کورونا وائرس نے دنیا بدل دی

سید عاصم محمود  اتوار 5 اپريل 2020
 بین الاقوامی سطح پہ تیزی سے پھیل جانے والی خطرناک وباء نے معاشرت سے لے کر معیشت و سیاست پر مرتب کر ڈالا

بین الاقوامی سطح پہ تیزی سے پھیل جانے والی خطرناک وباء نے معاشرت سے لے کر معیشت و سیاست پر مرتب کر ڈالا

تاریخ انسانیت میں ایسے عظیم الشان واقعات بہت کم ظہور پذیر ہوئے ہیں جنہوں نے ایک مخوص علاقے کو متاثر نہیں کیا بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر ہلا ڈالا۔

دسمبر 2019ء میں نئے کورونا وائرس (SARS-CoV-2) نے جس زبردست وبا’’کوویڈ۔19‘‘ (COVID-19)کو جنم دیا، وہ ایک ایسا تایخی واقعہ ثابت ہوا جو بین الاقوامی سطح پر انسانی زندگیوں میں کئی تبدیلیاں لے آیا۔ کرہ ارض پر 195 ممالک واقع ہیں اور اس وباء نے ان سبھی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر انسانی تاریخ میں اپنی اہمیت اجاگر کردی۔ بیماری کا سب سے خطرناک روپ وباء ہے۔ جب یہ جنم لے، تو بعض اوقات سلطنتیں تک تباہ کر ڈالتی ہے اور عوام و خواص، دونوں کی زندگی تلپٹ ہوکر رہ جاتی ہے۔وباء پھر شاہ دیکھتی ہے نہ گدا اور ہر کسی کو دبوچ کر انسان پہ اس فانی دنیا کی بے ثباتی اجاگر کر ڈالتی ہے۔

جنوری 1918ء سے دسمبر 1920ء تک دنیا کو ایک فلو وائرس سے پھیلنے والی ’’ہسپانوی وباء‘‘ نے اپنی لپیٹ میں لیے رکھا تھا۔ اس کی زد میں آکر کم از کم پانچ کروڑ انسان چل بسے تھے۔ صرف ہندوستان میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد شہری ہلاک ہوئے۔ ہندوستان کی انگریز حکومت نے اس وباء کا بخوبی مقابلہ کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے اور لاکھوں ہندوستانیوں کو موت کے رحم وکرم پہ چھوڑ دیا۔چناں چہ عوام میں اس خیال نے جنم لیا کہ بدیسی حکمرانوں کو ان کی کوئی پروا نہیں۔انگریزوں کی اس کوتاہی نے تحریک آزادی ہندوستان پورے ملک میں پھیلا دی اور عام لوگ ان کی حکومت ختم کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ یوں ہسپانوی فلو نے اس عظیم برطانوی سلطنت کے تاروپود بکھیرنے میں اپنا کردار ادا کیا جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔

نئے کروناوائرس کے بطن سے پھوٹی وباء بھی پوری دنیا میں کئی انسانی شعبوں خصوصاً معاشرت، معیشت، سیاست، نفسیات، صحت اور تمدن میں انقلابی تبدیلیاں لے آئی۔ درحقیقت وباء نے انسانی معاشرتی زندگی مفلوج کرکے رکھ دی۔ حتیٰ کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے لوگ بھی ایک دوسرے سے ’’معاشرتی دوری‘‘ (social distancing) اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اجتماع کرنا منع ہوا اور ذاتی صفائی و پاکیزگی پر سب سے زیادہ زور دیا جانے لگا۔ اس وبائئی حملے نے بنی نوع انسان کو کئی نقصان پہنچائے، تو بہت سے نئے سبق بھی عطا کیے۔

کورونا وائرس کی وباء نے کئی ممالک میں روزمرہ زندگی لاک ڈاؤن کردی، اسٹاک مارکیٹیں بٹھادیں اور نجی و سرکاری ادارے بند کرادیئے۔ اس باعث لاکھوں لوگ اپنے ذریعہ روزگار سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ اگرچہ وباء کی وجہ سے بعض معاشی شعبوں میں نئی ملازمتوں نے بھی جنم لیا۔ ماہرین کے نزدیک ایسی وبائؤں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ عالمی سطح پر حکومت کے نظاموں میں پائی جانے والی خامیاں اور کمیاں بے نقاب کردیتی ہیں۔ یہ خامیاں حکومتیں عموماً عوام سے چھپانے میں کامیاب رہتی ہیں مگر وباء کا اچانک حملہ انہیں طشت از بام کر ڈالتا ہے۔کوویڈ ۔19 انسانی معاشروں میں کس قسم کی تبدیلیاں لائی ہے؟ دنیا میں ہر شعبے کے نامور دانشور اور ارباب فکر و نظر اس سلسلے میں اظہار خیال کررہے ہیں۔ ان کے خیالات و نظریات کا خلاصہ قارئین ایکسپریس کی خدمت میں پیش ہے۔

 عزم و حوصلے کی جیت

نئے کرونا وائرس سے پھوٹی وباء نے بنی نوع انسان کو بحران میں مبتلا کردیا۔ آسٹریلیا سے لے کر امریکا اور ارجنٹائن تک اربوں انسان اپنے گھروں میں مقید ہونے پر مجبور ہوگئے۔ ان کی زندگیاں خطرے میں آگئیں۔ حکومتیں جیسے تیسے اور اپنے وسائل سے ان کو سہارا دینے کی کوشش کرتی رہیں تاہم مجموعی طور پر حکومتیں اس بحران میں عوام الناس کی امیدوں پر پورا نہیںاترسکیں۔خاص طور پر عالمی قوتوں نے اپنے طرز عمل سے مایوس کیا۔ امریکا اور چین طویل عرصہ کورونا وائرس کی حیاتیاتی لیبارٹری میں تخلیق کے سلسلے میںایک دوسرے کے خلاف الزامات لگاتے رہے۔ چین نے تو پھر پاکستان، ایران اور دیگر ممالک کو کچھ نہ کچھ مدد کی، امریکا میں ٹرمپ حکومت وباء کا پھیلاؤ روکنے میں ہی ناکام رہی۔ صدر ٹرمپ وباء پھیلنے سے روکنے کے اقدامات پر توجہ دینے کے بجائے یہ اعلان کرتے رہے کہ عنقریب تجارتی و کاروبائری سرگرمیاں شروع ہوجائیں گی۔

دیگر ترقی یافتہ اور امیر ممالک نے بھی غریب ملکوں کو کسی قسم کی امداد نہ دی اور انہیں بے سہارا چھوڑ دیا۔ تین ماہ بعد امداد دینے کا اعلان تو ہوا مگر عالمی طاقتوں کے طرزعمل کو متاثر کن نہیں کہا جاسکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ وباء سے پھوٹنے والے عالمی بحران میں بیشتر حکومتیں توقعات پر پورا نہیں اترسکیں۔ لیکن پاکستان سمیت ہر ملک میں انفرادی طور پر سینکڑوں مرد و زن نے کوویڈ 19 سے نبرد آزما ہوتے ہوئے زبردست عزم و حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ یوں انہوں نے انسانی دلیری و بہادری کی نئی تاریخ رقم کردی۔

کئی ملکوں میں ڈاکٹر اور نرس چوبیس گھنٹے مریضوں کی جانیں بچانے اور ان کی خدمت کرنے میں لگے رہے۔ اس دوران بہت سے معالج کورونا وائرس کا نشانہ بن کر چل بسے مگر انہوں نے اپنے فرض سے منہ نہیں موڑا اور پوری استقامت سے وباء کا مقابلہ کرتے رہے۔ اسی طرح تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے متاثرین وباء کی دامے درمے سخنے مدد کرتے رہے۔ایثار اور ہمدردی کی مثالیں قائم کرنے والے انہی مردوزن نے کرہ ارض میں ایک امید کی جوت بھی جلادی۔ انہوں نے ثابت کردیا کہ جب انسان غیر معمولی حالات میں مبتلا ہو تو دنیا بھر کے مردو خواتین اپنی فوق البشر توانائی و قوت بروئے کار لاکر مشکل حالات کا مقابلہ کرتے اور سرخرو ٹھہرتے ہیں۔ کوویڈ 19 کی تمام تر سفاکی اور خطرات کے باوجود انہوں نے دکھا دیا کہ امید پر دنیا قائم ہے۔

سکے کا دوسرا رخ

حالیہ وباء کے باعث اربوں انسان گھروں میں قید ہوگئے۔ ایک دوسرے سے ملاقات کرنے حتیٰ کہ بولنے چالنے کا طریقہ کار بھی یک دم بدل گیا۔ لوگوں کی اکثریت جلد اس روٹین سے اکتا گئی مگر انہیں عالم تنہائی میں سوچ بچار کرنے کا بھی نادر موقع ملا۔اسی غورو فکر سے کئی افراد کو احساس ہوا کہ پیسا کمانے کی دوڑ میں شامل ہوکر وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم ہوگئے تھے۔ یہی خوشیاں روزمرہ زندگی میں رنگ بھرتی اور اسے جینے کے قابل بناتی ہیں۔

ایک امریکی ادیبہ کا قول ہے: ’’مجھے یہ پسند ہے کہ میری گردن میں ہیروں کے ہار کے بجائے میز پر گلاب کے پھول پڑے ہوں۔‘‘ اسی طرح دوسرا مفکر کہتا ہے: ’’صبح سویرے سورج کو طلوع ہوتے دیکھنا انمول خزانہ ہے۔‘‘مادہ پرستی میں پھنس کر بہت سے مردوزن قناعت و سادگی کو بھی فراموش کر بیٹھے۔ مشہور یونانی فلسفی سقراط کہتا ہے۔ ’’قانع دنیا کا سب سے امیر انسان ہے کیونکہ قناعت قدرت کی دولت ہے‘‘ مسلم مفکر، حکیم رازی کہتے ہیں ’’ہر شے کی زیادتی فطرت سے جنگ کے مترادف ہے۔‘‘

دنیا بھر میں اربوں انسانوں کو بے جا اور چوبیس گھنٹے کی مصروفیت سے چھٹکارا ملا تو انہوں نے قدرت کی عطا کردہ نعمتوں پر بھی توجہ دی۔ اب باغ میں چلنا پھرنا منع ہوا تو انہیں تروتازہ کردینے والا سبزہ، بارعب درخت اور مہکتے پھول یاد آنے لگے۔ چہچہاتی چڑیاں اور میٹھی بولیاں بولتے حسین و جمیل پرندے بھی یاد آئے۔ غرض کوویڈ 19 نے کئی انسانوں کو دوبائرہ فطرت کے قریب کردیا اور انہیں احساس دلایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے پناہ نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے انسان کو دلی اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے۔ اس میں خیرو بھلائی کے جذبات جنم لیتے ہیں اور وہ شیطان کے پھیلائے شر سے بچ جاتا ہے۔

حکومت کا کردار

پچھلے چالیس برس سے حکومتوں کا نجکاری پر زور ہے۔ وہ سرکاری خدمات اور ادارے نجی شعبے کے سپرد کررہی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ انسانی معاشرے کے انتظام و انصرام میں اپنی ذمے داریاں کم سے کم کی جاسکیں۔ مثلاً برطانیہ کی لجنڈری وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے یہ مقولہ رائج کیا کہ حکومت کی نگاہ میں انسانی معاشرہ وجود نہیں رکھتا۔ اسی طرح امریکا کے ممتاز صدر، رونالڈ ریگن نے بہترین انسانی معاشرے کی تشکیل میں حکومت ہی کو بنیادی رکاوٹ قرار دیا۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کورونا وائرس وباء پھیلتے ہی بہرحال پاکستان سمیت دنیا بھر کے تمام ممالک میں حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم ہوگئیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کی حکومتوں نے عوام الناس کو سہولتیں فراہم کرنے کی خاطر کھربوں ڈالر کے پیکجوں کا اعلان کیا۔ نیز شعبہ صحت کو مضبوط و توانا کرنے کی خاطر اسے اربوں ڈالر کی امداد دی گئی۔ یوں وباء نے یہ سچائی آشکار کردی کہ کسی بھی حکومت کا بنیادی فرض اور ذمے داری یہی ہے کہ عوام کی بھلائی کے کام کرے اور اس مقصد کے لیے اپنی طاقت و دولت بروئے کار لائے۔

دنیا کے اکثر ممالک میں شعبہ صحت دو حصوں… سرکاری اور نجی سطح پر تقسیم ہے۔ سرکاری شعبہ صحت تقریباً ہر جگہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ نجی شعبہ زیادہ موثر علاج معالجہ فراہم کرتا ہے مگر وہ مہنگا ہے اور عام لوگ اسے حاصل نہیں کرپاتے۔ لیکن کچھ ممالک مثلاً سنگاپور اور جنوبی کوریا میں سرکاری شعبہ صحت بہت اچھا اور متحرک ہے۔ اسی لیے ان دونوں ممالک میں کورونا وائرس وباء زیادہ پھیل نہیں سکی۔ دونوں ممالک کی حکومتیں سرکاری شعبہ صحت مضبوط بنانے کی خاطر سالانہ اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔

امریکا، برطانیہ، اسپین، اٹلی، فرانس وغیرہ میں سرکاری شعبہ صحت پہلے کی طرح توانا اور طاقتور نہیں رہا تھا۔ حکومتیں اس پر فنڈز بھی کم خرچ کررہی تھیں۔ اسی لیے کورونا وائرس وباء آئی تو ان ملکوں میں سرکاری شعبہ صحت بیٹھ گئے اور ہزارہا مریضوں کا بوجھ برداشت نہ کرسکے۔ اس وباء نے عیاں کردیا کہ ہر ملک میں سرکاری شعبہ صحت نہایت مضبوط اور فعال ہونا چاہیے تاکہ وہ خصوصاً معاشرے کے نچلے اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے کروڑوں انسانوں کو علاج کی عمدہ سہولیات فراہم کرسکے۔ یوں معاشرے کے کمزور طبقوں کو حکومت کا مضبوط سہارا مل سکے گا۔

ماحول دوست اقدامات

کورونا وائرس وباء پھیلنے سے دنیا بھر میں سرکاری و نجی ادارے بند ہو گئے اور کارخانوں میں کام رک گیا۔ سڑکوں پر ٹریفک بھی کم ہوگئی۔ اس تبدیلی سے ہر جگہ ماحول میں مثبت تبدیلیوں نے جنم لیا۔ فضا سے دھواں جاتا رہا اور ہوا صاف ہوگئی۔ آکسیجن میں اضافہ دیکھا گیا اور شہری باغات میں پھولوں اور سبزے کی مخصوص مہلک لوٹ آئی۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر صحت گیسوں کی سطح میں بھی نمایاں کمی دیکھنے کو ملی۔

ظاہر ہے، کارخانوں اور ٹریفک کی بندش عارضی ہے۔لیکن ماہرین کو یقین ہے کہ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے نتیجے میں جن ماحول دوست اور انسان دوست طور طریقوںنے جنم لیا‘ وہ کسی نہ کسی صورت مستقبل میں بھی برقرار رہیں گے۔ مثلاً لاک ڈاؤن کے دنوں میں پوری دنیا میں لوگ گھر بیٹھ کر کام کرنے لگے اور باہمی مشورے کے لئے وڈیو کانفرنسیں معمول بن گئیں ۔ اسی طرز عمل سے دو بڑے فوائد انسانوں کو حاصل ہوئے۔ اول یہ کہ دفاتر یا میٹنگ کی جگہوں پر آنے جانے میں جو وقت صرف ہوتا ہے‘ وہ بچ گیا۔ دوسرے گاڑیاں‘ ریلیں اور ہوائی جہاز بھی کم استعمال ہوئے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کر کے ماحول میں مضر صحت گیسیں بڑھاتے ہیں۔

یہ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں بہت سے کاروبائری ‘ تاجر اور افسر وڈیو کانفرنسوں کو ترجیح دیں۔ وہ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے انٹرنیٹ کی مدد سے ساری سرگرمیاں انجام دیں اور صرف اشد ضرورت کے وقت ہی سفر کریں۔ کام کا ایسا ویزل یا ڈیجٹل ماحول مستقبل میں کاروبائر اور صنعت و تجارت کی ماہیت بدل سکتا ہے۔

مزید براں دنیا بھر میں حکومتیں ایسے نجی اداروں کو ترجیح دینے لگی ہیں جو ماحول دوست پالیسیاں اپناتے ہیں۔ انہی اداروں کو حکومتیں زیادہ ٹھیکے اور دیگر سرکاری منصوبے دیتی ہیں۔ کوریڈ 19 کی وباء کے بعد یہ رجحان تقویت پکڑے گا۔ یہی نہیں‘ اب دنیا بھر میں سرمایہ کاروں پربھی یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ ماحول دوست پالیسیاں اپنانے والی کمپنیوں پر ہی پیسا لگائیں ۔

قوم پرستی… کم ہو گی یا زیادہ؟

پچھلے چند عشروں میں دنیا کے کئی ممالک میں قوم پرستی کا دور دورہ ہو چکا۔ ان میں امریکا‘ روس‘ برازیل‘ اٹلی‘ فرانس اور کئی دیگر اہم ممالک شامل ہیں۔ان ملکوں میں قوم پرست لیڈر برسراقتدار آ گئے جنہوںنے اپنی قوم کو ’’ سب سے پہلے‘‘ رکھا اور اسی کو فائدہ پہنچانے والی پالیسیاں تشکیل دیں۔ منفی پالیسیوں کی وجہ سے کئی ممالک کو دور کر دیا اور اپنی صنعت و تجارت اورکاروبائر کو تحفظ دینے والے طریقے اختیار کیے۔ سوال یہ ہے کہ کوویڈ19 کی وباء قوم پرستی کی پھیلتی تحریک ختم نہیں تو کمزور کر سکے گی؟ ایسی وسیع پیمانے پر پھیلتی وباء سرحدوں کو خاطر میں نہیں لاتی اور نہ ہی انسانوں کے مابین رنگ‘ نسل‘ مذہب وغیرہ کا فرق کرتی ہے۔وہ بلاروک ٹوک ہر انسان کو نشانہ بناتی ہے۔

کوویڈ19 روکنے کے لیے مختلف ممالک نے باہمی کو ششیں بھی کیں مگر زیادہ تر یہی رجحان رہا کہ ہر ملک وباء روکنے کی خاطر مقامی اقدمات اپناتا رہا۔ امریکا بظاہر دنیا کا ٹھیکے دار بنا پھرتا ہے‘ مگر جب بنی نوع انسان آفتوں اور مصائب کانشانہ بنے‘ تو صرف اپنے مفادات ہی مقدم رکھتا ہے۔ ویسے بھی اب وہاں ’’پہلے امریکا‘‘ کی سوچ رکھنے والے حکمران موجود ہیں۔ اسی لیے ٹرمپ حکومت کی بیشتر توجہ اور توانائی اس امر پر مرکوز رہی کہ کوویڈ19سے کیونکر امریکا اور امریکی قوم کو محفوظ رکھاجائے۔ حتیٰ کہ لاکھوں انسانوں کو شکارکرنے والے اس وباء پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ایک اجلاس تک منعقد نہیں ہو سکا۔ ابتداء میں ٹرمپ حکومت نے اپنے قدیم و دیرینہ رفیق ‘ پاکستان کو صرف دس لاکھ ڈالر کی امداد دے کر خیال کیا کہ اس کا فرض ادا ہو گیا۔

اس وبائء کے دوران امریکا سے زیادہ چین نے ا یک عالمی اور نمایاں طاقت ہونے کا ثبوت دیا۔ اس نے پاکستان کے علاوہ اٹلی ‘ اسپین اور کویڈ19 سے متاثر دیگر ملکوں میں کثیر طبی سامان بطور امداد بجھوایا جس میں وینی لیٹر‘ ماسک اور ادویہ شامل تھیں۔ اسی دوران صدر ٹرمپ کرونا وائرس کو ’’چینی وائرس‘‘ کہہ کر چین کو بدنام کرنے اور اس کا مذاق اڑانے میں لگے رہے۔ ان کی کوشش رہی کہ یہ چرچا کر سکیں‘  کوویڈ19 پھلانے کا ذمے دار چین ہے۔ اس چلن سے عیاں ہے کہ امریکی قوم پرست رہنما نے عالمی وبائء کو بھی ا پنا ہتھیار بنا لیا اور اس کے ذریعے چین کے لیے خوف پھیلانے اور اپنی حاکمیت جتانے پر لگے رہے۔

نظریہ قوم پرستی کے مبلغ کوویڈ 19کو ایک انعام سمجھ رہے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ اس سے قوم پرستی مضبوط ہو گی۔ ہر ملک میں حکومتیں وبا پر قابو پانے کے لیے ایمر جنسی طریقے اپنا رہی ہیں۔ ان طریقوں کی بدولت حکومتوں کو نئی طاقتیں میسر آئیں گی۔اور جب وبا ختم ہو گی تو عین ممکن ہے کہ کئی ممالک میں حکومتیں حاصل کردہ نئی قوتوں کو برقرار رکھیں تاکہ ریاست کی رٹ مضبوط بنائی جا سکے۔

’’ویسٹرن برانڈ‘‘ کا خاتمہ

کوویڈ19 نے بظاہر چین میں جنم لیا مگر اس کا پھیلاؤ دنیائے مغرب (یورپ‘ امریکا‘ آسٹریلیا‘ برازیل) میں زیادہ رہا۔ متاثرین کی تعداد کے لحاظ سے بیس بڑے ملکوں میں سے سولہ دنیائے مغرب میں واقع ہیں۔ اس سے عیاں ہے کہ ان ملکوں میں صحت و علاج معالجے کا اسٹینڈرڈ یا معیار ماضی کی طر ح اعلیٰ و عمدہ نہیں رہا۔ اس کے برعکس جنوبی کوریا‘ سنگا پور‘ جاپان‘ ملائشیا وغیرہ نے ٹھوس اقدامات اپنا کر وبا کو پھیلنے نہیں دیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے دو عشروں دنیا میں طاقت کا منبع مغرب نہیں مشرق بن رہا ہے۔ اب کوویڈ19 کی وجہ سے تبدیلی کا یہ عمل تیز ہو جائے گا۔ چین نے بھی اپنی ابتدائی غلطیوں پر تیزی سے قابو پایا اور سوا ارب آبادی میں وبا کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہا۔ مگر یورپی حکومتوں اور اورامریکی حکومت نے کوویڈ19 کے سلسلے میں خاصی سستی دکھائی اور ان کا رد عمل غیر سنجیدہ اور لاابالی رہا۔ اس بات نے ’’مغربی برانڈ ‘‘کو مزید نقصان پہنچایا اور وہ پہلے کی طرح احساس ذمے داری‘ بہترین کام اور نیک نیتی سے وابستہ نہیں رہا۔

ایک خطرناک راستہ

بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ کوویڈ19 کے باعث عالمی سیاست کی ہیئت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس ضمن میں وہ تاریخ سے مثالیں پیش کرتے ہیں۔ مثلاً1818ء تا1919ء میں ہسپانوی فلو سے کروڑوں انسان چل بسے تھے۔ یہ ایک خوفناک واقعہ تھا پھر بھی عالمی قوتیں باہم نبرد آزما رہیں اور ان کے مابین دشمنی ختم نہیں ہو سکی اور نہ ہی کرہ ارض کے مسائل مل جل کر ختم کرنے کے سلسلے میں انہوں نے کوئی ٹھوس قوم اٹھایا۔

کوویڈ19 بھی عالمی سیاست میں شاید بنیادی تبدیلی نہ لا سکے۔ بلکہ یہ ممکن ہے کہ گلوبلائزیشن یا عالمگیریت کا پھیلاؤ اور اثر و رسوخ مزید کم ہو جائے۔ وجہ یہ ہے کہ شہری اب اپنے معاشی و معاشرتی مسائل کے حل کی خاطر حکومتوں سے رجوع کریں گے۔ شہریوں میں یہ خیال جنم لے چکا کہ صرف قوم پرست لیڈر ہی انہیں محفوظ رکھ سکتے ہیں۔گویا یہ امکان موجود ہے کہ کوویڈ19 کی بدولت دنیا مزید تنگ دلی کا نشانہ بن ہو جائے۔ کئی امیر ممالک میں پہلے کی طرح خوشحالی اور امارت بھی نہیں رہے گی۔ جبکہ بہت سے ملکوں میں قوم پرست حکومتیں اپنے آپ کو بااختیار بنانے کی خاطر شخصی آزادیوں پر پابندیاں لگا سکتی ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ آئے دن جنم لیتے خطرناک وائرسوں‘ خراب منصوبہ بندی اور نااہل لیڈروں کے ملاپ نے بنی نوع انسان کو ایک نئے مگر خطرناک راہ پر گامزن کر دیا ہے۔

چین… ایک عالمی طاقت

بیسویں صدی میں امریکا دنیا کی سیاست‘ معیشت اور معاشرت کا مرکز رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے اوائل سے چین اب یہ جگہ لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ کوویڈ19کے باعث یہ عمل تیز تر ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی عوام اب عالمگیریت اور عالمی تجارت کو اپنے لیے موزوں نہیں سمجھتے ۔ ان کا خیال ہے کہ مہاجرین کی آمد سے امریکی شہریوں کے لیے زیادہ ملازمتیں نہیں رہیں اور پھر ان کی آمدن بھی کم ہو گئی۔ اسی طرح آزاد تجارتی معاہدے بھی امریکی معیشت کے واسطے نقصان دہ ہیں۔ غرض امریکیوں کی اکثریت ذہنی طور پر اپنے ملک تک محدود ہو چکی اور وہ ملکی وقومی مفادات کا ہی سوچتی ہے۔

چین میں عوام کی اکثریت عالمگیریت اور عالمی تجارت سے برگشتہ نہیں ہوئی۔ اس سوچ کی مختلف وجوہ ہیں۔ مثال کے طور پر ایک اہم وجہ تاریخی ہے۔ ماضی میں چین کے حکمران اور عام لوگ اپنے ملک تک محدود رہے۔ وہ بیرونی ممالک سے زیادہ رابطہ نہیں رکھتے تھے۔ اسی تنگ نظری نے مگر چین کو کافی نقصان پہنچایا ۔ 1842ء تا1949ء وہ خانہ جنگیوں اور بیرونی لڑائیوں کا مرکز بنارہا۔ ان جنگوں نے چین کی معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی زندگی تباہ کر ڈالی۔ وہ ایک بڑی قوت نہ رہا بلکہ شکست خوردہ اور افیونچی لوگوں کی مملکت بن گیا۔

جب کمیونسٹ لیڈر آئے تو انہوںنے بھی عالمی برادری سے زیادہ روابط نہیں رکھے اور خود انحصاری کے طریقے اپنانے کو ترجیح دی۔ مگر یہ طریقے چین میں خوشحالی لا سکے اور نہ اسے ترقی دے سکے۔ لوگوں کا معیار زندگی بھی بلند نہیں ہوا اور زندگیاں لشٹم پشٹم گزرتی رہی۔ چینی عوام کی زندگیوں میں انقلاب 1980ء کے بعد آیا جب حکمرانوں نے بیرونی ممالک سے تجارت کرنے کا فیصلہ کیا اور معیشت پر عائد بہت سے پابندیاں ہٹالیں۔چین نے پھر تصادم کی راہ ترک کر دی اور ہر ملک سے دوستی و محبت کے رشتے قائم کرنے لگا۔ اگر کہیں ٹکراؤ آیا تو لڑائی سے حتی الواسع گریز کیا۔ عالمگیریت کی پالیسی اختیار کرنے کا نتیجہ شاندار رہا اور چین دنیا کی بڑی معاشی طاقت بن گیا۔ یہی نہیں‘ اہل چین اب سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی زبردست کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ شعبہ ثقافت میں بھی سرگرم ہیں۔ پُراعتماد ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کی قیادت کا بار اٹھا سکتے ہیں۔

امریکی حکمران ترقی یافتہ، خوشحال اور طاقتور چین کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ چین کے عروج سے دنیا میں امریکا کی حاکمیت وا اہمیت ختم ہوسکتی ہے۔ اس لیے گہرے تجارتی روابط کے باوجود امریکی حکمران چین کو نقصان پہنچانے کی خاطر خفیہ طور پر کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ مثلاً میڈیا میں یہ خبر گردش کرتی رہتی ہے کہ نیا کورونا وائرس کسی امریکی حیاتیاتی لیبارٹری میں بنا کر چین میں چھوڑا گیا۔ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اس وائرس نے حقیقتاً معاشرتی، معاشی اور سیاسی طور پر چین کو کافی متاثر کیا۔

دانش وروں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں امریکی حکمران چین کے ساتھ دو قسم کا برتاؤ کرسکتے ہیں۔ ان میں سے ایک منفی ہے اور دوسرا مثبت۔ اگر امریکی حکمران اپنے عوام کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں۔ ان کی بہتری کے لیے سوچتے ہیں تب مثبت پالیسی بنائیں گے۔ یعنی چین سے دوستی کرلیں گے۔ دونوں ممالک پھر اپنے اپنے عوام کو فوائد پہنچانے کی خاطر مل جل کر کام کریں گے۔امریکی حکمران مگر کرہ ارض پر اپنا اثرورسوخ بحال رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ عالمی تھانے دار کا کردار ادا کریں۔ تب وہ لامحالہ منفی پالیسی اختیار کرلیں گے۔ وہ خفیہ و عیاں، ہر طریقے سے چین کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیاں شروع کرسکتے ہیں۔ یاد رہے، چین کے ساتھ جنگ کا آغاز بھی ٹرمپ حکومت نے کیا۔

آخری فتح عالمگیریت کی

پچھلے چند عشروں میں دنیا ’’عالمی گاؤں‘‘ بن چکی۔ خصوصاً ترقی یافتہ ممالک کے کروڑوں افراد ہر سال بغرض کاروبار یا سیروسیاحت ایک دوسرے کے ملک میں جاتے ہیں۔ اسی بڑھتے ربط ضبط نے کوویڈ 19 کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اور اسی لیے اب یورپ اور امریکا میں ان سیاست دانوں اور دانشوروں کی پتنگ چڑھی ہوئی ہے جو مہاجرین، پناہ گزینوں اور غیر ملکیوں کی آمد کے مخالف ہیں۔ اس وبا نے یورپی ممالک میں قوم پرستی کے جذبات بڑھادیئے ہیں۔

دانش وروں کے ایک طبقے کا مگر نظریہ ہے کہ رفتہ رفتہ دنیائے مغرب کے حکمرانوں اور عوام کو احساس ہوگا کہ طویل المعیاد لحاظ سے فلسفہ عالمگیریت ہی بنی نوع انسان کے لیے زیادہ مفید ہے۔اس فلسفے کی بدولت ٹکراؤ، تصادم اور اختلافات کم جنم لیتے ہیں جبکہ امن، محبت اور افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا آگے چل کر مغربی ممالک کو دوبارہ نظریہ عالمگیریت ہی اختیار کرنا ہوگا تاکہ تصادم سے بچ سکیں۔ آخری فتح اسی نظریے کی ہوگی۔

شعبہ صنعت و حرفت تبدیل

پچھلے چند عشروں میں صنعت و حرفت کا شعبہ بھی عالمگیر ہوچکا۔ کئی بڑی کمپنیوں کے کارخانے اور دفاتر مختلف ممالک میں کام کررہے ہیں۔ مثلاً ایک الیکٹرونک مصنوعہ کے بعض پرزے چین میں بنتے ہیں، تو کچھ ویت نام یا جاپان میں اور بقیہ پرزہ جات امریکا یا برطانیہ میں تیار ہوتے ہیں۔ غرض بہت سی بڑی کمپنیوں نے اپنا کام پوری دنیا میں پھیلا دیا تھا لیکن کوویڈ 19 وبا یہ طرز عمل بھی تبدیل کرسکتی ہے۔

دراصل اکثر بڑی کمپنیاں اپنی مصنوعات کے پرزدہ جات یا خام مال چین سے منگواتی تھیں۔ جب کورونا وائرس کی وجہ سے چین میں کارخانے بند ہوئے تو وہاں سے ہر قسم کا مال آنا بند ہوگیا۔ اسی بندش نے عالمی سپلائی چین کو بہت متاثر کیا۔ کئی فیکٹریوں میں کام رک گیا۔ نیز جو مال مارکیٹوں میں موجود تھا، وہ مہنگا فروخت ہوا۔کوویڈ 19 کی آمد سے پہلے بھی دنیا کا شعبہ صنعت و حرفت دباؤ میں تھا۔ چین میں پیداواری لاگت بڑھ رہی تھی۔ اس دوران صدر ٹرمپ نے چین اور دیگر ممالک سے تجارتی جنگ شروع کردی جس سے صنعت و تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ پھر دنیا بھر مشینیں اور روبوٹ انسانوں سے ملازمتیں چھین رہے ہیں۔ان کی وجہ سے لاکھوں مردو زن کا روزگار خطرے میں پڑ چکا۔ اب کوویڈ 19 کے باعث کارخانے بند ہونے سے ہسپتال، ادویہ ساز ادارے، سپر مارکیٹیں اور کریانے کی دکانیں تک مال کی کمی کا نشانہ بن گئیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اب دنیا بھر میں صنعتی و تجارتی ادارے اپنی سرگرمیاں چند ممالک تک محدود کرنے کی کوششیں کریں گے تاکہ مستقبل میں کوئی قدرتی یا غیر قدرتی آفت جنم لینے پر ان کا کام متاثر نہ ہو۔ حکومتیں بھی شعبہ صنعت و حرفت میں دخل اندازی کریں گی۔ دراصل ان کی خواہش ہوگی کہ ملکی سلامتی سے منسلک اسٹریٹجک صنعتیں ہر لحاظ سے مقامی سطح پر ہی کام کریں تاکہ آفت آنے پر وہ بند نہ ہوں اور بدستور اپنا کام کرتی رہیں۔ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ ماضی میں سستی افرادی قوت کے باعث ترقی یافتہ ممالک کے اداروں نے غریب ملکوں میں کارخانے لگائے۔ مگر اب کوویڈ 19 کی وجہ سے وہ اپنی فیکٹریاں اپنے ممالک ہی میں لگاسکتے ہیں۔ اس طرح ان کا منافع کم ہوجائے گا مگر یہ ضمانت مل سکے گی کہ کوئی بھی آفت چمٹنے پر سپلائی چین برقرار رہے گی۔ کام رکنے نہیں پائے گا۔

فاتح ہی تاریخ لکھے گا

انسانی تاریخ سے آشکار ہے کہ کوویڈ 19 کے حالیہ بحران کی تاریخ بھی فاتح ہی لکھیں گے۔ اس وجہ کی وجہ سے ہر حکومت بلکہ ہر انسان معاشرتی و معاشی لحاظ سے دباؤ میں آگیا۔ اربوں انسانوں کو ایسے نت نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا جن سے پہلے وہ کبھی عہدہ برآں نہیں ہوئے تھے۔اس سنگین صورتحال میں یقینا وہی ممالک فتح یاب ٹھہریں گے جہاں معیشت طاقتور ہے، مستحکم حکومت قائم ہے اور سرکاری شعبہ صحت توانا و مضبوط ہے۔ جو ملک معاشی، سیاسی اور انتظامی لحاظ سے کمزور ہیں، انہیں کوویڈ 19 سب سے زیادہ نقصان پہنچائے گا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ چین میں ایک لحاظ سے آمرانہ حکومت کام کررہی ہے۔ تاہم ابتدائی دھچکوں کے بعد اس نے وبا کو مزید پھیلنے سے روک دیا۔ چناں چہ چین کے حامی دانشور چینی نظام حکومت کی خوب تعریف کررہے ہیں۔ اٹلی، اسپین، امریکا کی جمہوری حکومتیں وبا کا پھیلاؤ نہیں روک سکیں۔ لہٰذا ان ملکوں میں جمہوری نظام حکومت تنقید کی زد میں آگیا۔ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19 نے سیاست اور معیشت کے بین الاقوامی نظام کی چولیں ہلادی ہیں۔ اب دنیا بھر میں عوام ایسے نظام حکومت اپنانے پر زور دیں گے جو ان کے مسائل و مصائب دور کرسکے جبکہ معاشی زوال ممالک کے درمیان اختلافات بڑھائے گا۔ گویا مستقبل میں دنیا عدم استحکام اور نئی لڑائیوں کی آماج گاہ بن سکتی ہے۔

مسکراہٹ علاجِ کورونا ہے

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ مصیبت،غم اور دکھ میں مزاح انسان کو ہمت وحوصلہ عطا کرتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ مسکراہٹ اور قہقہے کی بدولت انسان کو مسائل پہ قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔یہی وجہ ہے،پوری دنیا میں لوگوں نے کوویڈ 19سے مقابلہ کرنے کی خاطر مزاح کا سہارا لیا اور وباء سے پیدا کردہ مشکل حالات میں بھی مسکرانے کے اسباب ڈھونڈ لیے۔کچھ نمونے ملاحظہ فرمائیے:

میری ساری ہمدردیاں ان بیچارے شوہروں کے ساتھ ہیں جو عرصہ دراز سے بیگمات کو یہ کہتے چلے آ رہے تھے:

’’جب بھی وقت ملا،یہ کام کر دوں گا۔‘‘

٭٭

’’کیا انقلاب ہے!نوجوانی میں باہر نکلنے پر امی ابو مجھے ڈانٹتے تھے۔آج میں انھیں باہر جاتا دیکھوں تو چلانے لگتا ہوں۔‘‘

٭٭

ایک شوہر دوسرے سے :’’ میرا جسم میری مرضی والے اب کہاں ہیں؟ انہیں کہو، اب باہر نکلو نہ۔‘‘

٭٭

شوہر اخبار پڑھتے ہوئے بے اختیار ہنسنے لگے۔وجہ پوچھی تو کہنے لگے:’’چین میں سو جوڑے قرنطینہ سے باہر نکلے تو سب سے پہلے ایک دوسرے کو طلاق کے نوٹس بھجوا دئیے۔‘‘

٭٭

مجھے زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ دن بھر میرا اہم ترین کام چہرے کو چھونا ہے۔

٭٭

لاک ڈاؤن کی پہلی رات…آج کوئی کھیل نہیں دیکھا۔بیوی سے ایک گھنٹہ گپ شپ ہوئی۔اچھی عورت ہے۔پتا چلا کہ کسی اخبار میں کام کرتی ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ جب ٹی وی بند ہو تو اس کی اسکرین کالی رہتی ہے۔

٭٭

ایک کتا دوسرے کتوں سے’’یار مجھے سخت حیرانی ہے، یہ سڑکوں پہ گھومتے انسان کہاں گئے؟کیا انھیں بھی میونسپلٹی والوں نے پکڑ لیا؟‘‘

٭٭

گھر سے کام کرنے کا پہلا دن:

بیگم نے ایچ آر کو ہراسمنٹ کی شکایت جمع کرا دی ۔

٭٭

آج بینک میں مجھے چھینک آ گئی…عملے کی جانب سے اتنی توجہ پچھلے دس سال میں کبھی نہیں ملی تھی۔

٭٭

عورتیں چلی تھیں آزادی لینے…الٹا شوہروں کو بھی گھروں میں قید کروا دیا۔

٭٭

اکیسویں صدی کا قول

پیارے اللہ میاں!پلیز 2020ء کو ان انسٹال کر کے ری انسٹال کر دیجیے۔اس میں وائرس آ گیا ہے۔

٭٭

وقت وقت کی بات ہے،کبھی گھر پہ پڑے رہنے والے نکھٹو کام چور کہلاتے تھے۔اب سمجھدار سمجھے جاتے ہیں۔

٭٭

اٹھو…کھانا کھاؤ…سو جاؤ…سپنا دیکھو… اٹھو…کھانا کھاؤ…سو جاؤ…سپنا دیکھو…

یہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا!

دنیا کے بیسیوں ملکوں نے کوویڈ ۔19 کو سنگین خطرہ سمجھتے ہوئے پورے پورے شہر لاک ڈاؤن کر دیے۔ ہمارے ہاں کئی ’’بھولے بادشاہ‘‘ اس سارے معاملے کو مذاق سمجھتے رہے۔ وہ نہیں سمجھ سکے کہ یہ خطرناک وبا اللہ تعالی کا نازل کردہ عذاب بھی ہو سکتا ہے۔چناں چہ ہمیں درج ذیل جملے عام سننے کو ملے:

٭ یہ سب ایسے گپ شپ ہے، ڈراما ہے سارا…

٭گھر کون بیٹھ سکتا ہے؟

٭ابھی تک سب خیریت تھی، جیسے ہی پیسوں کا سنا تو غوغا مچ گیا۔ یہ سب ڈالر بٹورنے کا منصوبہ ہے۔

٭ اسکول ایسے ہی بند کر دیے، اسکولوں میں کرونا کا کیا کام؟

٭ اساتذہ کے مزے ہو گئے۔

٭ چین کو خراب کرنے کی امریکی سازش ہے۔

٭ بیماری کی وجہ سے غمی خوشی تو نہیں چھوڑی جا سکتی۔

٭ کوئی میرے ساتھ ہاتھ نہ ملائے تو پھر دیکھ لینا۔

٭موت نے اپنے وقت پر ہی آنا ہے۔

٭ حکومت جھوٹ بول رہی ہے کہ کرونا سے لوگ مر رہے ہیں۔اگر کسی بھی مردے کی موت کی وجہ کرونا بتائی جائے تو مردہ اٹھ کر کہہ نہیں سکتا، نہیں میں تو دمے سے فوت ہوا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔