مغربی ممالک میں کورونا وائرس تیزی سے کیوں پھیلا ؟

خالد احمد  ہفتہ 4 اپريل 2020
ووہان میں پھیلنے والی کورونا کی وبا سے پوری دنیا باخبر تھی لیکن مغربی ممالک نے اس وبا کو اہمیت نہ دی

ووہان میں پھیلنے والی کورونا کی وبا سے پوری دنیا باخبر تھی لیکن مغربی ممالک نے اس وبا کو اہمیت نہ دی

 کراچی: مغربی ممالک میں کورونا وائرس کے تیز تر پھیلاﺅ پر غور کیا جائے تو وہاں کی حکومتوں اور صحت کے اداروں نے اپنے بہتر نظام صحت اور اسپتالوں میں موجود سہولتوں پر زیادہ انحصار کرتے ہوئے لاک ڈاﺅن میں تاخیر کی جس کا سنگین خمیازہ وہاں کی معصوم عوام کو بھگتنا پڑا ، چین کے شہر ووہان میں پھیلنے والی کورونا کی وبا سے پوری دنیا باخبر تھی لیکن مغربی ممالک نے اس وبا کو اتنی اہمیت نہ دی اور کاروبار زندگی میں مگن رہے جس کا خمیازہ معصوم عوام نے ہزاروں جانیں دے کر بھگتا۔

امریکی صدر کا تمسخر اور چینی وائرس کی صدا

امریکا نے شروع میں چین میں پھیلنے والی وبا پر چین کا مذاق اڑایا اور تمسخر اڑاتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں اسے چینی وائرس قرار دیا اور امریکا کے عوام کو ذہین اور مضبوط قرار دیتے ہوئے لاک ڈاﺅن اور سرحدیں بند کرنے سے صاف انکار کردیا گوکہ امریکی سامراجی پالیسیوں میں کاروبار کو ہی اہمیت حاصل ہے اور اسے عوام کی زندگی اور کسی وبا سے متاثر ہونے کی چنداں کوئی فکر نہیں ہوتی جس کا خمیازہ معصوم مغربی ممالک کے عوام نے بھگتا ہے اور اب کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں میں امریکا تمام متاثرہ ممالک سے بازی لے جارہا ہے۔

کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک اور ہلاکتوں کی تعداد

تادم تحریر امریکا میں کورونا وائرس سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ 2 لاکھ 77 ہزار 522 افراد متاثر ہوچکے ہیں ہلاکتوں کی تعداد 7403 ہوچکی ہے اور اس میں تیزی سے اضافہ بھی ہورہا ہے، اٹلی میں کورونا وائرس سے ایک لاکھ 19 ہزار 827 افراد متاثر ہوئے اور14681 ہلاکتیں ہوچکی ہیں جن میں اضافہ جاری ہے، اسپین میں ایک لاکھ 24 ہزار736 افراد وائرس کا شکار ہوئے 11744 ہلاک ہوگئے، جرمنی میں 91 لاکھ 159 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی جن میں سے 1275 افراد ہلاک ہوگئے، فرانس میں 82 ہزار 165 افراد متاثر ہوئے 6507 ہلاک ہوئے،چین جہاں سب سے پہلے اس وبا نے ہلاکت خیزی پھیلائی وہ اب عالمی فہرست میں چھٹے نمبر پر آچکا ہے چین میں 81 ہزار 639 افراد کورنا کا شکار ہوئے جن میں سے 3326 افراد دم توڑگئے، چین کے بعد سب سے پہلے وائرس ایران میں پھیلا جو اب عالمی فہرست میں ساتویں نمبر پر آگیا ہے جہاں 53 ہزار 183افراد کورونا کا شکار ہوئے اور 3294افراد اس کا شکار ہوگئے،برطانیہ میں 38.168 افراد کورونا کا شکار ہوئے اور 3605 افراد ہلاک ہوگئے،یورپ کے بیشتر ممالک میں کورونا کے کیسز سامنے آئے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ہلاکتوں کی تعداد چار اور تین ہندسوں کو چھورہی ہے، ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اب تک کورونا وائرس کی 3082 افراد میں تصدیق ہوگئی ہے اور 86افراد اس وائرس سے ہلاک ہوچکے ہیں، اسرائیل میں 7589 افراد کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور 42 اسرائیلی لقمہ اجل بن چکے ہیں پاکستان میں کورونا کی حشر سامانی کا حال یہ ہے کہ 2708 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے40 افراد اس وائرس سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔

امریکی غرور اور صحت کے نظام کی استعداد

اگر بات کی جائے صحت کی بہتر سہولیات کی تو سپر پاور امریکا کو اپنے بہتر حکومتی اور نظام صحت پر بہت فخر تھا جو اس وبائی صورتحال میں تنکوں کی طرح بکھرگیا ہے جہاں نیویارک میں ہزاروں افراد وائرس کی تباہ کاری کا شکار ہوکر جان کی بازی ہارچکے ہیں پورا نیویارک شہر لاک ڈاﺅن کردیا گیا ہے شہر میں ہرطرف ہو کا عالم ہے امریکا کی ہر ریاست میں صورتحال انتہائی تشویشناک صورت اختیار کررہی ہے اس ضمن میں یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ کیا امریکا نے عالمی ادارہ صحت کی تنبیہ اور چین کی صورتحال کا جائزہ نہیں لیا یا امریکی ریاست نے خود اپنی عوام کو موت کے منہ میں دھکیل دیا اس حوالے سے کئی سازشی نظریات (کونسپیرسی تھیوریز) زیر گردش ہے جب چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس نے وبائی صورت اختیار کی تو چند روز بعد چین کی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے وائرس کے پھیلاﺅ کا ذریعہ ووہان شہر میں فوجی مشقوں کے لیے آنے والے امریکی فوجیوں کو قرار دیا کہ یہ فوجی ہی وائرس پھیلانے کا ذریعہ بنے ہیں جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پریس بریفنگ میں چین کا تمسخر اڑانے کی کوشش کی اور کورونا وائرس کو چینی وائرس کہہ کر چینی عوام کی تضحیک کرنے کی کوشش کی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وائرس سے ہزاروں ہلاکتوں کے باوجود کیا امریکی حکومت کو خبر نہ تھی کہ یہ وائرس اتنا مہلک ثابت ہوگا یا جان بوجھ کر اپنے عوام کو اس وبا میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا یا وائرس کے پھیلاﺅ کا حتمی الزام خود پر آنے کے بعد امریکی عوام کو قربانی کا بکرا بناکر خود پر لگنے والے الزام کو دھونے کی کوشش کی گئی سامراجی نظام میں ایسا ہونا کوئی عجب بھی نہیں۔

فری میسن کی آبادی کم کرنے کی کونسپیریسی

ایک نکتہ یہ ہے کہ دجالی قوت کے پیروکار افراد جنھیں عرف عام میں فری میسن کہا جاتا ہے وہ دنیا کی آبادی کو کم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ کسی بھی مہلک ہتھیار کے استعمال اور کسی بھی جنگ سے گریز نہیں کرتے تاہم مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے وہ ممالک جو یہ ہتھیار استعمال کریں ان کے بھی زد میں آنے کا خطرہ ہوسکتا ہے اور جنگ بھی پھیل کر کسی نئے منظر نامے کو تشکیل دے سکتی ہے لہٰذا دنیا کی بڑھتی آبادی کو کم کرنے کا طریقہ اس گروہ کو یہ سوچا کہ کوئی حیاتیاتی (بائیولوجیکل) ہتھیار بنایا جائے جس کے وار سے نتائج حاصل کیے جائیں کورونا وائرس پر تحقیق کرنے والے محققین کا اتفاق ہے کہ یہ وائرس موڈیفائی کیا گیا ہے یعنی کورونا وائرس کے گروپ میں موجود وائرسز میں سے ایک وائرس COVID-19 کو کسی جنیاتی لیباریٹری میں تبدیل اور ترمیم کرکے اتنا مہلک بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے اب تک اس پر قابو پانے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔

کوڈ 19 کا اسلامی اور غریب ممالک پر اثر

کورونا وائرس کی حشر سامانی کے اسلامی ممالک اور ترقی پذیر دنیا پر اثرات قدرے کم رہے ہیں جن کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں ان ممالک کا موسم اور حفاظتی اقدامات میں لاک ڈاﺅن اور سماجی دوری اختیار کرنے کے اقدامات شامل ہیں گوکہ ان ممالک کی حکومتوں کے ان اقدامات سے یہاں کی عوام کو شدید مشکلات اور پریشانی کا سامنا ہے لیکن وائرس کے تیزی سے پھیلاﺅ کو روکنے کے لیے غریب سے غریب ملک کی بھی کوشش ہے کہ لاک ڈاﺅن اور گھروں میں رہنے کی پابندیوں سے اس وائرس کی تباہ کاری کو روکا جائے، صحت کے کمزور نظام اور سہولتوں کی کمی کے باعث یہ ممالک لاک ڈاﺅن اور سماجی دوری کی پابندیوں سے عوام کو استثنیٰ دینے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ اس صورت میں ان ممالک میں ہزاروں افراد کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے یا ہلاک ہونے پر صورتحال قابو سے باہر بھی ہوسکتی ہے۔

کورونا وائرس کی عالمی اور مقامی معیشتوں پر اثرات

کورونا وائرس کا ایک اور پہلو عالمی اور مقامی معیشت کی تباہی کی صورت میں بھی سامنے آرہا ہے جہاں کئی ممالک میں کئی ہفتوں سے کاروبار زندگی بند ہے اور صرف ضروریات زندگی کی دکانوں اور اسٹورز پر سامان خورونوش دستیاب ہے اس صورتحال میں معیشت کے تمام شعبوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں دنیا کی تمام اسٹاک مارکیٹس کریش کی صورتحال سے دوچار ہیں اور غریب ممالک عالمی مالیاتی اداروں سے مدد کے لیے اپیل کررہے ہیں اور ہنگامی فنڈز مانگ رہے ہیں ایسی صورت میں اگر ترقی پذیر ممالک کو فنڈز فراہم نہ کیے گئے تو ان کی معیشت جو پہلے ہی دباﺅ میں تھیں مزید تباہی سے دوچار ہوجائیں گی۔

کورونا وبا کا پاکستانی معاشرے پر اثر

جب سے کورونا وائرس کی وبائی صورت پاکستان آئی ہے پاکستان میں لاک ڈاﺅن کا دوسرا ہفتہ جاری ہے اور اس دوران ذرائع نقل و حمل، تجارت ، صنعت غرض ہر کاروبار رک گیا ہے لاک ڈاﺅن کے دوران گھروں پر بند ہونے والے دہاڑی پیشہ اور مزدور طبقہ مشکل صورتحال سے دوچار ہے جنھیں حکومت کی جانب سے ریلیف پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے اور مخیر حضرات بھی ان کی مدد کی کوشش کررہے ہیں لیکن درحقیقت اس صورتحال میں ہنگامی کام کی ضرورت ہے جس سے غریب اور متوسط طبقے کو آسانی سے اشیائے صرف اور خورونوش کی ترسیل ہوسکے اور وہ اس لاک ڈاﺅن سے کم سے کم متاثر ہوسکیں۔

وبائی صورت کے انسانی نفسیات پر اثرات

گوکہ دنیا میں آنے والی وباﺅں میں موجودہ کورونا وائرس کی وبا آخری وبا نہیں دنیا میں بنی نوع انسان نے تاریخ میں کئی ہلاکت خیز وباﺅں کا سامنا کیا ہے لیکن ان وباﺅں کے وقت ذرائع نقل و حمل اور ذرائع ابلاغ موجود نہ ہونے سے ان وباﺅں کا دوسرے ممالک اور خطوں پر اثر نہ ہونے کے برابر تھا لیکن اب جدید انٹریٹ اور سوشل میڈیا کی بدولت چین ، اٹلی اور ایران کی ہلاکت خیز وڈیوز اور خبروں کا عوام کے ذہن پر خوفناک اثر ہورہا ہے اس حوالے سے ماہرین نفسیات کا خےال ہے کہ وبائی صورت میں سوشل میڈیا اور ٹی وی سے دوری اختیار کی جائے جہاں پل پل کی خبروں کا انسانی نفسیات اور ذہن پر منفی اثر پڑرہا ہے اور عوام میں خوف کے اثرات بڑھ رہے ہیں اکثر افراد کو موت کا خوف لاحق ہورہا ہے لاک ڈاﺅن کے دوران گھروں میں بند ہونے والے افراد چڑچڑے پن کا شکار ہورہے ہیں جس کا ایک حل یہ ہے کہ جو کام آپ نے فارغ اوقات کے لیے چن رکھے تھے وہ کرلیں اور اپنے پسندیدہ مشغلے جیسے کہ پینٹنگ اور کوکنگ اور دیگر تمام شوق جو آپ مصروفیت کی وجہ سے پورے نہیں کرسکے وہ گھر پر بیٹھ کر پورے کیے جاسکتے ہیں اپنے گھر کی لائبریری سے کوئی اچھی کتاب نکال کر پڑھ سکتے ہیں اور عبادت کے لیے وقت ہے جس میں اللہ کو راضی کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔