ام الامراض والعیوب

سعد اللہ جان برق  منگل 31 مارچ 2020

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

عجیب سا ماجرا ہمارے ساتھ ہورہاہے، اس بادشاہ کے بارے میں تو آپ نے سنا ہوگا جس نے دیوتاوں سے وردان مانگا تھا کہ میں جس چیز کو بھی ہاتھ لگاوں، وہ سونے کا ہوجائے اور پھر وہ بیچارہ بھوک پیاس سے مرگیا کہ جو چیز اس کے جسم سے ٹچ ہوتی تھی وہ سونے کی ہوجاتی تھی، کھانا پانی وغیرہ سب کچھ۔ہمارے ساتھ بھی شاید یہ وردان ہے اور وہ بھی بن مانگے کہ جس چیزکی طلب ہوجائے وہ عنقا ہوجاتی ہے، غائب ہوجاتی، ہوا ہوجاتی ہے۔ اب ہم سوچتے کہ شاید پاکستانی ’’سکے‘‘ کو بھی ہمارا منخوس ہاتھ لگاتھا کہ پہلے جب ہم ’’پیسے‘‘کے تھے تو پیسہ غائب ہوگیا ’’آنے‘‘ کے ہوئے تو ’’آنہ‘‘ عنقا ہوگیا، اس کے بعد دونی، چونی، اٹھنی بھی ہمارے بابرکت ہاتھ کی بھینٹ چڑھ گئے تو روپے کے ہوگئے، وہ بھی داغ مفارقت دی گیا تو دو روپے پانچ روپے دس روپے کے نوٹوں پراپنا منخوس سایہ ڈالا تو۔وہ تو آپ بھی دیکھ رہے ہیں۔

کس درجہ ترا حسن بھی آشوب جہاں ہے

جس ’’سکے‘‘کودیکھا وہ تڑپتا نظر آیا

اپنی یہ صفت ہم نے اس لیے بتائی کہ سکوں کے علاوہ دوسری چیزوں کے معاملے میں بھی ہمارے مبارک ہاتھ کی تاثیر رہی ہے۔کسی اخبار میں پڑھا تھا کہ ٹماٹر صحت کے لیے حددرجہ اکسیرہے لیکن جاکر ڈھونڈا تو ٹماٹرکوشاید ہماری خبر پہلے مل چکی تھی۔پھر کہیں پڑھا کہ گندم کی روٹی میں سب کچھ ہوتاہے اس کاحشر بھی آپ دیکھ چکے ہیں، اس سے پہلے سیب انگور اور انار کا اقرار بھی کردیتے ہیں، ظاہر کہ ٹینشن توہونا تھا اور وہ ہوگیا،اب ٹینشن کا علاج ڈھونڈنے لگے، ڈاکٹروں کے پاس گئے تووہ ہم سے بھی زایدہ ٹینشن کے مریض نکلے۔ ولی راولی می شناسد کے مطابق ’’پاگل را پاگل می شناسد‘‘

توقع جن سے تھی کچھ ختگی کی داد پانے کی

وہ ہم سے بھی زیادہ کشتہ تیغ ستم نکلے

اس ٹینشن پر ٹینشن کے دور میں کسی نے بتایا کہ ’’چلغوزے‘‘ٹینشن دور کرنے کے لیے اکیسر ہوتے ہیں، ڈھونڈا تو ایک پشتو ٹپہ کا ساماجرا ہوگیا کہ

پتنگہ خاورے دے پہ سر شوے

شمعے لہ جوڑ شول پہ شیشیو کے مکانونہ

بات ہی ختم ہوگئی، جب ’’انجیر‘‘ ہر ’’مرغکے‘‘کا طمعہ نہیں توہم توپکے پکے’’ہرمرغکے‘‘ہیں۔دکاندار سے وجہ پوچھی کہ آخریہ انجیرکب سے سونے کا ہونے لگا ہے۔ بولا۔یہ باہر سے آتے ہیں اور وہاں اس کی قیمت ڈالروں میں لی جاتی ہے۔پھر وہی ’’باہر‘‘اور پھر وہی کم بخت ڈالر۔یہ کم بخت ڈالر اور یہ باہروالے ہمیں کبھی چھوڑیں گے بھی یا نہیں۔

صبریارب میری وحشت کا پڑے گا کہ نہیں

چارہ فرما بھی دور سے آشنا ہوں گے

اب آپ ہی بتائیں کہ ہم کریں بھی توکیا کریں جس چیز کوہاتھ لگاتے ہیں وہ پرائی ہوجاتی ہے، اب اس قبض یعنی ام الامراض کا علاج ایک طبیب نے یہ بتایا ہے کہ کچھ کھا پی لیاکرو تو آفاقہ ہوجائے گا یعنی’’ان کمنگ‘‘ہوگی تو آوٹ گوئنگ کی نوبت آئے گی لیکن یہاں یہ مسئلہ کہ ہم کھائیں توکیا کھائیں اور کیسے کھائیں۔

ہے اب اس معمورہ میں قحط غم مفت اسد

ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھائیں گے کیا؟

کیونکہ دلی جوایک شہرتھا عالم میں انتخاب۔ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے۔بلکہ انصاف دار کے۔سننا بولنا چالنا سب کچھ نصف نصف یعنی ’’آدھے پیٹ‘‘اب آدھے پیٹ والوں کو قبض نہیں ہوگی تو کیا ہوگااور قبض کوٹینشن نہیں ہوگی توکیاہوگا اور ٹینشن والوں کو انصاف یعنی نصف نصف۔مطلب یہ کہ۔اگر دوسری طرف سے بھی شروع کیجیے توبات نصف نصف پرآئے گی اور اس طرف سے وہ جو کسی نے کہاہے کہ آپ چارپائی میں جس جانب بھی ’’سر‘‘یا پیر کریں گے ’’درمیانہ‘‘درمیان ہی میں رہے گا۔ وہ ہم نے کسی رسالے میں ایک افسانہ پڑھا کہ ایک پوش ایریا میں سڑک پرایک بے ہوش آدمی پایا جاتاہے۔

سارے پوش علاقے کے باسیوں نے اس کارخیر میں حصہ لیاکیونکہ پوش علاقے میں اکثرلوگ مخیرہوتے ہیں، اسے ایک لگژری اسپتال لے جایاگیا، ڈاکٹروں نے ہرطرح کا معائنہ کیا، ایکسرے نکالے، طرح طرح کے ٹیسٹ کیے گئے لیکن نہ تو مریض ہوش میں آرہاتھا نہ اس کی بیماری کا پتہ چل رہاتھا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ڈاکٹروں کے بورڈز بنے، میٹنگیں ہوئیں ،طرح طرح کے ماہرین بلوائے گئے لیکن نتیجہ صفر۔ابھی ڈاکٹرلوگ اور مخیرحضرات دوڑ دھوپ کررہے تھے کہ اسپتال کے ایک اردلی نے مریض کے مرض کی نہ صرف تشخیص کی بلکہ چٹکی بجاتے ہی اس کا علاج بھی کردیا۔

وہ مریض کے وارڈ میں اپنی ڈیوٹی کر رہاتھا تو اس عجیب وغریب مریض کا جائزہ بھی لے رہا تھا، اچانک اس نے کچھ سوچ کر اور مریض کا چہرہ دیکھ کر اس کے منہ میں تھوڑا سا دودھ ٹپکایا تومریض ہونٹ ہلانے لگا، پھر اس نے مزید دودھ ٹپکایا تو مریض کے جسم میں حرکت پیدا ہونے لگی، آخر اس نے آنکھیں کھول دیں۔ یہ خبر سارے اسپتال میں پھیل گئی۔ اردلی سے پوچھا گیا کہ آخر اس نے یہ تشخیص کیسے کی۔اس نے کہا کہ یہ کیفیت مجھ پر بھی بارہا گزری ہے۔ مریض کے چہرے سے مجھے لگا کہ اس کا مرض بھی شاید بھوک ہی ہے ’’ام الامراض‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔