کورونا وائرس؛ پاکستانی و برطانوی حکومتوں کے اقدامات

شبانہ یوسف  ہفتہ 4 اپريل 2020
shaboroz@yahoo.co.uk

[email protected]

اپنے ملک سے باہر رہنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان دو معاشروں کا تقابلی جائزہ لینے کے کچھ حد تک قابل ہوجاتا ہے اور اپنے ملک میں رہتے ہوئے جن خوبیوں کا ادراک تک نہیں ہوتا ان کا ،نہ صرف علم ہوجاتا ہے بلکہ ، قدر بھی ہونے لگتی ہے۔

آجکل اخبارات، الیکٹرانک میڈیا ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ہر جگہ ایک ہی موضوع زیرِِ بحث ہے اور وہ ہے کورونا وائرس کی علامات، اس سے بچاؤ کی تدابیر، مرکزی و صوبائی حکومتوں کی طرف سے کیے جانے والے حفاظتی انتظامات پر تنقید اور مباحثے۔ ٹی وی چینلز پر کچھ تجزیاتی پروگرام دیکھے جس میں مرکزی و صوبائی حکومتوںکی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کو سراہا کم جا رہا ہے اور تنقید کا نشانہ زیادہ بنایا جا رہا ہے حتیٰ کہ سیاستدان اس وقت بھی اپنی سیاست کو چمکانے کے چکر میں مصروف نظر آئے ہیں۔

جو کہ انتہائی افسوس کی بات ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے جو بھی حفاظتی انتظامات کیے جا رہے ہیں وہ واقعی قابلِ تحسین ہیں۔کورونا وائرس نے پوری دنیا میں کتنے انسانوں کی جان لی اور اس سے متاثرہونے والے کتنے افراد اب بھی حیات و موت کی کشمکش میں ہیں ؟ میرا یہ کالم لکھنے کا مقصد پاکستان کی مرکزی و صوبائی حکومتوں، قومی صحت کے ادارے سے وابستہ ماہرین ، سرکاری و غیر سرکاری ملازمین اور سماجی و فلاحی اداروں سے وابستہ ان افراد کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنے ہم وطنوں کی جان بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔

محدود وسائل ہونے کے باوجود ہماری مرکزی و صوبائی حکومتیں اور پاکستانی بہن بھائیوں نے اس مشکل وقت میں جس جاں فشانی سے اس وائرس کے خلاف جہاد جاری رکھا ہوا ہے اس کی مثال ترقی یافتہ یورپی ممالک میں نہیں مل رہی۔ میں اس وقت پاکستان کو برطانوی معاشرے کے مقابل رکھ کر ایک سرسری جائزہ لے رہی ہوں۔  میں نے کورونا وائرس کی اس وباء کے پھیلاؤ کے دنوں ہی میں مارچ کے اوائل میں پاکستان میں قیام کیا ہے۔ کورونا وائرس کی اس وبا ء کو عام ہوئے تقریباََ تین ماہ ہوچکے تھے میں لاہور ائرپورٹ پر جب آئی تو پاسپورٹ کنٹرول ڈیسک پر جانے سے پہلے ائیر پورٹ پر تعینات عملہ بیرون ملک سے آنے والے ہر مسافر کو ایک آلے کے ساتھ چیک کر کے ہی اندر جانے کی اجازت دے رہا تھا۔ یہ سب دیکھ کر جہاں دل کو اطمینان ہوا وہاں یہ خوشی بھی ہوئی کہ ہمارے ملک نے اس جان لیوا وائرس کے حوالے سے عملی اقدامات سنجیدگی سے کیے ہیں، جب کہ برطانیہ میں مارچ کے آغاز تک اس پر عملی اقدامات کرنا تو دورکی بات عوام کو اس حوالے سے کوئی معلومات بھی نہیں دی گئی تھیں۔

دوہفتوں کی چھٹیاں گزارنے کے بعد میں جب واپس برطانیہ آرہی تھی تو پاکستان میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے عملی سرگرمیاں اور بھی تیز ہوچکی تھیں۔ ائیر پورٹ پر تمام عملہ حفاظتی انتطامات کرکے اپنے فرائض انجام دے رہا تھا ، جب کہ برمنگھم ائر پورٹ پر پہنچ کر پہلا تاثر تو میرے دل میں یہی ابھرا کہ پاکستان میں حکومت اور لوگ شاید زیادہ پینک ہیں اس لیے وہاں پر اس حوالے سے بہت زیادہ احتیاط کی جا رہی ہے۔ دوسرا خیال یہ آیا کہ شاید کورونا وائرس نے برطانیہ میں قدم رکھا ہی نہیں جو ائر پورٹ پر نہ تو کسی نے مسافروں کا پاکستان کی طرح کورونا وائرس کو چیک کرنے کے لیے کوئی ٹیسٹ لیا اور نہ ہی کہیں حفاظتی تدابیر لکھی نظر آئیں۔ جیسے ہی ائر پورٹ سے باہر قدم رکھا برمنگھم کے رہنے والے بہت پریشان دکھائی دیے۔

بہت سے لوگوں کی اموات ہوجانے کے باوجود برطانوی حکومت نے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا تھا۔ برطانوی حکومت کی عدم دلچسپی اور لاپرواہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میں جس فلائیٹ سے برطانیہ پہنچی تھی اس میں مختلف ممالک سے آنے والے مسافروں کو دبئی سے اکٹھا کر کے برطانیہ لایا گیا تھا مگر، ائر پورٹ پر کسی مسافر کا کورونا وائرس کے حوالے سے چیک اپ نہیں کیا گیا تھا اور آزادانہ تمام معاشرے میں گھومنے کے لیے اجازت دے دی گئی۔ مارچ کے وسط تک برطانوی حکومت ٹی وی پر لوگوں کو یہ تلقین کر رہی تھی کہ جس جس کو کورونا کی علامات اپنے اندر محسوس ہوں وہ خود کو رضاکارانہ طور پر 13 دن کے لیے اپنے گھر میں محصور کر لے۔ میرے لیے یہ احساس برا تکلیف دہ تھا کہ کیسے برطانوی حکومت اپنے شہریوں کو بے یارومددگار چھوڑ رہی ہے۔

کورونا وائرس سے متاثر فرد کو اس کے گھر میں رہنے کا مشورہ دینے کا مطلب صاف یہ تھا کہ باقی گھر کے افراد بھی با آسانی اس مرض کا شکار ہوجائیں، کیونکہ برطانوی گھر بہت ہی چھوٹے اور ان میں عموماًِ ایک ہی باتھ روم ہوتا ہے۔کچھ یہی حال یورپی حکومتوں کا بھی ہے۔ برطانیہ میں بہت سے افراد جو کورونا وائرس کا شکار ہوکر جب قومی صحت کے ادارے سے مدد کے لیے فون کرتے ہیں تو پہلے ان سے آدھ گھنٹہ ان کے بارے میںمعلومات لی جاتی ہیں پھر ان سے پوچھا جاتا ہے کہ مریض بے ہوش تو نہیں ہوا ؟ اگر بے ہوش نہیں تو مشورہ دیا جاتا ہے کہ جب بے ہوش ہوجائے یا بالکل یہ لگے کہ سانسیں بند ہورہی ہیں تو پھر ہمیں اطلاع دیں۔یعنی جب موت کے دھانے تک پہنچ جائے تو ایمبولینس بھیجی جائے گی۔ بہت سی خواتین تنہا اپنے بچوں کے ساتھ ہیں اور کورونا وائرس کا شکار ہوچکی ہیں۔

ان کو بھی ان کے بچوںکے ساتھ گھروں پر ہی رکھا جارہا ہے اور ہاسپٹلز میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ ان کو یہ ہدایات دی گئی ہیں کہ اگر کورونا سے متاثرہ افراد ۱۰ کی تعداد میں ایک ساتھ آئیں تو ان میںسے آپ انتخاب کر سکتے ہیں کون بچ سکتا ہے اسی کو بچایا جائے۔

کورونا وائرس کی خطرناک وباء کے پھیلنے کے باوجود برطانوی حکومت نے ابھی تک مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان نہیں کیا بلکہ ، یہ پیشین گوئی خبروں کے ذریعے دی جارہی ہے کہ اپریل کے وسط تک شرحِ اموات میں مزید اضافہ ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی روک تھام کے لیے وہ اقدامات بھی برطانوی حکومت کیوں نہیں کر رہی جو پاکستان جیسے غریب ملک کی حکومت نے کیے ہیں یا جو جرمنی میں کیے گئے ہیں،جب کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو تین ماہ سے اوپر کا عرصہ ہوچکا ہے۔

ایسا لگتا ہے چین کی معاشی ترقی کا رستہ روکنے کے لیئے مغربی دنیا کی طرف سے جو چال چلی گئی ہے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ،مغربی معاشروں میں بھی کلینزنگ کی جارہی ہے تاکہ ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کے لیئے اپنی ہی آبادی کے اس حصے کو ختم کردیا جائے جو نہ تو ٹیکس ادا کرتا ہے اور نہ ہی کسی عملی و سماجی سرگرمی کے قابل ہے، بلکہ اس پر بجٹ کا بہت بڑا حصہ خرچ ہوجاتا ہے،اٹلی اور اسپین میں بھی مرنے والے افراد عمر رسیدہ ہیں اور ان کی آبادی کا بہت بڑا حصہ انھی پر مشتمل تھا۔ بظاہر یہ ایک تلخ اور نہ ماننے والا خیال ہے مگر مغربی معاشروں کی تاریخ ایسے ظلم سے بھری پڑی ہے اوربرطانوی حکومت کے غیر سنجیدہ اقدامات اس خیال کو لوگوں کے دل ودماغ میں پختہ کرتے جارہے ہیںکہ برطانوی حکومت جب اپنے اہداف پورے کر لے گی تو کورونا وائرس کی کیور بھی مل جائے گی اور یہ کنٹرول بھی ہوجائے گا، پھر اس کو کنٹرول کرنے والی ادویات کی فروخت بھی معیشت میںمضبوطی کا سبب ہوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔