پاکستان اور مہاتیر محمد

راؤ منظر حیات  اتوار 1 دسمبر 2013
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

تھوڑا سا غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رہنما یا لیڈر کسی بھی ملک کا وہ اثاثہ ہوتے ہیں جن پر اُس ریاست یا ملک کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ تاریخ حتمی طور پر ہمیں سمجھاتی ہے کہ کسی بھی قوم کا رہنما مختلف طریقوں سے اُس کا نصیب بنتا ہے۔ کبھی حالات ایک انسان کو خود بخود بلندی پر لے جاتے ہیں اور کبھی ایک شخص حالات کو اس طرح تراشتا ہے کہ وہ کسی قوم کی رہنمائی کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے۔ مگر دونوں صورتوں میں اُس ریاست کی قسمت کا ستارا چمک اٹھتا ہے۔ دنیا میں بالعموم اور اسلامی ممالک میں بالخصوص یہ واقعہ بہت ہی کم  پیش آتا ہے۔ یقین فرمائیے عرصے دراز سے اتنا اندھیرا ہے کہ اب روشنی سے ڈر لگتا ہے۔ سامنے کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ ہمارے حالات بہت زیادہ دگرگوں اور پیچیدہ ہیں۔ ہم بحیثیت قوم بلندی سے گر کر ایسی پاتال میں گر چکے ہیں جسکی کوئی تہہ نہیں اور دوسرا ہمیں اپنے نقصان کا بھی صیح اندازہ نہیں۔ کیا کریں اور کیا شکوہ کریں؟ سب کچھ عبث ہے؟

مہاتیر 1925ء میں الورستار میں پیدا ہوا جو ریاست کیدا کا دارالخلافہ تھا۔ اُس کے والد ایک غریب اسکول کے ہیڈماسٹر تھے۔ مہاتیر کے والد اور والدہ دونوں کی یہ دوسری شادی تھی۔ پرائمری اسکول میں اس بچے نے انگریزی زبان پر توجہ دینی شروع کر دی اور اُس نے انگریزی زبان سیکھنے میں اپنے تمام ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ دوسری جنگ عظیم میں ملایا پر جاپانیوں نے قبضہ کر لیا۔ اسکول بند ہو گیا تو اس بچہ نے کیلے بیچنے شروع کردیے۔ وہ ہر وقت کام کرتا رہتا تھا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُس نے سنگا پور میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔ ڈاکٹر بننے کے بعد وہ اپنے قصبہ الورستار میں واپس چلا گیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں وہ بہت خوشحال ہو چکا تھا۔ اُس نے ایک بڑا گھر خرید لیا۔ شادی کر لی۔ اس کے تین بچے تھے۔ گاڑی چلانے کے لیے ایک چینی نژاد ڈرائیور رکھ لیا۔ وہ اپنی نسل میں پہلا ڈاکٹر تھا اور دوسرا اُس پورے علاقے میں کسی شخص نے کبھی بھی چینی نژاد ڈرائیور نہیں رکھا تھا۔ اِس لحاظ سے وہ بھی پوری ریاست میں پہلا شخص تھا۔ اب وہ سیاست میں متحرک ہو چکا تھا۔ وزیر اعظم تنکو عبدالرحمن بھی اسی ریاست سے تعلق رکھتا تھا جہاں سے یہ نوجوان۔ گرم خون اور اپنے خیالات کی بدولت وزیر اعظم اس شخص کو شدید ناپسند کرتا تھا۔

مہاتیر کے مطابق وزیر اعظم کو آزاد ملائیشیا میں برطانوی فوج نہیں رکھنی چاہیے تھی۔ ناپسندیدگی کی بدولت پہلے الیکشن میں وہ نوجوان ٹکٹ حاصل نہ کر سکا۔ لیکن یہ مدت بہت عارضی تھی۔1964ء میں مہاتیر پارلیمنٹ میں تھا۔ یہاں اُس کی حیثیت ایک بیک بینچر(Back Bencher) کی تھی۔ اُس پارلیمنٹ کا سب سے بڑا چیلنج سنگا پور کا مستقبل تھا۔ سنگا پور میں انتہائی کامیاب کاروباری چینی نژاد لوگ رہتے تھے۔ مہاتیر اس موضوع پر اپنی قوم یعنی “ملایا” کے حق میں بھر پور آواز اٹھاتا تھا۔ اُس کو معلوم تھا کہ اس کی قوم تعلیم اور کاروباری طور پر چینی نژاد لوگوں سے بہت پیچھے ہے اور قطعاََ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ وہ لوگوں کو بتا رہا تھا کہ یہ دونوں قومیں اکٹھی نہیں رہ سکتیں اور ان میں فساد ہو گا۔ جلد ہی سنگا پور کو علیحدہ کر دیا گیا۔ وزیر اعظم اس نوجوان ڈاکٹر سے تنگ آچکا تھا۔ چنانچہ 1969ء کے الیکشن میں نہ صرف وہ ہار گیا بلکہ اسے پارٹی سے بھی نکال دیا گیا۔ لیکن 1969ء ہی میں چینی نژاد لوگوں اور ملایا قوم میں زبردست خونریزی ہوئی اور ہزاروں لوگ مارے گئے۔ ڈاکٹر مہاتیر صحیح وقت پر لوگوں کو آنے والے خطرے کے متعلق آگاہ کر رہا تھا۔ اب اُس ڈاکٹر کا کوئی سیاسی مستقبل نہ تھا۔ اس تنہائی میں اس نے اپنی پہلی کتاب لکھی جو “ملایا قوم کا المیہ” کے نام سے شایع ہوئی۔ اُس ڈاکٹر نے لوگوں کو بتایا کہ اس کی قوم کو شدید محنت کرنی چاہیے۔ اس نے وزیر اعظم پر شدید تنقید کی۔ کتاب پر فوری طور پر پابندی لگا دی گئی اور یہ پابندی اُس وقت تک رہی جب تک جاری رہی۔ یہ نوجوان ملک کے اعلی ترین منصب پر نہ پہنچ گیا۔ وزیر اعظم تنکو عبدالرحمن کو استعفیٰ دینا پڑا۔

اب مہاتیر محمد کے سامنے سیاست کی دنیا کا وسیع میدان تھا۔ سب سے پہلے اُسے وزیر تعلیم بنایا گیا۔ اس نے حیرت انگیز فیصلے کرنے شروع کر دیے۔ اُس نے تعلیمی درسگاہوں کو ہر طرح کی سیاست سے پاک کر دیا۔ اُس نے صرف ان طلباء کو وظائف دینے شروع کیے جو سیاست سے دور رہتے تھے۔ اُس کی کامیابی کے باوجود اب بھی وہ وزیراعظم کی دوڑ میں تیسرے نمبر پر تھا۔ مگر مقدر کی بدولت وہ 1981ء میں ملائیشیا کا وزیر اعظم بن گیا۔ اُس کی عمر صرف 56 سال تھی۔ مگر یہ اس کے مشکل ترین دور کی ابتداء تھی۔

ملائیشیا میں ملک کا سربراہ چند سلاطین میں سے ایک ہوتا تھا۔ یہ اپنی ریاستوں کے بادشاہ تھے اور اپنی اپنی باری پر ایک خاص مدت کے لیے سربراہ مملکت بنتے تھے۔ ان سلاطین کے اختیارات بے پناہ تھے۔ جیسے وہ ملک میں ایمرجنسی لگا سکتے تھے۔ کسی بھی قانون جو پارلیمنٹ انھیں بھجوائے، کو رد کر سکتے تھے اور وہ قانون کی گرفت سے بالا تر تھے۔ مہاتیر نے ان کے اختیارات اور طاقت کو بتدریج کم کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس پر رضا مند نہیں تھے۔ ان کو لوگوں کی ہمدردیاں بھی حاصل تھیں۔ مہاتیر نے سب سے پہلے ان سے پارلیمنٹ کے کسی بھی پاس شدہ قانون کو رد کرنے کا اختیار واپس لے لیا۔ سلطان وقت نے اس بل پر بھر پور رد عمل کا اظہار کیا۔ مہاتیر وزیر اعظم کے طور پر یہ معاملہ سڑکوں پر لے آیا۔ ہنگامے، جلسے اور جلوس تقریباََ پانچ ماہ جاری رہے اور آخر میں سلطان کو ہتھیار ڈالنے پڑے ۔ یہ چیز ملائیشیا میں سوچی بھی نہیں جا سکتی تھی۔

مہاتیر نے ملایا قوم کے لیے تعلیم اور کاروبار کے دروازے کھول دیے۔ ان کو یونیورسٹی کی تعلیم کے لیے ترجیح دینے کا قانون بنا دیا۔ وہ جانتا تھا کہ ملک اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اقتصادی طور پر ترقی نہ کرے۔ چنانچہ سرکاری اداروں کی نج کاری کا عمل انتہائی برق رفتاری سے طے کیا گیا۔ سال میں 50 کے لگ بھگ سرکاری ادارے نجی شعبہ میں جانے لگے۔ اس میں ہوائی کمپنیاں، ٹیلی    کمیونیکیشن کے ادارے اور سروسز سیکٹر پیش پیش تھے۔ مٹشوبیشی(Mitisubishi)کمپنی کے ساتھ حکومتی شراکت داری سے کاروں کا ایک بہت بڑا کارخانہ لگایا گیا۔ “پروٹون” پورے ملک میں سب سے زیادہ بکنے والی کار بن گئی۔ اسلامی انتہا پسندی ملائیشیا کے چند حصوں میں بہت مشکلات پیدا کر رہی تھی۔ مہاتیر نے تعلیمی درسگاہوں کے زریعے اسے ختم کرنے کی کوشش کی۔ تمام اسلامی سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں بھر پور شکست دی۔ لیکن جن لوگوں نے حکومت کو بلیک میل کرنے کی تھوڑی سی بھی کوشش کی، مہاتیر نے ان کو مکمل طاقت سے کچل کر رکھ دیا۔ ابراہیم لیبا ایک اسلامی لیڈر تھا، اسے قتل کر دیا گیا۔ ال۔ ارقم نامی ایک فرقہ کو بین کر دیا گیا۔ اور کئی افراد پر مقدمات چلا کر قرار واقعی سزا دی گئی۔

1990ء میں مہاتیر نے اپنا اقتصادی پروگرام Vision 2020 پیش کیا۔ اُس نے قوم سے وعدہ کیا کہ 2020ء تک وہ ملائیشیا کو مکمل ترقی یافتہ ملک بنا دے گا۔ یہ وعدہ اُس نے بہت پہلے پورا کر دیا۔ نوے اور اس کی بعد کی دہائیوں میں ترقی کی شرح7% اور9% کے درمیان رہی۔ غریب کو اتنی سہولتیں دی گئیں کہ ملک میںغربت تقریباََ ختم ہو گئی۔ مہاتیر نے ایک سوپر کوریڈور(Super Corridor) بنائی جو کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک نیا مسکن تھا۔

لیکن کئی مسئلے ابھی بھی سر چڑھ کر بول رہے تھے۔ ملک کے ایک سلطان سکندر نے کچھ اشخاص پر بہت تشدد کروایا۔ اُس کو مکمل استثنیٰ حاصل تھا۔ مہاتیر نے ایک مہم چلائی اور سلاطین کے استثنیٰ  کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔ ان کے اختیارات پارلیمنٹ کے بل کے توسط سے تقریباََ ختم کر دیے گئے۔ 1997ء کے اندر ملائیشیا بدترین اقتصادی بحران کا شکار ہو گیا۔ اسٹاک مارکیٹ 75% تک گر گئی۔ رنگٹ بے قدری کا شکار ہو گیا۔ اس نےI.M.F کے نسخہ پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ مہاتیر نے حکومتی ترقیاتی پروگرام جاری رکھا، اور اپنے رنگٹ کی قدر میں اضافہ کیا۔ ملائیشیا I.M.F کی کسی شرط کو مانے بغیر، اقتصادی بحران سے باہر نکل آیا۔ مگر مہاتیر اپنے  ملک میں تیزی سے نا مقبول ہو رہا تھا۔ اس کا ڈپٹی وزیر اعظم انور اُسی کے خلاف نبرد آزما ہو چکا تھا۔ انور کو ہر سیاسی عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ مقدمہ بازی کی ابتداء ہوئی اور انور کو ایک کیس میں کڑی سزا سنا دی گئی۔ بیرونی دنیا سے مہاتیر نے بہت عزت اور برابری کی سطح پر تعلقات قائم کیے۔ امریکا کے نائب صدر نے ملائیشیا میں 1998ء میں مہاتیر کی ترقی پر تنقید کی۔ ال گورکو فوری طور پر ملک سے نکال دیا گیا۔

اپنے ملک کو ترقی کی منزل کی طرف گامزن کر کے، مہاتیر نے نوے کی دہائی کے آخر میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا اور وہ سیاست سے مکمل کنارہ کش ہو گیا۔ آج وہ ایک ریٹائرڈ زند گی گزار رہا ہے۔ اس عظیم شخص کے متعلق میں کیوں لکھ رہا ہوں؟ صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ لیڈر قوم کو بہت آگے پہنچا سکتا ہے۔ وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ میں، اس وقت سے یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر مہاتیر پاکستان کا شہری ہوتا تو کیا کر لیتا؟ شاید وہ بلدیاتی نظام میں ایک معمولی کونسلر بھی نہ بن پاتا؟ شاید اُس کا نام بھی کسی کو معلوم نہ ہوتا؟ شاید وہ اس نظام کے جبر کے سامنے مکمل بے بس ہو چکا ہوتا جس نے ہماری تمام صلاحیتیں سلب کر لی ہیں؟ شاید مہاتیر پاکستان میں زندہ ہی نہ رہ سکتا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔