- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
- امریکا میں چاقو بردار شخص کے حملے میں 4 افراد ہلاک اور 5 زخمی
- آئی پی ایل؛ ’’پریتی زنٹا نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پراٹھے بناکر کھلائے‘‘
- اسلام آباد میں ویزا آفس آنے والی خاتون کے ساتھ زیادتی
- اڈیالہ جیل میں عمران خان سمیت قیدیوں سے ملاقات پر دو ہفتے کی پابندی ختم
- توانائی کے بحران سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کرنا ترجیح میں شامل ہے، امریکا
- ہائیکورٹ کے ججزکا خط، چیف جسٹس سے وزیراعظم کی ملاقات
- وزیر اعلیٰ پنجاب کا مسیحی ملازمین کیلیے گڈ فرائیڈے اور ایسٹر بونس کا اعلان
- سونے کی عالمی ومقامی قیمتوں میں اضافہ
- بلوچستان : بی ایل اے کے دہشت گردوں کا غیر ملکی اسلحہ استعمال کرنے کا انکشاف
- سینئر وزیر سندھ شرجیل میمن کی زیرصدارت محکمہ ٹرانسپورٹ کا اعلیٰ سطح اجلاس
- قومی ٹیم کی کوچنگ؛ جیسن گلیسپی نے اہم فیصلہ کرلیا
- پشاور؛ صوبائی وزیر و دیگر کے نام ای سی ایل سے نکالنے کیلیے حکومت سے جواب طلب
- سوئی ناردرن کی گیس قیمتوں میں اضافے پر وضاحت
- کراچی؛ اورنج اور گرین لائن کو جوڑنے کے لئے شٹل سروس شروع کرنے کا فیصلہ
- قادیانی شہری ضمانت کیس؛ علماء سے 2 ہفتے میں تحریری رائے طلب
- سویلین ٹرائلز؛ سپریم کورٹ کی فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت
جیل کی قید تنہائی سے اسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں کیا جانے والا سلوک زیادہ برا تھا، کورونا مریض
چارسدہ: کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے چارسدہ کے ایک نوجوان محمد سلمان نے دوران علاج اپنی بپتا سناتے ہوئے کہا ہے کہ جیل کی قید تنہائی سے اسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں کیا جانے والا سلوک زیادہ برا تھا۔
30 سالہ نوجوان نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ وہ سعودی عرب میں کام کرتا تھا، فروری میں اسے سینے اور پیٹ میں درد ہوا تو چیک کرانے پرڈاکٹروں اپینڈکس آپریشن تجویزکیا، میں نے وہاں آپریشن کرانے کے بجائے پاکستان آکر علاج کا فیصلہ کیا ۔ یہاں چیک کرایا تو ڈاکٹر نے بتایا پھیپھڑوں میں سوجن ہے، دوائی دینے سے کافی حد تک ٹھیک ہوگیا۔ اسی دوران مارچ میں کورونا وائرس کے پھیلنے کی باتیں ہونے لگیں،اچانک محکمہ صحت کی طرف سے فون آیا کہ اس کا چیک اپ کرنا ہے، 13 مارچ کو اسپتال بلا کر ایک کمرے میں بند کرکے باہر دوگارڈ کھڑے کردیے گئے۔
میری رپورٹ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد بھیجی گئی جو پازیٹو آگئی، اس کے بعد میری اصل آزمائش شروع ہوگئی، میری تصویرٹی وی چینلوں پر دکھائی جانے لگی،سوشل میڈیا پر نئی نئی کہانیاں گھڑی جانے لگیں ۔ڈاکٹروں اور طبی عملے نے میرا چیک اپ بند کردیا ۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس حفاظتی سامان نہیں،باقی دنیا سے میرا رابطہ صرف موبائل پر تھا،ہسپتال میں افواہیں تھیں کہ اگر میں مرگیا تو میری میت گھروالوں کو بھی نہیں دی جائیگی،کسی نامعلوم مقام پر دفن کردیا جاؤنگا۔گاؤں میں میرا گھر قرنطینہ قرار دیدیا گیا،میرے خاندان کا حقہ پانی بند ہوگیا۔
میرے بھائی اور بیوی کے ٹیسٹ بھی لیے گئے لیکن خوش قسمتی سے وہ نیگیٹو آگئے۔ میں اسپتال میں پڑا ہروقت اپنے اورگھروالوں کے ساتھ ہونیوالے سلوک کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ایسا وقت بھی آیا کہ ہسپتال میں مجھے کھانا دینا بھی بندکردیا گیا۔میں نے ایک چینل کو فون کیا تو طبی عملہ کو ہوش آیا ،پھر کھانا توملنے لگا لیکن دوائی پھر بھی نہ دی گئی۔ مجھے کھانسی تھی نہ سینے میں درد ،نہ ہی بخار لیکن میری ذہنی حالت خراب ہوچکی تھی۔میڈیکل اسٹاف صرف فون پر میری حالت کے بارے میں پوچھتا تھا، مجھے تسلی دی جاتی تھی کہ میرا مدافعتی نظام بڑا مضبوط ہے لہذا میں بیماری کوشکست دے سکتا ہوں۔
17دنوں بعد میری رپورٹ نیگیٹوآئی تو میری جان چھوٹی ۔ڈاکٹر نے جب رازداری میں مجھے یہ خبرسنائی تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی ۔میں ساری رات سو نہ سکا،اگلے دن مجھے گاڑی میں بٹھا کرگھر چھوڑ دیا گیا۔ اب میں کورونا وائرس کو تو بھول چکا ہوں لیکن قید تنہائی اور اس دوران اڑائی جانے والی افواہیں اورغیرانسانی سلوک مجھے نہیں بھولا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔