کورونا وائرس شریعت کی روشنی میں

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی  جمعـء 3 اپريل 2020
ہاتھ دھوتے رہیں، پانی وافر مقدار میں پئیں اور اجتماعات سے دُور رہیں۔ فوٹو: فائل

ہاتھ دھوتے رہیں، پانی وافر مقدار میں پئیں اور اجتماعات سے دُور رہیں۔ فوٹو: فائل

دنیا میں وقتاً فوقتاً ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، جن سے قیامت کا منظر یاد آجاتا ہے۔

کورونا کے متعلق بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور اب دنیا کا ہر فرد اس مہلک بیماری اور اس کی علامات و اسباب سے واقف ہے۔ مختلف قسم کی بیماریوں کے علاج کے لیے دواؤں اور ٹیکوں کے ایجاد ہونے کے باوجود ایسی نئی بیماریاں سامنے آتی رہتی ہیں جن کے سامنے ساری دنیاوی طاقتیں زیر ہوجاتی ہیں، جس کی تازہ مثال کورونا وائرس ہے۔ پوری دنیا میں اس بیماری کے خوف نے لوگوں کے چین و آرام کو چھین لیا ہے۔ اس لیے ایسی بیماریوں سے عبرت حاصل کریں اور اس پوری کائنات کے خالق، مالک اور رازق کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس کی مخلوقات سے یقیناً استفادہ کریں۔

مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ ایسے وبائی امراض کے پھیلنے پر شریعت اسلامیہ کی روشنی میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں پوری اُمّت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ سب سے پہلے ہمارا تعلق اﷲ تعالیٰ کی ذات سے مضبوط ہونا چاہیے، لہذا ہم گناہوں سے معافی مانگنے کے ساتھ احکامِ الٰہی پر عمل پیرا ہوں۔ سیرت نبوی ﷺ پڑھنے والے حضرات بہ خوبی واقف ہیں کہ ایسے حالات آنے پر حضور اکرم ﷺ نے ہمیشہ صحابۂ کرامؓ کو اپنے قول و عمل سے اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا پیغام دیا ہے۔ یقیناً بعض امراض ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتے ہیں، اسی لیے کسی وبائی مرض کے پھیلنے پر آخری نبی ﷺ نے ساری انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ وبائی مرض کے پھیلنے کی جگہ جانے سے احتیاط رکھی جائے اور اُس علاقے کے لوگوں کو دوسرے علاقوں میں جانے سے حتی الامکان بچنا چاہیے، لیکن اس یقین کے ساتھ کہ بیماری اور شفا اﷲ کے حکم سے ہی ملتی ہے۔

اس موجودہ بیماری کا بہ ظاہر کوئی علاج دست یاب نہیں ہے، اس لیے احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا شریعت اسلامیہ کے عین مطابق ہے۔ مگر ہماری کوئی تدبیر قرآن و حدیث کے واضح حکم کے خلاف نہ ہو۔ یقیناً ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہییں لیکن اﷲ تعالیٰ پر توکّل کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اسباب و ذرائع و وسائل کا استعمال کرنا منشائے شریعت اور حکم الٰہی ہے۔ حضوراکرم ﷺ نے اسباب و وسائل کو اختیار بھی فرمایا اور اس کا حکم بھی دیا۔ لہذا حسب استطاعت اسباب کو اختیار کرنا چاہیے، لیکن اﷲ تعالیٰ پر توکّل بھی ضروری ہے۔ قرآن کریم میں اﷲ پر بھروسا کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔

صرف چند آیات کا مفہوم پیشِ خدمت ہے: ’’ تم اُس ذات پر بھروسا کرو جو زندہ ہے، جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔‘‘ (سورۃ الفرقان) ’’جب تم کسی کام کے کرنے کا عزم کرلو تو اﷲ پر بھروسا کرو۔‘‘ (سورۃ آل عمران) ’’جو اﷲ پر بھروسا کرتا ہے اﷲ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔‘‘ (سورۃ الطلاق) ’’بے شک ایمان والے وہی ہیں جب اُن کے سامنے اﷲ کا ذکر کیا جائے تو اُن کے دل نرم پڑجاتے ہیں اور جب اُن پر اُس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ آیات اُن کے ایمان میں اضافہ کردیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسا کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الانفال)

ہمارے نبی کریمؐ نے بھی متعدد مرتبہ اﷲ پر توکّل کرنے کی تعلیم دی ہے، ایک حدیث کا مفہوم ہے: حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر تم اﷲ پر توکّل کرتے جیسے توکّل کا حق ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ تم کو اس طرح رزق عنایت فرماتے جیسا کہ پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح سویرے خالی پیٹ نکلتے اور شام کو پیٹ بھر کر واپس لوٹتے ہیں۔ ‘‘ (ترمذی)

کورونا مرض کو بڑھنے سے روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں، اس بیماری کی علامتیں پائے جانے پر فوراً اسپتال کا رخ کریں اور دوسروں سے حتی الامکان دُور رہیں۔ تمام لوگوں کو چاہیے کہ ہاتھ دھوتے رہیں، خاص کر ہر نماز کے وقت اچھی طرح وضو کریں۔ پانی وافر مقدار میں پینا چاہیے، بے ضرورت اجتماعات سے دُور رہیں، مگر یہ بات یاد رکھیں کہ موت کا وقت اور جگہ متعین ہے اس لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اپنی وسعت کے مطابق اس مرض سے بچنے کی کوشش کریں۔

اﷲ تعالیٰ نے موت کی اس حقیقت کو بار بار بیان کیا ہے، چار آیات کا مفہوم پیش ہے: ’’تم جہاں بھی ہوگے (ایک نہ ایک دن) موت تمہیں جا پکڑے گی۔ چاہے تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہے ہو۔‘‘ (سورۃ النساء)۔ (اے نبیﷺ!) ’’ آپ کہہ دیجیے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تم سے آملنے والی ہے۔‘‘ یعنی وقت آنے پر موت تمہیں ضرور اچک لے گی۔ (سورۃ الجمعہ) ’’جب اُن کی مقررہ میعاد آجاتی ہے تو وہ گھڑی بھر بھی اُس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتے۔‘‘ (سورۃ الاعراف) ’’اور نہ کسی متنفّس کو یہ پتا ہے کہ زمین کے کس حصے میں اُسے موت آئے گی۔‘‘ (سورۃ لقمان ) ان مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اﷲ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ چناں چہ بعض بچپن میں، تو بعض عنفوان شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں، جب کہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبّیک کہہ جاتے ہیں۔

بعض صحت مند تن درست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔ جب ہمارا یہ یقین ہے کہ حالات سب اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتے ہیں، اور وہی مشکل کُشا، حاجت روا، بگڑی بنانے والا اور صحت دینے والا ہے، لہذا ہم دعا کا خاص اہتمام رکھیں کیوں کہ دعا ایک اہم عبادت بھی ہے۔ ہمیں دُعا میں ہرگز کاہلی و سستی نہیں کرنا چاہیے، یہ بڑی محرومی کی بات ہے کہ ہم مصیبتوں اور بیماریوں کے دُور ہونے کے لیے بہت سی تدبیریں کرتے ہیں مگر وہ نہیں کرتے جو ہر تدبیر سے آسان اور ہر تدبیر سے بڑھ کر مفید ہے یعنی دعا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے خالق و مالک کے سامنے خوب دعائیں کریں کہ اﷲ تعالیٰ پوری دنیا سے اس بیماری کو دُور فرمائے۔ آمین

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔