قرضے عوام کیوں اتاریں ؟

ایس نئیر  اتوار 1 دسمبر 2013
s_nayyar55@yahoo.com

[email protected]

بادشاہ سلامت پر اچانک شاعری کا بھوت سوار ہوا ۔مزاج شناس مصاحبین لفافہ دیکھ کر ہی خط کا مضمون بھانپ گئے ۔ انھوں نے آناً فاناً محل میں عظیم الشان مشاعرے کا پنڈال کھڑے گھاٹ کھڑا کردیا ۔عالم پناہ نے اپنی تازہ ترین غزل نکالی اور مصاحبین نے اپنی جیبوں سے وہ پرچہ برآمدکیا، جس میں لغت کی مدد سے نئے تعریفی الفاظ کو ترتیب دے کر نئے جملے بنائے گئے تھے ۔ یہ پرچہ ایسی ہی ’’ ہنگامی ضرورت ‘‘ کو مد نظر رکھ کر درباریوں نے اپنی جیبوں میں رکھ چھوڑا تھا ۔جلدی جلدی پرچے کے جملوں پر نظر ڈال کر مصاحبین نے خود کو ریفریش (Refresh) کیا ۔ پھر عالم پناہ کے ہر شعر پر داد و تحسین کے وہ ڈونگرے برسائے گئے اورمکرر مکرر کی تکرار کا با آواز بلند ایسا کورس گایا گیا کہ عالم پناہ خود بھی بھونچکے رہ گئے ۔انھیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ ان کے اندر کس پائے کا قادر الکلام شاعر چھپا بیٹھا ہے ۔

ایک درباری تو ہر شعر پر داد دے کر، باقاعدہ اپنا سر پیٹ پیٹ کر ماتم کرتا ۔ اور روتے ہوئے  چلا کر کہتا ’’ ہائے ! جہاں پناہ !اس قدر اعلیٰ درجے کے کلام سے اب تک ہم غلاموں کو محروم رکھ کر آپ نے بڑی زیادتی کیوں کی ؟‘‘ دوسرے درباری نے فوری طور پر خود کو،سر پیٹنے اور واویلا کرنے والے مصاحب کو دلاسہ دینے پر مامورکرلیا ۔ اس دل گداز داد نے کئی مرتبہ جہاں پناہ کو آبدیدہ کر کے رکھ دیا ۔ خدا خدا کرکے غزل ختم ہوئی ۔ لیکن غزل کی تعریف میں دی جانے والی داد اور قصیدے اب بھی جاری تھے ۔ جہاں پناہ نے مجبوراً ڈانٹ ڈپٹ کرکے شاہی پنڈال میں خاموشی بحال کروائی ۔ پھر خاص خاص مصاحبین سے فرداً فرداً پوچھا ’’ غزل کیسی تھی ‘‘ ؟ جواب وہی ملا ، جو جہاں پناہ سننا چاہتے تھے اور پہلے سے جانتے بھی تھے ۔

سامعین میں ملا نصیر الدین بھی موجود تھے ۔ جو شروع سے آخر تک خاموش بیٹھے رہے تھے ۔ ’’غزل کیسی تھی ‘‘ ؟ عالم پناہ نے ملا سے پوچھا ۔ ملا نے ایک طویل سانس لی ، جلدی جلدی پلکیں جھپکائیں اور انتہائی برا سا منہ بنا کر بولے ’’ایک دم بکواس تھی ، غزل کا نہ سر تھا اور نہ ہی پیر،کسی بھی شعر کے نہ مصرعے ہم وزن تھے اور نہ ہی ردیف اور قافیے میں کوئی تال میل تھا ۔ بلکہ میں تو یہی سمجھنے سے اب تک قاصر ہوں کہ یہ غزل تھی یا آزاد نظم یا پھر یہ مادر پدر آزاد نثر تھی ۔ آخر آپ کو کس بے وقوف نے شاعری کرنے کا مشورہ دیا تھا ‘‘ ؟ یہ سنتے ہی مشورہ دینے والا وزیر تعلیم بھنا کر کھڑا ہوگیا ۔ اور چیخ چیخ کر دھائی دیتے ہوئے بولا ’’ملا نے جہاں پناہ کی ، اس دربار کی اور ادب کی تینوں کی توہین کی ہے ، اسے سخت سزا دی جائے ‘‘  درباری جو ملا کے اس ’’ سچ ‘‘ کو سن کراب تک سکتے میں تھے یکدم ہوش میں آکر وزیرتعلیم کے مطالبے پر تائید کا کورس گانے لگے ۔ جہاں پناہ جو پہلے ہی غصے سے بل کھا رہے تھے ، یکایک آگ بگولہ ہوگئے ، انھوں نے حکم دیا ’’ ملا کو فی الفور گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جائے اور صبح شام انھیں الٹا لٹکا کر دس دس جوتے مارے جائیں ‘‘  ملا جیل پہنچا دیے گئے ۔

چھ ماہ بعد پھر یہی منظر تھا ۔ جہاں پناہ پر آج دوبارہ شاعری کا دورہ پڑا تھا ۔ وہی پنڈال ، وہی سامعین اور وہی درباری ، بس تعریف کے الفاظ نئے تھے ، اچانک عالم پناہ کو ملا نصیر الدین یاد آگئے ۔ غزل روک کر پوچھا ’’ آج ملا نظر نہیں آرہے ہیں ‘‘ ؟دروغہ نے ادب سے جواب دیا ’’ جہاں پناہ ! وہ آپ کے ہی حکم سے جیل بھجوائے گئے تھے اب تک وہیں ہیں ‘‘  حکم صادر ہوا ’’ انھیں عزت و احترام کے ساتھ پیش کیا جائے ‘‘  لہذا ملا دربار میں پہنچادیے گئے۔ بادشاہ سلامت نے تازہ غزل سنائی اور سب سے پہلے ملا سے پوچھا ’’ غزل کیسی تھی ‘‘ ؟ ملا نے کوئی جواب نہ دیا اور اٹھ کر پنڈال کے نکاسی کے دروازے کی طرف چل دیے ۔ بادشاہ سلامت نے پیچھے سے آواز لگائی ’’ ملا کہاں چلے ‘‘ ؟ ملا نے رک کر گردن گھمائی پھر جہاں پناہ کی جانب خود گھومے اور ادب سے سر جھکا کر جواب دیا ’’جیل جا رہا ہوں عالم پناہ ‘‘ ۔ یہ تھا بادشاہ سلامت کی دوسری غزل پر ملا کا عملی تبصرہ ۔

احسن اقبال  کی برپا کی ہوئی مشاورتی کانفرنس اور پروگرام برائے 2025 ء سرکاری ٹی وی پر براہ راست دیکھنے اور سننے کے بعد نہ جانے کیوں میرا دل بھی ملا نصیر الدین کی مانند تبصرہ کرنے کے لیے مچلنے لگا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ملا کا تبصرہ فرمائشی تھا اور میرا رضاکارانہ ہے ۔ ملا ٹھہرے چھڑے چھانٹ اور بے روزگار آدمی ہنسی ٹھٹھے میں وقت گزارنے والے مخولیے ، دربار کی روٹی نہ ملی تو جیل کی روٹی توڑ لی ۔ اس لیے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سچا تبصرہ کر بیٹھے ۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ آج صدیوں بعد بھی شگفتہ عالمی ادب میں زندہ ہیں ۔ اور میں ٹھہرا ایک گمنام سا لکھاری ۔ مجھے کون پوچھے گا ؟ اسی لیے حوصلہ پکڑ کر عرض کروں گا کہ احسن اقبال  ، ڈار  اور خود میاں صاحب کی تقاریر تضادات کا مجموعہ تھیں ۔ ڈار صاحب جس وقت ملک کے معاشی حالات کا خوبصورت نقشہ کھینچنے میں مگن تھے ، عالمی مالیاتی اداروں میں نئی حکومت کے آنے کے بعد پاکستان کی ریٹنگ کے گراف کی بلندی کا ذکر فرما رہے تھے ۔ میرے گھر کے دروازے کے باہر سبزی والا با آواز بلند کسی اور قسم کے ریٹس کی آواز لگا رہا تھا ۔ ٹماٹر ایک سو اسی روپے کلو ۔ آلو اسی روپے کلو اور گوبھی ایک سو بیس روپے کلو ۔ صرف مٹر کے ریٹ گرے ہوئے تھے وہ صرف ایک سو چالیس روپے کلو تھے ، جب کہ کل یہ 150 روپے تھے ۔ ڈار صاحب کی ریٹنگ سمجھنے کے لیے اکنامکس میں بندے کو تھوڑی بہت شد بد ہونی لازمی تھی ۔لیکن سبزی والے کی ریٹنگ وہ لوگ بھی سمجھ رہے تھے جو اکنامکس کی ہجے بھی نہیں جانتے ۔

وزیر خزانہ فرما رہے تھے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے بغیر معیشت کی بحالی ناممکن ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا ایک ریلہ ، ان کی کوششوں سے پاکستان پہنچنے ہی والا ہے ۔ اور کروڑوں ڈالر تو آبھی چکے ہیں ۔  آئی ایم ایف سے مزید قرض لے کر ، پچھلے قرض کا سود اتارنے کی جس پالیسی پر وہ گامزن ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا ’’ہم نے نیا قرضہ صرف اس لیے لیا ہے کہ پچھلی حکومت کے کرتا دھرتاؤں نے جو قرضے لیے تھے انھیں اتارا جاسکے ۔ جو پچھلی حکومت والے لے کر،کھا کر اور ڈکار مارکر چلتے بنے ہیں‘‘ وہ قرضے کہاں گئے ؟ اسحاق ڈار کے مطابق ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ۔ ادھر اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر فقط تین ارب بیس کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں ، جو صرف تین ہفتے کے درآمدی بل کے برابر رقم ہے ۔ اور ڈالر لمحہ موجود میں ایک سو دس روپے پر پہنچ چکا ہے ۔ ڈار صاحب کا کہنا ہے کہ ہم وہ قرض اتار رہے ہیں جو ہم نے لیا ہی نہیں تھا۔

ڈار صاحب سے دو سوال کرنے کی جسارت کی جاسکتی ہے ۔

نمبر1 ۔ پچھلی حکومت اور موجودہ حکومت نے جو قرضے لیے ہیں ، 18 کروڑ عوام انھیں کس خوشی میں اتار رہے ہیں ؟ کیا یہ قرضے عوام نے لیے تھے ؟

نمبر 2 ۔ جو قرضے ڈکار مار کر چلتے بنے ہیں ، انھیں پکڑنا کیا عوام کی ذمے داری ہے ؟ اگر ایسا ہے تو اقتدار تو آپ کا ہے  حکومتی ادارے کس مرض کی دوا ہیں ۔ ایف آئی اے کے ذریعے ان کی گرفت کیوں نہیں کی جاتی ؟( باقی جیل سے آنے کے بعد، اگر ملا کی طرح بھجوا دیا گیا تو ۔ )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔