کورونا کون ؟ کیوں اور کیسے؟   (پہلا حصہ)

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 28 مارچ 2020
barq@email.com

[email protected]

وہ تو ہمیشہ سے ہوتاآیاہے اورہوتارہے گاکہ جب بھی کوئی ارضی یاسماوی یاانسانی آفت آتی ہے تو جہاں کچھ لوگوں کے لیے تباہی لاتی ہے تووہاںکچھ لوگوں کے لیے کمائی لاتی ہے چنانچہ حسب معمول کورونا کو لے کربھی بے شمار دکانداروں نے اپنی دکانیں کھول دی ہیں اوردھڑادھڑ کچھ نہ کچھ بیچ رہے ہیں۔

کنتی وبائیں، کتنے سیلاب، کتنے زلزلے ایسے آئے ہیں جب کچھ لوگ برباد ہورہے تھے تو کچھ خود کو آباد کررہے تھے یہاں تک کہ جب پاکستان بن رہاتھا توکچھ لوگ مر رہے تھے کٹ رہے تھے لٹ رہے تھے اورکچھ ہندوئوں کی متروکہ جائیدادوں اورمال واموال پر قبضہ کررہے تھے ،زلزلوں ،سیلابوں سے جہاں لوگ تباہ ہورہے تھے تو کچھ مخیرلوگ چندے لینے دینے والے امداد تقسیم کرنے والے نہال ہورہے تھے۔

مطلب یہ کہ دنیامیں دوقسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک ’’آفت زدگان‘‘ اور دوسرے ’’آفت زادگان‘‘۔یہ زدگان اور زادگان کا سلسلہ ہمیشہ سے تھا،ہے، اور رہے گا ۔اس میں نہ تو ہم کچھ کرسکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں کیوں کہ دنیا کی اتنی ساری کتابیں، اتنے سارے مصلح اور ہادی اس ٹیڑھی لکڑی انسان کو سیدھا نہ کرسکے یا اس ٹیڑھی دم کو تھوڑا سا عرصہ پائپ میں رکھنے کے سوااسے مستقل سیدھا نہ کر سکے تو ہم کیا اور ہماری بساط کیا۔

یا رب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات

دے اوردل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

چنانچہ ہم ایک اور پہلو کی بات کریں گے اور وہ  یہ کورونا کون ہے کیا ہے اورکیوں ہے؟ جو اس وقت اپنے نام کے عین مطابق دنیا کا ’’ تاجدار‘‘بنا ہوا ہے اور  اس کا یہ نام جو اس کی شکل تاج یعنی کرائون پر رکھا گیاہے  نہایت ہی اسم بامسمیٰ ہے، وہ توسائنس دانوں نے بتایا  ہے کہ اس وائرس کی شکل کرائون یعنی تاج کی سی ہے لیکن اس نے خود اپنی طاقت کے بل پر منوا لیا ہے کہ وہ تاجدار عالم ہے کیوںکہ دنیا کے سارے تاجدارکلاہ دار، شملہ دار ٹوپی دار اوراقتدار اس کے سامنے کان پکڑ کر ناک رگڑرہے ہیں بلکہ شاید ’’کٹنے ‘‘ کی وجہ سے ناک چھپائے بھی پھرتے ہیں کیوں کہ یہ کم بخت اپنی تمام ’’ناکوں‘‘ خطرناک، وحشت ناک، دہشت ناک ،درد ناک،المناک، تشویش ناک اورالمناک ، نہ جانے کتنی ناکوں کے ساتھ حملہ آور ہوا ہے ۔

وہ آیابزم میں اتنا توہم نے دیکھا میر

پھر اس کے بعد چراغوںمیں روشنی نہ رہی

وہ ایک زنان نما لڑکے کا واقعہ تو ہم نے آپ کو کہیں سنایاہی ہوگا کہ اتفاق سے لڑکا ہوتے ہوئے بھی لڑکی نما تھا اوراسی مخصوص لہجے میں بات کرتا تھا جو تیسری جنس کے ساتھ مشہورہے۔لوگ جب اسے تنگ کرتے تھے تووہ اسی مخصوص لہجے میں دھمکی دیتا ٹھہرو میرا لالہ آئے گا تو تمہیں دیکھ لے گا۔لالہ وہ اپنے بڑے بھائی کو کہتا تھا جو ٹھیک ٹھاک آدمی تھا۔ ایک دن محلے کے لوگوں نے اسے بہت تنگ کیا تو وہ روتے ہوئے گھر جاکربیٹھ گیا، دوپہر کو اس کالالہ آگیا تو وہ گلی میں نکل آیا اورزور زورسے ان لوگوں کو پکارنے لگا، اے فلاں اے فلاں اب ذرا باہر نکل کر دکھائو۔۔ میرا لالہ آگیا ہے کسی کا دروازہ کھٹکھٹا دیتا۔

اے چوہے اب ذرا تو نکل میرا لالہ آگیا ہے،کہاں چھپ گئے مسٹنڈو میرا لالہ آگیا، اب ذرامجھے تنگ کرکے تو دکھاؤ۔ہمار بھی کورونا لالہ آگیاہے اب ذرانکل کرجلسہ توکرو، دھرنا تو دو،اچھل اچھل کر چیخوںچلاؤ۔بیچ سڑک پر ادھم مچا کرخلق خدا کو تنگ کرکے تو دیکھو۔ محفلیں جمائو اپنے زندہ باد کے نعرے لگوائو۔نہ کوئی شیرآیاہے نہ ہاتھی نہ کوئی بہت بڑی بلائے عظیم۔ایک چھوٹا سا معمولی سا بے نام و نشان سا اللہ کی فوج کا سپاہی میدان میں اترآیا ہے تواپنے تمام کرو فر،بموں، توپوں،ایٹموں، میزائلوں اورمشینوں سمیت سب کو ہلا دیا ہے۔اب اس تناظر میں دیکھتے ہیں کہ وائرس اور جراثیم…کورونا ہو،ڈینگی ہوکوئی بھی ہو ان کی ماہیت دیکھتے ہیں۔

کیایہ اب کس نیست سے وجود میں آئے ہیں ؟ اگر جیسا کہ کچھ لوگ کچھ لوگوں پر شک کررہے ہیں کہ یہ اسی نے پیدا کیے ہیں جو سراسرغلط ہے، انسان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہوجائے نیست سے کسی نیست کو ہست نہیں کر سکتا، زیادہ سے زیادہ پہلے سے نیست کسی چیز کو بڑھا سکتا ہے، طاقتور بنا سکتا ہے، نئی شاخیں نکال سکتاہے ،کچھ خواص بیش وکم کرسکتاہے لیکن نیست سے ہست کرنا اس کے بس میں نہیں بلکہ ابھی تک یہ بھی نہیں جان پایاہے کہ نیست ہست کیسے ہوتا ہے کیوں کہ نیست وہست کے عین درمیان تک ابھی نہیں پہنچا ہے یہ بھی معلوم نہیں کرسکاہے کہ دنیا میں حیات کا پہلاجرثومہ مکمل ممات کی کوکھ سے کیسے پیدا ہواتھا۔

مطلب یہ کہ ’’حیات‘‘ ابھی تک اس کے اختیار میں نہیں اس ہستی کے اختیار میں ہے جسے آپ کوئی بھی نام دے لیں، اس کا تصور قائم کریں، خاکہ کھینچیں لیکن ماورا ہے، اور یہ سارا ہست ونیست کا کارخانہ اسی کے اختیار میں ہے۔ اگر آپ کوئی ہستی نہ بھی مانیں، فطرت کہیں خودبخود کہیں پھر بھی ہے تو سہی اورانسان کی سمجھ اور طاقت سے باہرہے۔اوریہ سب اس کے حکم یا مرضی یاطے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہوتارہتاہے، جرثومے وائرس وغیرہ بھی اس ہستی یا نظام کا حصہ ہیں۔ چلئیے نام لیے بغیر صرف نظام کہہ دیجیے تو اس نظام میں یہ کورونا پہلے کیوں نہیں تھا،اب کیوں اورکیسے پیدا ہوا اورسب سے بڑا سوال یہ کہ متحرک کیوں ہوگیا پہلے کیوں ایسانہیں ہوا تھا بلکہ تمام جراثیم اور وائرس کے بارے میں بھی یہی کہیں گے کہ حملہ آوراورموثرکیوں ہونے لگے۔ یہ سوال جتنا اہم ہے اتنا ہی انسان اسے نظر انداز کیے ہوئے ہے اور یہی اس کی غلطی ہے۔

یہ جراثیم یہ وائرس تو ہمیشہ سے موجود تھے پیدا ہوتے رہتے ہیں ایک سے دوسرا، دوسرے سے تیسرا یعنی خود بڑھوتری کی بنیاد پر چلتے رہے ہیں اوردنیا میں کہیں بھی ایسا کوئی مقام نہیں ہے جہاں یہ موجود نہ ہوں یا پہنچے نہ ہوں۔یہ انسان جو اسے روکنے مٹانے یا صاف کرنے کی تدبیریں کرتا رہتا ہے، یہ ماسک یہ واش یہ سپرے وغیرہ سب کے سب ناکام ہیں کیوں کہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح بچ جاتے ہیں ہوا میں، پانی میں، گردوغبار میں، ہرہرچیز پر کپڑوں پر کہیں بھی بچتے رہتے ہیں اورپھر خود بخود بڑھتے ہیں۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔