سایہ سا بچھ گیا ہے مرے آنگن میں خوف کا

شاہد سردار  اتوار 5 اپريل 2020

ہمارے مشاہدے کے مطابق زندگی اور دنیا مکافات عمل کا وسیع ترین سلسلہ ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ جیسا کرو گے، ویسا بھروگے جو بو گے وہی کاٹو گے۔ کہا جاتا ہے کہ برے اعمال کی سزا اگلے جہان میں ملے گی لیکن ہم نے اکثر لوگوں کو اپنے اعمال کی کچھ سزا اسی دنیا میں بھی بھگتتے دیکھا ہے۔ جن گناہوں کا تعلق براہ راست خدا سے ہے اور ان سے معاشرہ یا دوسرے انسان متاثر نہیں ہوتے ان کا معاملہ یوم حساب خالق حقیقی کی عدالت میں پیش کیا جائے گا لیکن وہ اعمال جن کے اثرات دوسرے لوگوں پر مرتب ہوتے ہیں۔

بعض لوگ کسی کا انجام دیکھ کر خود کو بدل لیتے ہیں، اپنی ذات اپنی عادات و اطوار کو غور کرکے راہ راست پر لے آتے ہیں، کسی برے کام کرنے والے کی خدائی پکڑ پر سچی توبہ کرتے بھی لوگوں کو دیکھا گیا ہے۔ مجرموں اور گناہ کے عادی لوگوں کو بھی صراط مستقیم پر آتے دیکھا گیا ہے، سنگدلوں کو نرم دل ہوتے بھی پایا گیا ہے، بس شرط اتنی ہوتی ہے کہ انسان غور کی عادت ڈالے، زندگی کے بدلتے انداز، اپنے اردگرد رونما ہوتے واقعات اور قدرت کے معاملات پر گہری غور و فکر کرکے ان میں مضمر حکمت سمجھنے کی کوشش کرے۔ اپنی خطاؤں، ناکامیوں، غلط کاریوں اور مایوسیوں کو حوصلہ شکنی یا حزن کا باعث بنانے کے بجائے ان کی وجوہات کا تجزیہ کرے اور ان سے سبق حاصل کرے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ مکافات عمل قدرت کا اٹل اصول ہے جس کے مظاہرے ہم اپنے گرد و پیش دیکھتے آئے ہیں لیکن سچائی یہی ہے کہ ہم میں سے غالب انسانوں کی اکثریت اس سے سبق سیکھنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہے اور اگر آمادہ ہوجائے تو اس کا دورانیہ مستقل یا طویل نہیں ہوتا۔ لیکن قدرت خداوندی کی پکڑ میں لوگ آتے پائے جاتے ہیں۔ آفات و بلائیات ہمیشہ سے اس قوم کا جلد یا بدیر مقدر بن جاتی ہے جہاں بے حیائی، عریانیت یا فحاشی زور پکڑ جائے اور لاقانونیت، لوٹ مار عروج حاصل کرلے۔

اقوام عالم سے لے کر ہمارے ملک تک چہار سو مندرجہ بالا چیزوں کا دور دورہ ہے لہٰذا قدرت کا قانون حرکت میں آ گیا اور نتیجے میں پوری دنیا میں کورونا وائرس سے اموات اور خوف و ہراس کا سلسلہ ہر زندہ یا متحرک شخص کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ عالم یہ ہے کہ گھر کا ایک فرد دوسرے کی عافیت کا طلب گار ہے اور اگر کوئی معمولی سا بخار کسی کو آجائے کسی وجہ سے تو پھر گھر والوں کی تشویش، تشویشناک لگنے لگتی ہے۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ کورونا وائرس سے پاکستانی معیشت کو 1300 ارب روپے کا ریکارڈ نقصان پہنچا جب کہ اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں کو 181 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا اور اگر یہی صورتحال برقرار رہتی ہے یا آگے تک جاتی ہے تو آنے والے مہینوں یا ہفتوں میں 26 لاکھ لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔ ملکی منظرنامے پر نگاہ کی جائے تو ایک تکلیف دہ حقیقت بڑی واضح دکھائی دے گی اور وہ یہ کہ پاکستان کی 70 فیصد آبادی یومیہ صرف 250 روپے کما پاتی ہے اور یہاں زیادہ تر لوگ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ہیں۔

ایسے میں کراچی جیسے بہت بڑے اور کاروباری شہر کو لاک ڈاؤن کرنے سے لوگ معاشی سطح پر کورونا جیسی حالت میں مبتلا ہوکر رہ گئے کیونکہ نہ ہر عام آدمی کا میڈیکل اسٹور ہے، نہ ہی بیکری، نہ ہی گوشت کی دکان، نہ ہی سبزی کی دکان ہے اور نہ ہی پرچون کی دکان وہ رکھتا ہے۔ وطن عزیز کی بھاری اکثریت روز کماتی اور روز کھاتی ہے لہٰذا ہماری دانست میں سب سے بڑی معاشی ہلاکت اسی کا مقدر بنی ہے۔

کینیڈا کے وزیر اعظم نے اس افتاد پر 5 ارب ڈالر متاثرین کے لیے مختص کر دیے اس کے ساتھ ساتھ بے روزگار ہونے والے افراد کے لیے 900 ڈالر فی ہفتہ حکومت کی طرف سے بے روزگاری الاؤنس کی مد میں دیے گئے۔ پاکستان کو 93 ارب 28 کروڑ کی غیر ملکی امداد ملی، ادھر سندھ حکومت نے کھربوں روپے ٹیکس وصول کرکے 3 ارب روپے 3 کروڑ کی آبادی کے لیے فراہم کرنے کا مضحکہ خیز اعلان یا فیصلہ کیا معنی رکھتا ہے؟

ہمارے ملک میں جہاں متعدد بیماریاں ہر روز موت بانٹ رہی ہیں وہاں ایک رپورٹ کے مطابق ہر تیسرا فرد ڈپریشن کا شکار ہے، یہاں لوگوں پر ذہنی دباؤ باقی دنیا سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی کے مطابق پاکستان میں 33 فیصد سے زائد لوگ ذہنی پریشانی اور ڈپریشن کا شکار ہیں، 10 فیصد لوگ خوف، اندیشوں، وسوسوں یا وہم کی بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ رہی سہی کسر کورونا نے پوری کردی ہے اور ہر بشر ہر گھر اسی خوف اسی اندیشے میں دکھائی پڑا ہے اور بقول ناصر بشیر کا شعر:

جانے کس کی نظر گھر کو کھا گئی، نا صر

سایہ سا بچھ گیا ہے مرے آنگن میں خوف کا

عملی تصویر کی حیثیت سے ملکی افق پر موجود نظر آتا ہے۔ واقعی کبھی کبھی انسان کو زندہ رہنا بڑا مشکل لگنے لگتا ہے اور محفل تک میں وہ خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے، اپنے گھر میں وہ غیر مطمئن، بے اطمینان رہتا ہے اور اندیشوں اور وسوسوں کی دلدل میں خود کو دھنسا پاتا ہے۔

آج ہم سب کی یہی حالت یہی کیفیت ہے جو چیخ چیخ کر یہ بھی کہہ رہی ہے کہ اللہ ہم سے ناراض ہو گیا ہے۔ اور جب مکافات عمل انسان کا تعاقب کرنے لگے تو انسان کو اپنے اعمال، اپنی حرکتوں یا اپنے گناہوں یا زیادتیوں کا ضرور جائزہ لے کر ان سے تائب ہونے کا جتن کرنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے کے صاحب حیثیت فرد نے تین ماہ کا راشن خرید کر اپنے گھر میں تو اسٹاک کرلیا لیکن اگلی سانس کے آنے کا انھیں کوئی علم نہیں، دوسری طرف روز کی روٹی کا سامان کرکے گھر لانیوالے گھر میں محصور ہوجانیوالے کورونا کے جان لیوا مرض یا خوف میں جان سے جانے کو ہیں۔

پوری اقوام عالم اور ہماری پوری قوم کی مجرمانہ خاموشی (برسہا برس کی) آج یہ کہنے پر مجبور ہے کہ خاموشی محض قبرستانوں کو زیبا ہے۔ زندہ معاشروں کی پہچان ہی وہ آوازیں ہوا کرتی ہیں جو موافقت، مخالفت یا بعض اوقات بے مقصد بھی بلند ہوتی ہیں۔ ویسے بھی جس معاشرے میں سچ کا بول بالا نہ ہو وہ زندہ لاش بن جاتا ہے، جہاں کمزور طاقتور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اور ہماری دانست میں قابل رحم ہوتی ہے وہ قوم جس کے پاس عقیدے تو بہت ہوں مگر دل یقین سے ان کے خالی ہوں، اور قابل رحم وہ قوم بھی ہوتی ہے جو ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہو لیکن جس کا ہر طبقہ اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔