اے اور او لیول کی گریڈنگ کا متنازع طریقہ کار جاری

صفدر رضوی  ہفتہ 4 اپريل 2020
پرائیویٹ طلبہ کے امتحانات کے بغیر گریڈنگ کے سلسلے میں ٹیوٹرز کے بھیجے گئے شواہد بھی قابل قبول قرار (فوٹو : انٹرنیٹ)

پرائیویٹ طلبہ کے امتحانات کے بغیر گریڈنگ کے سلسلے میں ٹیوٹرز کے بھیجے گئے شواہد بھی قابل قبول قرار (فوٹو : انٹرنیٹ)

 کراچی: کیمبرج اسسمنٹ انٹرنیشنل ایجوکیشن نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اے اور او لیول کے امتحانات منسوخ کرنے کے آٹھویں روز اسکولوں کو گریڈنگ کا جزوی تاہم متنازع طریقہ کار جاری کردیا جبکہ ذرائع ابلاغ کے لیے ایک علیحدہ اور مبہم اعلامیہ جاری کیا ہے۔

اسکولوں کو ای میل کے ذریعے جاری طریقہ کار میں پرائیویٹ طلبہ کے امتحانات کے بغیر گریڈنگ کے سلسلے میں ٹیوٹرز کے بھیجے گئے شواہد کو بھی قابل قبول قرار دے دیا گیا ہے جبکہ اسکولوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ریگولر طلبہ کی گریڈنگ کے سلسلےمیں کوئی نیا امتحان یا اسائنمنٹ نہیں لیں گے، شواہد کو جمع کرنے کے لیے کسی نئے کام کی ضرورت نہیں ہے اور طلبہ کی گریڈنگ پہلے سے دستیاب شواہد کی بنیاد پر ہوگی انھیں گریڈنگ کے تفصیلی طریقہ کار سے 7 اپریل کو آگاہ کیا جائے گا۔

اسکولوں نے یہ جزوی طریقہ کار سامنے آنے کے بعد طلبہ کے آن لائن امتحانات کا باقاعدہ شیڈول تک جاری کردیا ہے بیشتر اسکولوں میں یہ امتحانات آئندہ پیر سے شروع ہورہے ہیں اور کئی اسکولوں نے طلبہ کو منگل کی رات ہی تمام مضامین کا علیحدہ علیحدہ انتہائی مختصر سلیبس تک جاری کردیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ امتحانات متعلقہ مضمون کے کن کن اسباق سے لیے جائیں گے۔

’’ایکسپریس‘‘ کو کراچی کے کئی اسکولز پرنسپل بے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر ہم کیمبرج کی بتائی گئی گائیڈ لائن پر چلتے ہوئے گریڈنگ کے لیے محض دستیاب شواہد ہی بھجوائیں تو ہمارے طلبہ کے نتائج کا تناسب گرجائے گا جس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، ایک یہ کہ کیمبرج کی جانب سے موصولہ ای میل میں باقاعدہ یہ کہا گیا ہے کہ گریڈنگ اسکولوں کے علاوہ کیمبرج کو پہلے سے دستیاب شواہد کی بنیاد پر ہوگی یعنی یہ مشترکہ شواہد ہوں گے اس کا مطلب گریڈنگ 100 فیصد ہمارے شواہد پر نہیں ہونی۔

پرنسپلز کا کہنا تھا کہ دوسری بات یہ ہے کہ طلبہ سے لاک ڈاؤن سے قبل جو امتحانات لیے گئے ان کے نتائج پہلے ہی بہتر نہیں کیونکہ طلبہ عمومی طور پر اسکولوں کے امتحانات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے لہذا اگر دستیاب شواہد پر ہی انحصار کیا جائے تو گریڈنگ میں ہمارے نتائج کا تناسب گر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ کیمبرج نے گریڈنگ کے لیے اکیڈمک شواہد کا مکمل انحصار اسکولوں پر نہیں کیا اور کیمبرج کی جانب سے اسکولوں کو موصولہ ای میل میں کہا گیا ہے کہ طلبہ کو گریڈنگ کیمبرج اپنے اور اسکولوں دونوں کے مشترکہ دستیاب شواہد کی بنیاد پر دی جائے گی اور اسکول ہر طالب علم کے ہر مضمون میں کارکردگی کے شواہد کا کیمبرج سے اشتراک کریں گے۔

ای میل میں ریگولر طلبہ کی گریڈنگ کے حوالے سے جن شواہد کی اقسام کا ذکر ہے ان میں mock exam یعنی فرضی امتحانات، مکمل یا نامکمل کورس ورک، اسائنمنٹس، AS level کے نتائج برائے اے لیول امیدوار، Grade in previous sitting for candidate retaking exams شامل ہیں۔

اسکولوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ جو بھی شواہد کیمبرج کو فراہم کریں گے وہ مستند ہونے چاہئیں اور سینٹر اس بات سے مطمئن ہو کہ یہ طالب علم کا ایسا کام ہے جس میں کسی کا تعاون شامل نہیں۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ یہاں اسکول یا سینٹر کی تصدیق کون کرے گا ؟ کہ اس نے طالب علم کے جو شواہد جمع کیے ہیں اس میں کوئی نیا اکیڈمک کام شامل نہ ہو طالب علم نے اس میں کسی سے تعاون یا مدد نہ لی ہو اور بھجوائے گئے شواہد مصدقہ ہوں۔

ای میل میں کہا گیا ہے کہ اسکولوں کے پاس اس وقت دو ماہ کی مدت ہے اور انھیں مزید تفصیلات سے 7 اپریل کو آگاہ کیا جائے گا ادھر اسی ای میل میں پرائیویٹ طلبہ کے لیے کہا گیا ہے کہ ان کے گریڈز کی بنیاد بھی شواہد پر ہوگی گریڈنگ کے لیے طلبہ اور ان کے والدین کوئی بھی شواہد قابل قبول نہیں ہوں گے تاہم پرائیویٹ طلبہ کے لیے ان کے ٹیوٹرز کے شواہد قبول کرنے کی بات موجود ہے۔

واضح رہے کہ کراچی میں پرائیویٹ طلبہ کو مہنگی فیسوں میں پڑھانے کے لیے ٹیوشن سینٹرز پہلے ہی موجود ہیں اور بعض ذرائع یہ سوال کررہے ہیں کہ ایسی صورت میں ٹیوٹرز کے بھجوائے گئے شواہد کس طرح قابل قبول ہوں گے؟ ان ٹیوٹرز اور ان کے شواہد کے مستند ہونے کی تصدیق کون کرے گا؟

واضح رہے کہ کیمبرج نے ذرائع ابلاغ کو بھجوائے گئے اپنے اعلامیے میں دعویٰ کیا ہے کہ طلبہ کے لیے شفاف، درست اور دنیا میں تسلیم شدہ تعلیم حاصل کرنے کے عمل کو یقینی بنارہے ہیں۔

اس اعلامیے میں کہیں بھی پرائیویٹ امیدواروں کا ذکر ہی نہیں ’’ایکسپریس‘‘  نے جب اس معاملے پر کیمبرج کی کنٹری ہیڈ پاکستان عظمی یوسف سے سوال کیا کہ پرائیویٹ طلبہ کے بارے میں کیا فیصلہ لیا گیا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’میرے خیال میں یہ بات اسٹوری میں موجود ہے‘‘ جب ان سے مزید استفسار کیا گیا کہ وہ کس اسٹوری کی بات کررہی ہیں تو اس پر ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔