ڈیجیٹل لین دین کا تیزی سے بڑھتا ہوا رجحان 

اکرام سہگل  ہفتہ 28 مارچ 2020

گزشتہ چند ہفتوں سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی آجانے کے بعد اکثر ممالک کی حکومتوں نے معمول کے کاروبار زندگی پر لاک ڈاؤن کی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ عالمی سطح پر اس وائرس سے بھی تیزی کے ساتھ اس کا خوف پھیل رہا ہے اور اسی تیزی سے ڈیجیٹل سروسز کے استعمال میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ایک طرح سے وائرس اور اسکرین ٹائم میں اضافہ قابو سے باہر ہوچکا ہے۔

دنیا بھر میں بڑے کریانہ اسٹور، فارمیسیز یا دوا خانوں، پیٹرول اسٹیشنز وہ چند مقامات ہیں جہاں اب تک نقدی استعمال ہورہی ہے۔ تاہم کرنسی نوٹوں پر بیکٹریا اور وائرس موجود ہوتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق بیماری کا باعث بننے والے جرثومے کاغذ کے نوٹوں پر 17دن تک باقی رہتے ہیں۔ بینک آف کوریا لین دین کے لیے نوٹوں کو جاری کرنے سے قبل بلند درجہ حرارت پر ان کی ’’دھلائی‘‘ کررہا ہے۔

چین بھی نوٹوں کو جراثیم سے پاک کرنے اور کم سے کم استعمال کرنے کی ہدایت  جاری کرچکا ہے۔ اگرچہ ماہرین کا اصرار یہ ہے کہ نوٹوں کے ذریعے کورونا وائرس پھیلنے کے ٹھوس شواہد موجود نہیں تاہم سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کارڈز یا موبائل فون کے ذریعے ادائیگی اس حوالے سے محفوظ ترین طریقہ ہے۔

سوئٹزر لینڈ اور جرمنی میں بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں ادائیگی کا طریقہ تبدیل کردیاگیاہے۔اب مسافروں کو ڈرائیور سے ٹکٹ حاصل کرنے کے بجائے ایپلی کیشن یا مشین سے ادائیگی کی سہولت دے دی گئی ہے۔ پاکستان میں نقدی کے بغیر لین دین کا رواج بہت عام نہیں تاہم کیش لیس سوسائٹی کی جانب اس کا سفر شروع ہوچکا ہے۔ دنیا میں حکومتوں اور مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں سمیت بڑی قوتیں کیش فری لین دین کی محرک بن چکی ہیں۔

پاکستان میں بالغ آبادی کے 85فی صد عام فیچر فون استعمال کنندہ جو بینک اکاؤنٹ نہیں رکھتے ہیں حکومت نے ان کے لیے  زیادہ یکسوئی کے ساتھ کام شروع کیا ہے۔ عالمی بینک کی معاونت کے ساتھ اسٹیٹ بینک نے اپنے ’’مالیاتی شمولیت‘‘ کے ہدف کے تحت لین دین میں ڈیجیٹل ذرایع پر انحصار بڑھانے کے لیے ’’آسان موبائل اکاؤنٹ‘‘ کی اسکیم شروع کی۔

سوئیڈن دنیا کا پہلا کیش فری ملک بننے کی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ وہاں 80فی صد لین دین ڈیجیٹل ہوچکا ہے اور نقدی کا استعمال بتدریج کم ہوتا جارہا ہے۔ وہاں اکثر دکانوں پر ’’نقدی وصول نہیں کی جاتی‘‘ کے اعلان چسپاں ہوتے ہیں اور جو سیاح اس کی تیاری نہ رکھتے ہوں انھیں مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ کارڈ یا موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے ادائیگی وہاں ایک نیا معمول بن چکا ہے۔ نقدی نکلوانے کے رجحان میں سالانہ 10فی صد کمی واقع ہورہی  ہے اور اسی اعتبار سے اس کا استعمال بھی کم ہوا ہے۔

جی ڈی پی میں نقدی کا حصہ صرف ایک فی صد رہ گیا ہے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سوئیڈش عوام کی اکثریت بخوشی کیش فری سوسائٹی بننے کے سفر پر گام زن ہے۔ عمررسیدہ افراد ٹیکنالوجی میں مہارت نہیں رکھتے اس لیے وہ ان جدتوں سے زیادہ خوش نہیں۔ نقدی کے استعمال کو یکسر ترک کرنے سے پہلے ہمیں کئی انتظامی اور سماجی رکاوٹوں کو عبور کرنا ہوگا۔ فی الحال تو ہم کیش لیس لین دین کے بینکاری نظام اور  مالیاتی نظام سے متعلق اس کے متعدد فوائد سے واقف ہیں۔

اس میں شبہہ نہیں کہ کیش لیس سوسائٹی اور ڈیجیٹل لین دین سے جرائم میں کمی آئے گی ، چوری اور غیر قانونی منتقلی میں بھی نمایاں کمی آئے گی کیوں کہ یہ خطرات نقد رقوم ہی سے جڑے ہیں۔ ہر منتقلی کا ریکارڈ ہونے کی وجہ سے ڈیجیٹل لین دین میں ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ جیسے مالیاتی جرائم بھی محدود تر ہوجائیں گے۔ اسی طرح کرنسی نوٹ اور سکوں کی تیاری پر آنے والی لاگت اور انھیں محفوظ رکھنے اور ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے پر آنے والے اخراجات و خطرات بہت کم ہوجائیں گے۔ سیاحوں کے لیے بھی کرنسی کی تبدیلی کے بجائے موبائل سے ادائیگی کرنا زیادہ بہ سہولت ہوگا۔

تاہم الیکٹرانک لین دین میں ڈیٹا اور نجی معلومات کی حفاظت سے متعلق تحفظات بجا ہیں۔ اس طریقہ کار میں نقدی کی طرح اخراجات اور وصولی کرنے والوں کی شناخت محفوظ نہیں  رہ سکے گی۔ اس ڈیجیٹل ورلڈ آرڈر کے چور اور ڈکیٹ ہیکرز ہوں گے۔ سائبر کرائم یا  ٹیکنالوجی کے مسائل( جن میں سروس کی فراہمی میں تعطل، کسی بھی وجہ سے آلات و ذرایع کی عدم دستیابی اور بھول چوک شامل ہے) انتہائی سنجیدہ سوالات ہیں۔ کارڈ قبول نہ ہونے اور فون کے ڈیڈ ہوجانے کا تصور ہی کرکے دیکھیے۔

چین، بھارت اور بعض یورپی اقوام نقدی کے خاتمے کے لیے حکومتی اور عام صارفین کی سطح پر بڑے اقدامات کررہی ہیں۔ پاکستان میں الیکٹرانک پیمنٹ کا نظام محدود ہے تاہم اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس حوالے سے انتظامی پیش رفت ہورہی ہے اور اس بات کے واضح اشارے بھی مل رہے ہیں کہ کیش لیس پاکستان کیسا ہوگا۔ آج یہاں کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ نقدی کے سب سے زیادہ عام ہونے والے متبادل ہیں۔ لیکن پاکستان میں کارڈ کافی نہیں ہوں گے رفتہ رفتہ موبائل فون ہی اس لین دین کا سب سے بڑا  آلہ بنے گا۔ جس ملک میں نوجوانوں کی اتنی بڑی آبادی ہو جو کہ بہ آسانی ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرسکتی ہے اس کے لیے موبائل پیمنٹ سروسز کا مستقبل  بہت روشن ہے۔

’سماجی دوری‘ کے اس دور میں دنیا ہر گزرتے دن کے ساتھ ’ڈیجیٹل سوسائٹی‘ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ای لرنگ اور ورچوول کلاس رومز نے اسکولوں کے طریقہ تدریس کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اس لیے بہ آسانی توقع کی جاسکتی ہے کہ کورونا وائرس کے اس بحران کے بعد ہر کوئی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے فوائد سے واقف ہوجائے گا۔ نہ صرف پاکستان میں ڈیجیٹل لین دین کی ٹیکنالوجی تیزی سے رواج پائے گی بلکہ قراقرم سے بحیرۂ عرب تک کیش لیس سوسائٹی اور مالیاتی شمولیت کے لیے درکار انفرااسٹرکچر بھی تیزی سے پھیلے گا اور اس حوالے سے پائی جانے والی طبقاتی تفریق میں بھی بڑی کمی واقع ہوگی۔

عام طور پر امیر ہی ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ اور الیکٹرانک پیمنٹ کے ذرایع استعمال کرتے ہیں جب کہ غریبوں کو کورونا وائرس جیسے مہلک جرثوموں سے آلودہ کرنسی نوٹ استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ چین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے بھی جراثیموں سے پاک اور ’’قرنطینہ‘‘ کیے گئے وائرس سے پاک کرنسی نوٹ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے لیے محنت درکار ہوگی۔ موجودہ حالات کے معاشی اور طبی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جہاں افسر شاہی کی روایتی رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں، آسان موبائل اکاؤنٹ  کے معاملے میں بھی دعوؤں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ حکومت اس اسکیم پر عمل درآمد کے لیے بیورکریٹک رکاوٹیں کیوں دور نہیں کرتی؟

(فاضل مصنف سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔