تکلف سے تکلیف تک ۔۔۔

صدف آصف  پير 2 دسمبر 2013
شادی بیاہ میں اسراف کے خلاف خواتین اپنا کردار اداکریں۔ فوٹو: فائل

شادی بیاہ میں اسراف کے خلاف خواتین اپنا کردار اداکریں۔ فوٹو: فائل

شادی بیاہ کی تقریبات میں قسم قسم کے کھانے کھلانے کا رواج کیا عام ہوا، بات تکلف سے نکل کر تکلیف تک جا پہنچی۔

لڑکی کے والدین اس بڑھتی ہوئی گرانی میں جہاں اسباب جہیز کی لمبی فہرست سے خوف زدہ نظر آتے، وہیں وہ دعوت کے کھانے کے سلسلے میں خاندان بھر کے دبائو میں رہتے کہ ’’شادی کی دعوت کا کھانا تو زوردار ہونا چاہیے۔‘‘ کچھ خواتین تو منہ پر ہی کہہ دیتی ہیں کہ بھئی بری، جہیز تو گھر والوںکی، لیکن مہمانوں کو تو صرف کھانا ہی ملتا ہے نا، کچھ  توخیال کیا ہوتا۔۔۔!  لے کے اتنا  پیسہ نری شو شا پر خرچ کر دیا۔ جہاں رشتے داروں کو کھلانے کی باری آئی تو ڈنڈی مار دی۔ اکثر مرد حضرات سے زیادہ خواتین اس موقع پر کسی طرح دوسروں کی جاں بخشی سے باز نہیں آتیں۔

ایسے میں اگر لڑکی کا باپ حالات  کی مجبوری اور تنگی کی وجہ سے ون ڈش کی بات بھی منہ سے نکالتا تو،ایک  شور و غوغا مچ جاتا، باہر والے تو  دور کی بات گھر والے ہی پیچھا لے لیتے ہیں۔ اس تمام تر معاملے میں خواتین کو سب سے زیادہ اپنی ناک کی فکر ہوتی ہے۔ ایک طرف میکے اور سسرال میں اپنی سیوا کرانی ہے تو دوسری طرف سمدھیانے کو بھی تو اپنی شان دکھانی ہے۔ یوں یہ سارا دبائو ایک طرف سے دوسری طرف اور دوسری طرف سے تیسری طرف بہ ذریعہ خواتین بڑی تیزی سے پھیلتا ہے، کیوں کہ یہ چیز خواتین کے درمیان باہمی طور پر بہت زیادہ بڑا مسئلہ بنتی ہے۔ وہی اس چیز کو فروغ دیتی ہیں، کہ کل میں نے فلاں کی شادی میں یہ میخیں نکالی تھیں، اگر آج میرے گھر میں اس چیز کی کمی رہ گئی تو مجھے ’’جوابی حملے‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا، لہٰذا کسی طرح کی کسی کو کچھ کہنے کی کسر باقی نہیں رہنی چاہیے۔

یہ تمام چیزیں آج کل کی کٹھن منہگائی کے دور میں ایک عام گھر کے لیے شادی جیسے فریضے کو انجام دینا خاصا مشکل بنا دیتی ہے۔ اس کے باوجود اکثر لوگ عیب جوئی سے باز نہیں آتے۔ ’’ارے، باسمتی کی جگہ سیلا چاول  چلا دیا، تب ہی تو کنی رہ گئی۔۔۔‘‘ کوئی ڈکار لیتے ہوئے کہے گا کہ ’’سالن میں سے تو ہیک آ رہی تھی۔۔۔‘‘ کوئی دانتوں میں سے بوٹی نکالتے ہوئے تبصرہ کرے گا کہ ’’میاں، باربی کیو کا آئٹم تو گول ہی کر دیا۔۔۔‘‘ غرض یہ کہ میزبان کا بھرکس نکل گیا اور کھانے والا کہہ رہا ہے کہ ’’مزہ نہیں آیا۔۔۔!‘‘

یہ مسئلہ صرف لڑکی کے گھر تک محدود نہیں، بلکہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی نمود و نمایش اور سادگی کے فقدان کی وجہ سے بہت سے لڑکے والے بھی اس کا شکار ہیں۔ مہمانوں کی توقع ہوتی ہے کہ ولیمے کا کھانا، وداع کی دعوت سے بھی شان دار ہونا چاہیے، ورنہ سبکی ہو جائے گی۔۔۔ آخر لڑکے والے جو ٹھہرے۔ بعض گھرانوں میں تو شادی کی  دعوت کھانے کے بعد ولیمے میں دو تین اضافی ڈشیں رکھی جاتیں،کہ کم سے کم گنتی میں تو لڑکی والوں سے پلہ بھاری رہے۔

معاشرے کی یہ رسومات بھی صاحب ثروت احباب کی خواہشات کا نتیجہ ہوتی ہیں، جو کم حیثیت والوں کے لیے سب سے بڑا امتحان بن جاتی ہیں۔ پیسے والوں کو تو  اپنے پیسے خرچ کرنے کا بہانہ چاہیے۔ اپنی واہ  واہ کرانے، شان وشوکت اور رشتے داروں میں اپنی دھاک بٹھانے کی خاطر ان کی آپس میں ہی رسہ کشی جاری رہتی ہے۔ کوئی سوچتا ہے کہ فلاں نے اپنی بیٹی کی شادی پر اتنے پکوان کھلائے تو، میں اس سے زیادہ رکھوں گا! یوں ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑتا ہے۔ شادی کی کسی بھی تقریب کا مشاہدہ کیا جائے، تو ایسا محسوس ہوگا کہ اس قوم کا مسئلہ صرف کھانا ہے۔ جیسے ہی بیروںکی جانب سے  ڈشوں کے ڈھکنے زمین پر زوردار آواز میں دھرے جاتے ہیں، اور اب تو میزبانوں کے ’’آئیے بسم اللہ کیجیے‘‘ کہنے کی  زحمت شاذ ہی آتی ہے اور سب ہی اِسے ’’چلو شروع ہو جائو‘‘ کا اذن سمجھنے میں ذرا بھی توقف نہیں کرتے۔ کچھ خصوصی مہمان ظاہری تکلف برتتے ہیں اور یہ ’’نقارے‘‘ سن کر چوکنا ہو چکے ہوتے ہیں، جوں ہی میزبان ان کے تکلف کی تسکین کرتے ہوئے کھانے کی درخواست کرتے ہیں، چشم زدن میں یہ بھی ہجوم میں گم ہوجاتے ہیں۔

اس کے ساتھ آج کل کھانے کے ساتھ جدت پسندوں نے تقریب کے شروع ہونے سے آخر تک مختلف لوازمات کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ جیسے موسم کی مناسبت سے ’’ویلکم ڈرنک‘‘ کے نام پر  رنگ برنگے مشروبات  فالودہ، آئس کریم، چکن سوپ، کافی اور کشمیری چائے وغیرہ پیش کیے جاتے ہیں۔ پیسے کے اس کھیل میں اگر کوئی پستا ہے تو وہ طبقہ، جو جیسے تیسے معاشرے میں اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہوتا ہے۔

شادی تو ایک بہت سادہ عمل ہے، جسے ہم ہی لوگوں نے پیچیدہ بنا دیا ہے کہ دونوں خاندان اخراجات کے بوجھ تلے دبتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اب چاہے قرض لیں یا کوئی قیمتی چیز فروخت کریں، ان کے اندر اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ ان فرسودہ رسومات کے خلاف سینہ سپر ہو سکیں۔ ادھر خواتین بھی اپنا حصہ ان کو مہمیز لگانے کے لیے ہی ڈالتی ہیں، بہت سے گھرانوں میں انہی کی ایما پر بہت سے اخراجات بڑھائے جاتے ہیں، جب کہ اگر دونوں خاندان کی خواتین اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے ان فضول خرچیوں کے آگے روک لگائیں تو یہ خاصا بہتر ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف شادیوں میں بے جا اسراف روکنے کے لیے ماضی میں حکومتی سطح پر مختلف قوانین منظور کیے جاتے رہے ہیں اور حال ہی میں ایک بار پھر اس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ہر چیز کے لیے سرکار کی جانب سے منادی کا انتظار کریں گے کہ  اوپر سے ہی کوئی قدغن لگے، اس کے بنا ہم اپنے شادی بیاہ جیسے مسائل بھی خود حل نہیں کر سکتے۔

کچھ عرصے قبل جب شادی کی تقاریب میں کھانوں کی ممانعت ہوئی تو سب نے دیکھا کہ لوگوں نے کس دھڑلے سے اپنی شادیوں کے ساتھ عقیقے سے لے کر بسم اللہ اور یہاں تک کہ ختم القرآن تک کے نام کو دھوکا دینے کے لیے استعمال کیا۔ کسی نے یہ نہیں کیا تو مٹھی گرم کر کے کام چلایا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب تک ہم خود سیدھے نہیں ہوں گے، ہمارے سماجی مسائل بھی یوں ہی ہم پر حاوی رہیں گے۔ قوانین تو بنتے رہے ہیں، مگر قانون کی عمل داری اس ریاست میں ہمیشہ سے سوالیہ نشان رہی ہے۔ اگر عمل نہ ہو تو یہ پسے ہوئے طبقے پر ایک اور تازیانہ ہوگا کہ اسے مہمانوں کی تواضع کے ساتھ اب دوسروں کو ’’کھلانے پلانے‘‘ کا انتظام کرنا پڑے گا، جیسا کہ عموماً ہوتا ہی رہا ہے۔ حکومت اب ایک بار پھر جہیز پر پابندی اور شادیوں میں ایک پکوان کو یقینی بنانے کے لیے پھر کوئی قانون منظور کر رہی ہے، تو بلاشبہ یہ خوش آیند ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری اس قانون پر عمل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔