اس دوا کا اثر بیماری کی ماہیت کے مطابق ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بیماری سے شفا دیتے ہیں۔ جب وبائیں پھیل جائیں تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور استغفار کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہو جاتی ہے اور کوئی بھی وبا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اس کے ساتھ بلاؤں اور وباؤں کو ٹالنے کے لیے صدقہ دینا بڑا اہم ہے۔ روزانہ اپنا اور اپنے بچوں کا صدقہ دیا کیجیے۔کرونا انفیکشن سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے۔ بار بار اپنے ہاتھ دھوئیں۔ باوضو رہنے کی کوشش کریں۔

کرونا کے سامنے بڑی عالمی طاقتیں بے بس ہو گئی ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو گی تو اس وبا سے جان چھوٹے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔