عجیب ’وبا‘ چلی ہے کسی سے نہ ملے کوئی۔۔۔!

رضوان طاہر مبین  اتوار 5 اپريل 2020
مجلسی مزاج انسان کے لیے ’ہجر‘ کسی اذیت سے کم نہیں

مجلسی مزاج انسان کے لیے ’ہجر‘ کسی اذیت سے کم نہیں

زیادہ وقت نہیں گزرا ابھی کچھ برسوں پہلے ہے کی تو بات ہے، جب لفظ ’چُھٹی‘ اپنے وجود میں کس قدر سکون، شانتی اور ایک شیرینی سموئے ہوئے محسوس ہوتا تھا۔۔۔

یہ ہماری بے فکری کے وہ دن تھے، جب ہفتے کے چھے دن صبح سے شام تک مدرسے، اسکول اور ٹیوشن کے معمولات ہمیں کوئی لمحہ فرصت کا نہ دیتے تھے کہ جس میں ہم اپنی مرضی سے جی سکیں۔۔۔ ایسے میں پہلے ’جمعہ‘ اور پھر ’اتوار‘ ہمارے لیے کسی ہفتہ وار ’عید‘ کے موافق محسوس ہوتا تھا کہ ہم ایک دن کے لیے ہر طرح کی ’فکر‘ اور ’کام‘ سے آزاد ہوں گے۔۔۔

ہمیں اِس ایک دن کے لیے ہفتے کے چھے دن گزارنے محال ہوتے تھے۔۔۔ ہفتے کا پہلا دن اپنے اندر ایک کرخت تاثر رکھتا تھا کہ وقت کے بہتے ہوئے دھارے میں وہ چھٹی کے دن کو پَچھاڑ کر جو نمودار ہوتا تھا، جب جمعے کی چھٹی تھی تو ’ہفتہ‘ اور اس کے بعد اتور کی چھٹی ہوئی تو ’پیر‘ ہمیں کبھی نہ بھایا، جب کہ پہلے ’جمعرات‘ اور بعد میں ’ہفتہ‘ یوں معلوم ہوتا کہ اپنی بانہیں پھیلا کر ہمیں ’نویدِ مسرت‘ دیتا ہے کہ خوش ہو جاؤ! کل ’آزادی کا دن‘ ہے۔

ہم پورا ہفتہ گن گن کے دن گزارتے تھے اور آخری دن تھا، گزارے نہ گزرتا تھا۔ اس آخری دن اگر اسکول میں چھٹی کے حساب سے زیادہ کام مل جاتا، تو کس قدر کَھلتا تھا کہ ہفتے میں ایک ہی چھٹی ملتی ہے کیا وہ بھی ہم اسکول کے کاموں میں گزار دیں۔۔۔؟ اسی لیے ہمارا معمول تھا کہ ہفتے کے آخر میں جس قدر بھی کام ملتا، وہ تعطیل کے روز سے پہلے ہر صورت مکمل کرتے اور ہماری یہ خود ساختہ سختی اس قدر تھی کہ شاید ہی کبھی کام کے لیے ہمیں چھٹی والے دن تک نوبت آئی ہو۔ پھر ہم کچھ بڑی کلاسوں میں آئے تو کام کا یہ بوجھ بانٹنے کو ’ہاف ٹائم‘ اس کام میں بھگتانے لگے، کیوں کہ کل چھٹی ضرور ہے، لیکن وہ ہمارے کھیلنے کودنے اور ہماری مرضی سے جینے کے لیے ہے، نہ کہ پڑھائی کے لیے۔۔۔!

ہفتے یا جمعرات کی رات کو جوں ہی اسکول کے یہ کام نمٹ جاتے، ویسے ہی ہم سُکھ کا سانس لیتے، گویا کندھوں پر رکھا ہوا کوئی بہت بھاری بوجھ اتر گیا ہو۔۔۔ گویا یہ کوئی عید کی چاند رات ہو۔۔۔ اور پھر اگلے دن ہم نہ جانے کیسے عام دنوں سے بھی زیادہ سویرے جاگ جاتے۔۔۔ صبح کے وہ لمحے ہر اجالے سے زیادہ روشن، پر رونق اور مسرت آمیز معلوم ہوتے۔۔۔ ایسا لگتا کہ گھر کے بام ودر بھی ہماری اِس خوشی میں جھوم رہے ہیں کہ آج ہم اسکول، مدرسے اور ٹیوشن وغیرہ کی ’قید‘ اور ’بندشوں‘ سے مکمل طور پر آزاد ہیں۔۔۔ آج ہم اپنی مرضی کے مالک ہیں، اس لیے خوب مزے سے کہانیاں پڑھیں گے، کرکٹ کھیلیں گے، سائیکل چلائیں گے، کبھی گلی میں چُھپن چھپائی، برف پانی اور کرکٹ کھیلیں گے یا یوں ہی بے مقصد اپنی ڈیوڑھی سے باہر کھڑے رہیں گے۔

آزو بازو کے لڑکے بالوں سے ہنسی مذاق کریں گے اور کبھی اپنے گھر کی مغربی کھڑکیوں کے پار بنے ہوئے ’برآمدے‘ میں گھروندے بنائیں گے۔۔۔ کچھ نہیں تو کوئی کرسی یا اسٹول رکھ کر اس کی منڈیر سے بچوں کو کرکٹ، ٹینس، لنگڑی پالا، آنکھ مچولی، لٹو بازی، پٹھو واری یا پہل دوج وغیرہ کھیلتا دیکھیں گے۔۔۔ ہمارے گھر کی بالائی منزلوں کے سبب مغرب کی سمت کھلنے والے اس برآمدے پر تقریباً صبح گیارہ بجے تک چھاؤں رہتی تھی۔۔۔ اور ہمیں دھوپ پھیلنے تک برآمدے میں اچھل کود کی اجازت ہوتی تھی، یہی سبب ہے کہ دوپہر سے پہلے تک کا زیادہ تر وقت یہیں بیتتا تھا۔۔۔ ہم منڈیر سے سامنے کی سمت گلی میں اپنے گھر کا گَھٹتا ہوا سایہ دیکھ کر اندازہ لگا لیتے تھے کہ دھوپ برآمدے کی منڈیر پار کرنے میں اب کتنی دیر مزید لگائے گی۔۔۔ اس کے بعد پھر شام کو برآمدے میں آتے، جب دھوپ کی تمازت سے اس کا فرش اور دیواریں ضرور تپ رہی ہوتی تھیں، لیکن کراچی کی خنک ساحلی ہوا اس تپش کو پَس پا کرنے کو کوشاں ہوتی۔۔۔

انہی فرصتوں میں ہم اپنے نہ جانے کون کون سے شوق اور ’خواب‘ مکمل کرنے کے لیے سوچ بچار کرتے اور انہی ’آزاد‘ وقتوں میں ہمارے ذہن میں نت نئے خیالات بھی کوندتے۔۔۔ جنہیں سچا کرنے کو پھر ہم کبھی روپے جوڑنے کے منصوبے بناتے اور کبھی گلّا (گلک) بناتے۔۔۔ (اکثر گلک ہم ٹالکم پاؤڈر کے خالی پلاسٹک کے ڈبوں کے پیندے میں گرم چُھری سے چھید کر کے بناتے) پھر بھی ہمارے ’وسائل‘ ناکافی ہوتے تو اپنی عرضی لیے ’عالمی بینک‘ کی طرح ابو کے پاس جاتے اور ان سے چاہتے کہ وہ کسی طرح ہماری خواہش پر ہامی بھر لیں۔ ہماری فوری مدد نہ بھی کریں لیکن کم ازکم مستقبل قریب میں اس کی یقین دہانی ہی کرا دیں۔۔۔ اور اکثر ایسا ہو جاتا اور پھر اگلا مرحلہ کچھ ’ترامیم‘ کے بعد پارلیمان کی طرح ’امی‘ سے اس کی منظوری ہوتا۔۔۔

اور یوں ہماری یہ بہت چھوٹی چھوٹی سی خواہشیں زندگی کے کسی بہت عظیم الشان مقصد کی طرح دل فریب معلوم ہونے لگتیں، جس سے آگے کا ہم نے کبھی کچھ سوچا بھی نہیں ہوتا۔۔۔ یوں لگتا کہ اس سے آگے وقت ساکت ہے اور دنیا بالکل ٹھیری ہوئی ہوگی۔۔۔ ان خواہشات کی تکمیل کا خیال آتے ہی ہر منظر میں رنگ سے بھر جاتے، اور سماعتوں میں چہچہاتے پرندوں کی موسیقی گھلنے لگتی اور رُواں رُواں مسکانے لگتا۔۔۔

چلو کہیں گھومنے جائیں، چلو کسی سے مل کے آئیں، چلو کچھ نئی چیز بنائیں، چلو مل کے کچھ مزے کا کھائیں، چلو کچھ خرید کے لائیں۔۔۔ یہ ہمارے ناپختہ ذہنوں کو حیرتوں میں مبتلا کرتے نت نئے کھلونے یا نظر کو فریب دیتی ’جادو بھری‘ کچھ دل چسپ اشیا۔۔۔ یہ رنگ برنگی چمکتے ہوئی دیدہ زیب رسائل اور کتابیں اور ان کے ورقوں میں اتری ہوئی وہ کہانیاں جو ذرا سی دیر میں تخیل کو مہمیز کر کے جانے کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں۔۔۔

ہر مہینے ’نونہال‘ کے تازہ شمارے کا آنا بھی تو ایک تہوار کی طرح تھا، جس سے ہماری چُھٹیاں سج جایا کرتی تھیں۔۔۔ ’نونہال‘ ’تعلیم وتربیت‘ اور ’آنکھ مچولی‘ کے وہ قصے جنہیں پڑھتے ہوئے جی چاہتا کہ کاش ان کا کبھی کوئی اَنت ہی نہ ہو۔۔۔ وہ طویل ترین کہانیوں کے باقی ماندہ صفحات کو دیکھ کر مایوس ہو جانا کہ ’ہئے، بس یہ کہانی تو ابھی ختم ہی ہو جائے گی۔۔۔!‘ لیکن صاحب، کہانی کوئی بھی ہو، ختم تو ہو ہی جاتی ہے! بالکل ایسے ہی جیسے چُھٹی کا دن بھی بیت جاتا تھا۔۔۔

گرمیوں کی دو مہینوں کی طویل چھٹیاں بھی تو ہمارے نہ چاہنے کے باوجود گزر ہی جاتی تھیں، اور چاہے اُس زمانے میں دوسری سے تیسری کلاس میں پہنچنے کے لیے ایک سال ایک زمانے جیسا معلوم ہوتا ہو، لیکن جون، جولائی کی چھٹیاں بہت تیزی سے بیت جاتیں۔۔۔ بالکل اسی طرح وہ وقت بھی اب خواب ہوا، ہم نہ چاہیں، مگر یہ گزرتے روز وشب ہمیں گویا گھسیٹ کر بچپن سے نکال کر بہت دور لے آئے اور یہ گھڑی کی ٹِک ٹِک سے پھسلتا ہوا وقت ہمیں ابھی اور آگے تک لے کر جائے گا۔۔۔ اور یہ صرف ہمیں کیا ہم سب ہی کو لے کر جاتا ہے، لیکن اس ’مختصر‘ سے وقت میں کتنا کچھ بدل گیا ہے۔۔۔

شاید اب ’فرصت‘ ملتی ہی نہیں کہ اس طرح کے ’فالتو‘ کاموں میں خود کو جھونکیں۔۔۔ روزی روٹی اور زندگی کے مسائل اور تلخیوں نے ہم سے دراصل وہ ’آزادی‘ اور ’بے فکری‘ کی خوشی ہی اُچک لی ہے۔۔۔ آج ہم کبھی کبھی مسکرا بھی دیتے ہیں، تو وہ اُس وقت جیب میں دو ٹافیوں کے ثابت موجود ہونے جتنا بھی خوشی نہیں دیتا۔۔۔

ہم ذرا دیر کو سوچتے ہیں کہ وہ پہلی بار امی سے چھُپ کر رنگ چھوڑتی قلفیاں کھا کے اپنے منہ اور ہاتھوں سے اس کا نارنجی رنگ چھُٹانے کا ’معرکہ‘ کس قدر بڑا تھا۔۔۔ وہ چار، چار آنے والی ’مے فیئر‘ چیونگم ایک ساتھ تین چار کھانا کہ اس سے ہم کتنا بڑا ’پھُلا‘ پھلائیں گے، کس قدر اہم تھا۔۔۔ وہ جھوٹ بول کر امّی سے دو، ایک روپوں کے زمین پر پتھر سے پھوڑے جانے والے پٹاخوں کا پہلا اور آخری ’تجربہ‘ کتنا ’عظیم‘ تھا۔۔۔ (یہ الگ بات ہے کہ اس ’جھوٹ‘ کا ’احساس جرم‘ آج بھی درد دیتا ہے) وہ ٹوٹے ہوئے دانت کو تکیے کے نیچے رکھنے کا تجسس کہ صبح کیا ہوتا ہے۔۔۔ اور اس ’سنی سنائی‘ پر عمل کر کے دیکھنا کہ پینسل چھیلنے سے اس کا جو بُرادہ نکلتا ہے، اس سے ربڑ (ریزر) بنتا ہے۔۔۔ اور پھر کلاس بھر کی پینسلیں چھیل چھیل کر اس کے برادے کو دودھ میں پکا کر دھوپ میں رکھ کر انتظار کرنا کہ دیکھیں کیسے ربڑ بنتا ہے۔۔۔ اور وہ ایک تار اور سیل سے ننھا سا بلب جلانا۔۔۔ ٹیپ ریکارڈر میں اپنی آواز ریکارڈ کر کے سننا اور پرانے خراب ریڈیو کو کھول کر اُس میں ’ریڈیو پاکستان‘ کے مختلف ’’کمرے‘‘ ڈھونڈنا۔۔۔

یہ سب تو قصہ پارینہ ہوا، لیکن یہ ’چُھٹی‘ کے ساتھ کیا ہوا، ہم ہفتہ وار چھٹیوں کے ساتھ کراچی کی اَن گنت ’ہڑتالوں‘ کے ساتھ پروان چڑھے ہیں۔۔۔ گھر کے باورچی خانے میں جمع ہوتے راشن کی شبیہہ نے ہماری یادداشت میں لفظ ’کرفیو‘ کے معنیٰ بھی تبھی سمجھا دیے تھے۔۔۔ لیکن ہمارے لیے یہ فقط ’چھٹیاں‘ تھی۔۔۔ ہم ’پہیا جام‘ کا مطلب نہیں سمجھتے تھے اور اس ’بے پروا‘ عمر میں ہمجولیوں میں اپنے کھلونوں کا بالشت بھر ’پہیا‘ چلا کر خوش ہوتے تھے کہ ’لو چلا دیا ہم نے پہیا جام میں پہیا۔۔۔!‘ جتنی طویل چھٹیاں اتنی زیادہ مسرت اور اتنی زیادہ شادمانی۔۔۔ کہاں جی چاہتا تھا کہ اِن چھٹیوں کا بھی اَنت ہو۔ بے فکرے تھے ناں، تبھی بے خبر تھے کہ ایسی غیرمعمولی چھٹیاں یقیناً کوئی خوشی کا باعث نہیں ہوتیں۔۔۔ ایسی چھٹیوں سے کتنوں کی زندگیاں مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں، پے درپے ایسی تعطیلات بہت سوں کو روزگار سے بھی محروم کر دیتی ہیں۔۔۔

آج ’کورونا‘ کی وبا کے سبب اسکول کالجوں کو بند ہوئے ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا ہے۔۔۔ بات اس سے بھی بڑھ کر 15 دن کے مکمل ’لاک ڈاؤن‘ تک پہنچ چکی ہے۔۔۔ صرف سندھ کے لاک ڈاؤن سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کا خوف علاحدہ ہے۔۔۔ لیکن یہ کیسی چھٹیاں ہیں کہ جو ہم سب کو بالکل تنہا گزارنا ہیں، پہلے کی اکا دُکا ہڑتالوں والی چھٹیوں کو قریب رہنے والے رشتے دار اور عزیز واقارب مل بیٹھنے کا بہانہ بنا لیتے تھے۔۔۔ بے وجہ ایک دوسرے کے ہاں چلے جاتے تھے۔۔۔ ساتھ دوپہر میں بیسنی روٹی بنانے کا پروگرام بن جاتا تھا، کبھی گھروں میں بیسن کی پھلکیاں تل لی جاتی تھیں۔۔۔ چائے ساتھ پی لیتے تھے، ساتھ باقر خانیاں منگا لیتے تھے۔

محلے کے پھیری والوں کی بھی چاندنی ہو جاتی تھی، گول گپے والا، سونٹھ بتاشے والا، پاپڑ والا، پاپ کورن والا، گولا گنڈے والا، ربڑی ملائی والا، کباب مسالے والا اورنہ جانے کیا کیا چیزیں ہوتی تھیں، جو اِن چھٹیوں میں چار پیسے زیادہ کما لیتے تھے۔۔۔ اُدھر گلی محلوں میں بھی وقتی پریشانی کو رفع کرنے کو نکڑوں پر دوستوں کی محفلیں لگی ہوئی ہوتی تھیں، باتیں کرلیتے، ساتھ ہنس لیتے، ایک دوسرے کا غم اور دکھ بانٹ لیتے۔۔۔ گلی میں کھیلتے کودتے بچے اور نوجوان کراچی کے اِن مشکل دنوں میں بھی محلوں کے سناٹوں کو ویرانہ نہیں ہونے دیتے تھے۔۔۔

اور آج۔۔۔؟ آج اگر ہم چاہ بھی لیں تو ’کورونا‘ وائرس کے سبب ایسا ممکن نہیں ہے۔۔۔ ہر چھینک اور کھانسی پر پریشانی ہے، ذرا سا بخار تشویش میں ڈال دیتا ہے۔۔۔ سب کو گھروں میں قید رہنا اور گھروں میں بھی ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا ہے۔۔۔ کسی سے ہاتھ نہیں ملانا، گلے نہیں ملنا، انتہا یہ ہے کہ بچے بزرگوں کی آشیرواد لینے کو ان کے قریب نہ جائیں۔۔۔ اس تکلیف کو وہی محسوس کر سکتا ہے، جو اپنے بزرگوں سے مصافحے کے ساتھ سر خم کر کے قیمتی دستِ شفقت وصول کرتا ہے۔۔۔ اور ہم تو اپنی مرحومہ پھوپھی جان کے اتنے لاڈلے رہے کہ اِن کے گھر جاتے ہی ہمارا سلام ہی یہ ہوتا تھا کہ وہ ہمیں دیکھتے ہی اپنے دونوں بازو پھیلا دیتیں اور ہم دوڑ کر اِن سے جا ملتے تھے۔۔۔!

اب بس سب کچھ دور سے، بلکہ بہت دور سے ہی کرنا ہے۔۔۔ بھلا ہو اِس انٹرنیٹ کا کہ اب یہی رابطے کا ایک ’محفوظ‘ ذریعہ بتایا جاتا ہے۔۔۔ آپ لاکھ کہیں کہ نفسا نفسی کا دور ہے، سب اپنی دنیا میں مگن ہیں، کوئی کسی سے ملنا جلنا پسند ہی نہیں کرتا، لیکن مجلسی مزاج لیے پیدا ہونے والے حضرتِ انسان کو یہ وبا بتا رہی ہے کہ جدید دور کی مشین ہونے کے باوجود انسان کے لیے انسان سے ملنا کس قدر ضروری ہے۔۔۔!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔