عامراور وہاب پر وقار یونس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہو سکا

نمائندہ خصوصی  منگل 7 اپريل 2020
کھلاڑیوں کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے کوئی پالیسی ہونا چاہیے۔ فوٹو : فائل

کھلاڑیوں کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے کوئی پالیسی ہونا چاہیے۔ فوٹو : فائل

کراچی: محمد عامراور وہاب ریاض پر وقار یونس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہو سکا،دونوں کی ٹیسٹ کرکٹ سے اچانک علیحدگی پر کوچ آج بھی رنجیدہ ہیں۔

وقار یونس کا کہنا ہے کہ کسی کوزبردستی کھیلنے پر مجبور نہیں کر سکتے لیکن اس وقت دونوں پیسرز کے فیصلے کا پاکستان کو نقصان ہوا، یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی موجودگی میں ہم لازمی طور پر آسٹریلیا میں جیت جاتے لیکن کارکردگی کافی بہتر ہو سکتی تھی،ہمیں ناتجربہ کار نوجوان پیسرز پر انحصار کرنا پڑا، نئے ٹیلنٹ پر مشتمل پول تیار کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ آئندہ اس طرح کی مشکلات پیش نہ آئیں،انھوں نے کہا کہ میں ہیڈکوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ریٹائرمنٹ کے حوالے سے کوئی پالیسی ہونا چاہیے تاکہ کسی کھلاڑی کی  اچانک عدم دستیابی کے بعد  مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے،ٹی ٹوئنٹی لیگز میں پیسہ اور کشش ہے لیکن ملک کی ضرورت مقدم ہونا چاہیے، مسلسل ناقص کارکردگی کے باوجود محمد عامر کو لاڈلا بنائے رکھنے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میرے لاڈ پیار سے قبل ہی پیسر نے ٹیسٹ کرکٹ چھوڑ دی،کارکردگی میں اتار چڑھاؤ آتا ہے، بہرحال محمد عامر اب بھی ایک میچ ونر اور محدود اوورز کی کرکٹ میں پاکستان کے لیے اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔

پلیئرز کے سوشل میڈیا پر انحصار پر بہت غصہ آتا ہے،بولنگ کوچ

وقار یونس نے کہا کہ  پاکستانی کرکٹرز عدم تحفظ کا شکار اور انھوں نے سوشل میڈیا پر انحصارشروع کر دیا ہے، مجھے اس پر بہت غصہ آتا ہے، ہم اپنے دور میں مشکل صورتحال میں بھی دباؤ میں نہیں آتے تھے،ہمارے کرکٹرز کو سوشل میڈیا سے اجتناب برتنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس بہت اچھے کھلاڑی موجود ہیں، سابقہ دور کی طرح بڑے نام اور سپراسٹار اس لیے نہیں آ رہے کہ کرکٹ زیادہ نہیں ہوتی، جب کرکٹ زیادہ کھیلی جائے گی اور کھلاڑیوں کو ہوم گراؤنڈ پر زیادہ میچز ملیں گے تو اسٹارز بھی ابھر کر سامنے آئیں گے۔

شرجیل کی فٹنس پروقار یونس نے بھی عدم اطمینان ظاہرکردیا

کراچی (اسپورٹس رپورٹر) اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں سزا یافتہ بیٹسمین شرجیل خان کی فٹنس پر وقار یونس نے بھی عدم اطمینان ظاہر کر دیا، انھوں نے کہا کہ اوپنرکی فٹنس سب کو نظر آرہی ہے، میں نے سب سے پہلے اس امر کی نشاندہی کردی تھی، شرجیل خان ایک اچھے بیٹسمین لیکن سوال یہ ہے کہ آسٹریلیا میں شیڈول ورلڈ کپ کیلیے وہ موزوں ہوں گے یا نہیں،مجھے حیرت ہے کہ شرجیل خان کو 2 برس ملے مگر انھوں نے اپنی فٹنس کو بہتر نہیں بنایا، انھیں منتخب کرنا سلیکٹرز کا کام ہے، میرا خیال ہے کہ شرجیل کو پاکستان کے لیے دستیاب ہونا چاہیے مگر انھیں پہلے اپنی فٹنس کو بہتر بنانا ہوگا۔

وقار یونس نے ایک بار پھرخود کو ڈیڑھ برس کی ڈیڈ لائن دے دی

کراچی (اسپورٹس رپورٹر) وقار یونس نے ایک بار پھر خود کو ڈیڑھ برس کی ڈیڈ لائن دے دی، انھوں نے واضح کیا کہ استعفے کی بات میری کارکردگی  سے منسلک ہے،میں نے ہمیشہ ایسا کہا کہ اگردیکھا کہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا تو سبکدوش ہونے کو ترجیح دوں گا، انھوں نے کہا کہ میں ایک ڈیڑھ سال کے بعد جائزہ لوں گا کہ پاکستان ٹیم کے لیے اپنے فرائض درست سمت میں ادا کر رہا ہوں یا نہیں، اگر خود کو ٹیم کے لیے موزوں نہیں سمجھا تو ذمہ داری سے الگ ہو جاؤں گا۔

حالات بہتر ہونے پر فیملی کے ساتھ پاکستان آ جاؤں گا، وقار

کراچی (اسپورٹس رپورٹر)  وقار یونس نے کہا کہ میں پاکستان منتقل ہونے کی کوشش کر رہا تھاتاہم کورونا وائرس کی وجہ سے واپس آسٹریلیا آنا پڑا، حالات بہتر ہوئے تواہل خانہ کے ساتھ اپنے وطن واپس آ جاؤں گا، میری کوشش ہے کہ کوئی فلاحی ادارہ بنا کر ملک و قوم کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کروں، اس کے لیے جگہ بھی حاصل کرلی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میری اہلیہ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے موجودہ صورتحال میں فرنٹ لائن پر کام کر رہی ہیں، یہ میرے لیے بہت اعزاز کی بات ہے کہ وہ انسانیت کیلیے خدمات انجام دے رہی ہیں۔

کسی شہر کے حوالے سے تعصب نہیں برتتا،سرفراز کی کارکردگی اچھی نہیں،وقار

کراچی (اسپورٹس رپورٹر) وقار یونس نے کہا ہے کہ میں کسی شہر کے حوالے سے تعصب نہیں برتتا، کوشش ہوتی ہے کہ وہ کھلاڑی پاکستان ٹیم کا حصہ بنے جو ملک کے لیے بہتر کارکردگی پیش کرسکے۔ انھوں نے کہاکہ سرفراز احمد باصلاحیت کھلاڑی اور ان دنوں سخت محنت کر رہے ہیں، ان کی فٹنس بھی بہتر ہوئی تاہم بدقسمتی سے حالیہ دنوں میں کارکردگی زیادہ اچھی نہیں رہی، وہ پاکستان کا سرمایہ ہیں، سرفرازاحمد کی ملک کے لیے گراں قدر خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا، پاکستان کرکٹ ٹیم کے دروازے ان پرکھلے اور وہ عمدہ کارکردگی دکھاکر جگہ واپس پا سکتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔