لاک ڈاؤن۔۔۔۔570 روپے کا دس کلو آٹا

ظہیر اختر بیدری  پير 30 مارچ 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

کرہ ارض کا انسان مختلف حوالوں سے تباہیوں کی زد میں ہے کورونا وائرس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے چونکہ کورونا کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا لہٰذا دنیا بھر میں جس میں پاکستان بھی شامل ہے احتیاطی تدابیر سے کام چلایا تو جا رہا ہے لیکن کورونا وائرس سے نقصانات میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں ہوئی۔

دنیا بھر میں اس وبا سے اب تک 27 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں، جب کہ مریضوں کی تعداد چھ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ اٹلی میں مزید ایک روز میں919 اموات کے بعد اٹلی میں کل جانی نقصان9,134 افراد کا ہوا ہے۔ اس حوالے سے ایک مثبت بات یہ ہے کہ اب تک ایک لاکھ 33  ہزارافراد اس بیماری سے صحت یاب ہوچکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کورونا کے مریض بڑی تعداد میں صحت یاب بھی ہو رہے ہیں۔

عراق اور لیبیا میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ پاکستان میں 15 روزہ لاک ڈاؤن شروع ہو چکا ہے۔ فوج سڑکوں پر گشت کر رہی ہے ہر طرف سناٹا اور ہو کا عالم ہے۔ کاروبار زندگی معطل ہے کورونا کی وجہ سے ہوائی سروس بھی کئی ملکوں میں جزوی اور مکمل معطل ہے۔ فضائی سروس کو کروڑوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ کورونا کے مرض میں ماسک اور وینٹی لیٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔

وینٹی لیٹر اس مرض میں ناگزیر ہے لیکن اس کی قلت کا عالم یہ ہے کہ امریکا کے پاس وینٹی لیٹر کی تعداد کورونا کے تیزی سے پھیلاؤ کے مقابلے میں کم ہے۔ پاکستان میں انسانوں کے دشمن انسان نما حیوانوں نے ماسک کا ذخیرہ کرکے مہنگے داموں فروخت شروع کردی تھی لیکن اس بلیک مارکیٹنگ کا جلد ہی احاطہ کرلیا گیا اور چین کی جانب سے ماسک کی بڑی کھیپ آنے کی وجہ سے اب پاکستان میں ماسک دستیاب ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہاہے کہ جو محدود ہے وہ محفوظ ہے۔ وزیر اعظم کی بات درست ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے مزدور ہیں جو روز کماتے ہیں روز کھاتے ہیں۔ ہماری حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ ملک بھر میں روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کا سروے کراتی اور انھیں روٹی کے لیے امداد فراہم کرتی لیکن ایسا غالباً نہیں ہو رہا ہے جب مزدور ، مزدوری سے محروم ہوگا تو وہ یا تو بھوک سے مرنے کے لیے تیار ہو یا پھر حکومت ان روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والوں کی مدد کرے لیکن غیر منظم حکومت اس منظم کام کو غالباً نہیں کرسکے گی لہٰذا وہ دیہاڑی کی تلاش میں ڈبل رسک لے کر باہر نکلے گا ایک تو کورونا کا رسک ، دوسرے باہر نکلنے پر گرفتاری کا رسک۔

یہ حال ان دیہاڑی دار مزدوروں کا ہے جن کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اس حوالے سے ایک بات طے ہے کہ مزدور گھر ،وہ بھی پندرہ دن گھر نہیں بیٹھ سکتا اور جب وہ اپنے بچوں کے لیے روٹی کی تلاش میں باہر سڑکوں پر آئے گا تو گرفتار کرلیا جائے گا۔ لاک ڈاؤن ایک طرح کا کرفیو ہوتا ہے اور کرفیو کے دوران سڑکوں پر آنے کو سنگین جرم قرار دیا جاتا ہے۔

کیا ہمارے وزیر اعظم بتا سکیں گے کہ دیہاڑی دار مزدور کیا کریں؟کیونکہ وہ گھر میں رہتے ہیں تو بھوکے مرتے ہیں باہر نکلتے ہیں تو گرفتار کرلیے جاتے ہیں۔ حکومت کو ان حقائق کا یقینا علم ہوگا اس سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ دیہاڑی دار مزدوروں کو لاک ڈاؤن پاس ایشو کیے جاتے بغیر پاس کے جانے کا مطلب مجرموں کو سہولت دینا ہے۔ اس حوالے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ نزلہ جب گرتا ہے تو عضو ضعیف پر ہی گرتا ہے امیر آدمی اور سیاست دان جو دن رات غریبوں کے غم میں مرے جاتے ہیں کیا وہ دیہاڑی دار مزدوروں کی حالت زار جانتے ہیں؟

پاکستان ایک غریب اور پسماندہ ملک ہے یہاں کورونا جیسی بلائیں غریب طبقات کے لیے عذاب سے کم نہیں۔ ہم نے روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کا حوالہ دیا ہے کیا کرفیو یا لاک ڈاؤن جیسے اقدامات سے اس طبقے کی حالت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے؟ ہماری اشرافیہ جو غریب عوام کو لوٹ کر اربوں روپوں کی مالک بن بیٹھی ہے اس کا کورونا کچھ بگاڑ سکتا ہے؟

بلاشبہ دنیا میں کورونا کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہوگی۔ لیکن اس مہلک اور عالمگیر وبا کا تقاضا ہے کہ اس بیماری کے علاج کے لیے دنیا بھر کے طبی ماہرین سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنی ساری پیشہ ورانہ صلاحیتیں لگا کر کورونا کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کریں تو اس کے مثبت نتائج آنے کی امید کی جاسکتی ہے۔ بھارت کے غریب عوام گائے کے پیشاب سے کورونا کا علاج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان میں ملاؤں، بابوں سے اس بیماری کا علاج ڈھونڈا جا رہا ہے۔ بعض حضرات اسے خدا کا قہر کہتے ہیں خدا رحمن اور رحیم ہے اپنے بندوں کی جان اس طرح نہیں لے سکتا۔ یہ بیماری وبائی ہے جو ایک انسان سے دوسرے کو لگتی ہے۔ اس لیے اس بیماری کا علاج تنہائی میں ڈھونڈا جاتا ہے لیکن جیساکہ ہم نے عرض کیا ہماری اشرافیہ تو دو ماہ بھی تنہائی میں رہ سکتی ہے کیونکہ اس کے پاس غریب عوام سے لوٹے گئے اربوں روپے ہیں جو کسی بھی لمبی تنہائی میں اشرافیہ کے کام آسکتے ہیں لیکن غریب طبقات ایسی تنہائیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

کورونا تو انسانی ذہن اور جسم پر سوار ہے لیکن مہنگائی کا کورونا غریب طبقات کے لیے عذاب سے کم نہیں۔ ذاتی مشاہدے کے مطابق کورونا اور لاک ڈاؤن سے عوام اس قدر ڈاؤن ہوگئے ہیں کہ بھوک کا شکار ہو رہے ہیں۔ ادھر ہمارا تاجر طبقہ  عوام کو لوٹنے کی کوشش کر رہا ہے آٹا کچھ دن پہلے ساڑھے چار سو میں دس کلو آتا تھا کورونا کی دریافت کے ساتھ ہی آٹا 500 روپے کا دس کلو ہو گیا اور آج لاک ڈاؤن کے ساتھ ہی 570 روپے میں دس کلو کا تھیلا مل رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔