پانچ طاقتوں کی ویٹو پاور ظلم کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے

عرفان احمد بیگ  بدھ 8 اپريل 2020
پراپیگنڈہ حکمت عملی کے ذریعے مکاری و عیاری کو مثبت معنی پہنا دیئے جاتے ہیں، اقوام متحدہ کی تاریخ کا چشم کُشا احوال

پراپیگنڈہ حکمت عملی کے ذریعے مکاری و عیاری کو مثبت معنی پہنا دیئے جاتے ہیں، اقوام متحدہ کی تاریخ کا چشم کُشا احوال

( قسط نمبر8)

1099 سے1187 تک صلیبی جنگوں کا زور رہا اُس وقت تاریخ میں پہلی مرتبہ پورا یورپ مسلمانوں خصوصاً عرب مسلما نوں کے خلاف متحد ہوا لیکن اُس وقت یورپ میں مذہبی انتہا پسندی تھی اور حکومت سمیت پورے معاشرے پر مذہبی پیشوائیت کی گرفت مضبو ط تھی یونان اور روم کے علم وفضل کی روشنی کے بعد اب یورپ تاریکی میں ڈوب گیا تھا اور آج بھی مغربی مورخین اُس دور کو تاریکی کا دور کہتے ہیں۔

اگرچہ صلیبی جنگوں سے اہل یورپ کو نقصان پہنچا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اِن جنگوں سے اُن کو عرب مسلمانوں کی معاشرتی علمی ترقی کا مشاہد ہ کرنے کا موقع ملا اس سے قبل ہی مسلمانوں کی اسپین میں حکومت قائم ہو گئی تھی یوں یورپی اقوام مسلمانوں کے اعتبار سے نہ صرف اچھی معلومات رکھتے تھے بلکہ بہت سے شعبوں میںاِن کے علم وفنون سے استفادہ بھی کر رہے تھے۔ کہ 13 ویں صدی سے ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے دور کے آغاز پر ہی مشرقی اور مرکزی یورپ کے بہت سے علاقوں پر ترک خلافت کا تسلط قائم ہو گیا اور پھر1492 میں جب کرسٹو فر کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تو اسی سال اسپین سے مسلمانوں کے صدیوں پرانے اقتدار کا خاتمہ ہو ا تو اسی کے ساتھ دنیا میں یورپی اقوام کے نو آبادیا تی دور کا آغاز ہو ا۔ نو آبادیاتی نظام کسی قوم کے کسی دوسری ریاست پر قبضہ کر لینے کے پرانے تاریخی انداز سے کافی مختلف تھا۔

اِس سے قبل یہ ہو تا تھا کوئی قوم اگر کسی علاقے یا ملک پر حملہ آور ہوتی تو اُس ملک کو فتح کر نے کی صورت میں اُس کے سامنے دو واضح مقاصد ہو تے تھے ایک یہ کہ مفتوحہ علاقے سے لوٹ کھوسٹ کر کے واپس اپنے ملک چلے جائیں یا پھر جس ملک پر قبضہ کیا ہے اُس پر مستقل حکومت قائم کرلیں۔ مستقل حکومت کے قیام کی صورت میں یہ ہو تا تھا کہ چند سو سال بعد جس ملک کو فتح کیا ہو تا تھا، فاتح قوم کی تہذیب و ثقافت ،تمدن، مذہب مفتوحہ علاقے کی ثقافت ، تمدن ، تہذیب ، مذہب یا مذاہب سے ملاپ یا قدرے غلبے کے ساتھ تبدیلی یا سماجی ارتقا کا عمل طے کرتیں اور اس سے معاشرے کی ساخت بھی بدل جاتی تھی اور عموما ًایسی سلطنتیں اپنے پہلے بانیوں کے نام یا اُن کی قوموں یا قومیتوں کے نام پہچانی جا تی تھیں۔

اس کی ایک مثال ہمارے ہاں برصغیر میں خلجی ، بلبن،لو دھی یا مغلیہ سلطنتوں کی ہے لیکن نو آبادیا تی دور ماضی کی تاریخ سے یوں مختلف ہے کہ اِس میں فاتحین کے پیش نظر علاقوں پر قبضے سے زیادہ اُن ملکوں کے وسائل کو تجارتی مقاصد کے لیے حاصل کر نا تھا اور پھر اِنہی وسائل کو مصنو عات کی صورت میں اِن ہی مقبوضہ ملکوں کو منڈیا ں بنا کر فروخت کر نا ہوتا تھا۔ اس تاریخی بنیادی تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ اہل یورپ نے علم وفنون کے پرانے انداز میں جدت پید ا کرتے ہو ئے سائنس و ٹیکنالوجی کی ارتقائی منازل طے کرنا شروع کی تھیں۔ یوں اُس زمانے سے مشرق اور مغرب میں علم ،تحقیق، سائنس و ٹیکنالوجی میں ایک بڑا خلا واقع ہو گیا جو آج بھی بہت سے مشرقی ملکوں میں موجود ہے ،لیکن یہ بھی ہے کہ اٹھارویں صدی کے آغاز تک ترکی کی سلطنت عثمانیہ نہ صرف مظبوط تھی بلکہ مشرقی اور مرکزی یورپ کے بہت سے علاقے اس کے قبضے میں تھے اور انہی علاقو ں میں ہنگری کا علاقہ تھا جو1526 سے لیکر1699 تک یعنی 173 سال ترک مسلمانوں کے قبضے میں رہا جب کہ اس سے قبل ہنگری پہلے صدیوں تک سلطنت روم کا حصہ رہا پھر بلغارین سلطنت اور اس کے بعد میڈیویلا ہنگری رہا بعد میں یہ کسی حد تک یورپ کی نیپولین جنگوں سے بھی متاثر ہوا۔

ہنگری پر نہ صرف جنگ عظیم اوّل کے اثرات یورپ کی دیگر ریاستوں کی طرح مرتب ہو ئے بلکہ 1917 میں سوویت یونین کے اشتراکی انقلاب کے بعد ہنگری میں بھی مشرقی اور مرکزی یورپ کی دیگر ریاستوں کی طرح مارکسی ،لیننی اشترکی نظریات کو کافی حد تک پزیرائی ملی۔ اس کی بڑی وجوہات میں ایک تو جنگ عظیم اوّل کے منفی اثرات تھے پھر جنگ ِعظیم اوّل کے بعد 1930 سے 1932 تک کی عالمی کساد بازاری کی وجہ سے غربت ،بھوک ، افلاس میں بہت اضافہ ہوا تھا دنیا کا یہی اقتصادی بحران تھا جس کی وجہ سے ایک جانب جرمنی میں ہٹلر کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب سویت یونین کے ڈکٹیٹر اسٹالن نے تقریبا ایک کروڑ انسانون کو قتل کر کے اشتراکی نظام کو انقلاب کے بعد ناٖفذ کر دیا تھا اور اس کی کامیابی دنیا کے غریب و مفلس عوام کو اپنی جانب متوجہ کررہی تھی اور اسی دور میں یعنی 1939 میں جنگِ عظیم دوئم کا آغاز ہو گیا۔

اب ہٹلر کی فسطائیت تھی جس کے آغاز پر خصوصاً پو لینڈ پر حملے اور قبضے کے وقت اسٹالن اور ہٹلر ہم خیال تصو ر کئے جارہے تھے لیکن اس کے فوراً بعد اسٹالن کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ یہ دوستی اُسے اور اشتراکی نظام کے حامل سویت یونین کو بہت مہنگی پڑے گی اور یوں نہ صرف اسٹالن نے ہٹلر سے تعلق ختم کر لیا بلکہ اُسکے مخالف اتحادیوں کی صف میں شامل ہو گیا۔ اس جنگ میں اگرچہ پورے یورپ کے کروڑوں افراد ہلا ک ہوئے مگراس وقت کے تقربیا ً ایک لاکھ مربع کلو میٹر رقبے کے ملک ہنگری کو بھی تاریخ کی بڑی تباہی اور بر بادی کا سامنا کر نا پڑاجب ہٹلر کی فوجوںنے اس ملک پر چڑھائی کر کے قبضہ کر لیا۔ اُس زمانے میں یہاں دس لاکھ سے زیادہ یہودی آباد تھے جو صدیوں سے آباد یہاں کے ہنگرین باشندے تھے۔ ہٹلر کے حکم پر یہاں 1944 میں 600000 یہودیوں کو قتل کردیا گیا اور 440000 یہودی ہنگری چھوڑ گئے یا جلا وطن کر دئیے گئے جب کہ دیگر 280000 ہنگرین کو بھی ہلا ک کیا گیا یوں ہنگری کے چھوٹے سے ملک کے بارے میں تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس ملک کے معاشرے کی حالت اُس وقت کیا ہو ئی ہو گی۔ آج ہنگری کا رقبہ 93030 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے۔ ہنگری کی سرحدیں شمال میں سلاواکیہ شمال مشرق میں یو کرئن شمال مشرق میں رومانیہ جنوب مشرق میں سربیا، جنوب میں کروشیا سے اور جنوب مشرق میں آسٹریا سے ملتی ہیں۔

اِن علاقوں پر دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی فو جوں نے چڑھائی کی تھی اور جب 1945 میں جرمنی کو شکست ہوئی تو اِن میں سے بیشتر علاقوں میں سابق سویت یو نین کی فوجوں نے جرمنی کی فوجوں کو پسپا کیا۔ ہنگری میں13 فروری 1945 کو روسی فوجیں داخل ہوئیں اور جنگ عظیم دوئم کے بعد یہاں کی ڈیمو گرفی یا آبادی میں معاشرتی لحاظ سے بہت بڑی تبدیلی آ گئی۔ ایک تو جنگ کے دوران بارہ لاکھ سے زیادہ افراد یہاں ہلاک ہوئے تھے، یعنی کل آبادی میں سے بارہ سے پندرہ فیصد افراد ہلاک ہو گئے تھے اور پانچ سے سات فیصد یہ ملک چھوڑ گئے تھے جن میں بڑی تعداد ہنگرین یہو دیوں کی تھی۔ پھر جب یہاں سے جرمن فوجیں رخصت ہوئیں اور روسی فوجیں ہنگری میں داخل ہو ئیں تو اس کے بعد نہ صرف ہنگری کے رقبے میں کچھ کمی ہو ئی بلکہ ایک بار پھر آبادی میں کچھ رد و بدل لسانی اور قومی بنیادیوں پر شہریت کے لحاظ سے ہو ا اور ہمسایہ ملک سلو اکیہ کو جانے والے 70000 سلواکین کے بدلے میں 200000 ہیگرین ہنگری میں آئے۔ پھر ہنگری میں وہ جرمن جو جنگ عظیم دوئم سے پہلے مدتوں سے یہاں کی شہرت کی بنیاد پر آباد تھے اُن 202000 جرمن باشندوں کو بھی ہنگری سے نکال دیا گیا۔

اب جہاں تک تعلق پرانے انداز کے سیاسی نو آبادیا تی نظام کا تھاوہ اپنے پورے ظلم و جبر کے ساتھ اپنی انتہا کو پہنچ کر جنگِ عظیم اوّل میں زوال پزیر تھا اگرچہ 1918 میں اس جنگ کے خاتمے پر یہ ضرور ہو ا تھا کہ برطانیہ سمیت دیگر نو آبادیاتی قو توں کی مقبوضات میں اضافہ ہوا تھا مگر یہ پرانا نو آبادیا تی نظام اپنی تجارتی ،اقتصادی پالیسیوں کے لحاظ سے چیلنج ہو چکا تھا اور اس کو پوری دنیا میں پرانے طرز کے روایتی ظلم و جبر سے مزید طویل عرصے تک بر قرار رکھنا ناممکن تھا۔ اس نظام کو دو بڑے چیلنج در پیش تھے ایک روس میں کا میاب اشتراکی انقلاب تھا اور دوسرامقبو ضہ ملکوں میں اٹھنے والی مسلح جد وجہد اور تحریکیں تھیں۔ پھر پہلی جنگ عظیم کے رد عمل میں ایک تو 1930 سے 1932 تک دنیا بھر میں بیک وقت رونما ہو نے والی عظیم عالمی کساد بازاری تھی اور دوسری جرمن قوم کا انتقامی جذبہ تھا جو 1919 کے معاہدہ وارسائی کی چنگاری سے 1939 میں آتش فشاں بن کر ہٹلر کے نازی ازم کی صورت میں سامنے آیا تھا جس نے اُس وقت یعنی1939 سے 1945 تک نصف سے زیادہ دنیا کو خاکستر کر دیا تھا۔

اِن دونوں عظیم جنگوں کے درمیان عالمی اجتماعی فکر تو یہی رہی تھی کہ پوری دنیا میں مکمل اور پائیدار امن قائم ہو اور پوری دنیا میں ہر قوم وملک آزاد و خو د مختارہو، انسانیت کا احترام کیا جائے اور آزادی ِ اظہار کے ساتھ دنیا کے ہر ملک میں انسانوں کے انسانی اور بنیادی حقو ق ہر شخص کو دئیے جائیںاور اسی عالمی انسانی خوا ہش کی بنیاد پر اقوام ِمتحدہ کا ادارہ وجود میں آیا تھا مگر یہ بھی نہایت تلخ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں رہنے والے اربوں انسانوںکی یہ عالمی خواہش ابھی تک ادھوری ہے اور اقوام متحدہ کا ادارہ اور خصوصاً سیکورٹی کو نسل اس اعتبار سے ناکام رہی ہے۔ اس ناکامی میں سویت یونین ،ا مریکہ ،بر طانیہ ، اور فرانس سبھی برابر کے شریک ہیں اور شائد آئندہ بھی ایسا ہی رہے اور اس کی پر دہ پوشی میں اِن ملکوں کا عالمی سطح کا میڈیا بھی اہم اور انسانیت کے لحاظ سے منفی کردار ادا کر تا رہے۔ تاریخی طور پر شائد پہلی جنگِ عظیم کے بعد ہٹلر کا دنیا میں اُبھرنا نہ صرف انسانیت کے لحاظ سے ایک ناخوشگوار واقعہ تھابلکہ اُس کو دنیا میں دو طاقتی بنیادوں پر متوازی انداز میں دو متضاد اقتصادی سیاسی نظاموں کے درمیان ارتقائی دور کا ایک ایسا تاریخی حادثہ قرار دیا جا سکتا ہے جس نے غالباً دنیا میں انسانی تہذیبی ارتقائی سفر کو بری طرح متاثر کرکے عالمی سیاست کو حد درجہ عیاری اور انسانی ذہانتوں کے منفی تر استعمال کے ساتھ ظالمانہ کر دیا ہے۔

پر وپگنڈہ اسٹرٹیجی اس طرح کا ابہام پید ا کرتی رہی ہے کہ عا لمی سطح سے مقامی سطح تک یہ ظلم و ستم اب سہا اور برادشت تو کیا جا تا ہے مگر ظلم کرنے والے عالمی چہرے مکاری و عیاری سے مثبت رویوں اور رحجانات کے نقاب لگائے سامنے آتے ہیں اور اسی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اپنی عالمی سیاسی،عسکری ،اقتصادی اجارہ داری اور طاقت کی بنیاد پراکثریت ووٹوں سے اپنی ظالمانہ عالمی کاروئیوں کوجائز اور قانونی قرار دلواتے ہیں۔ اگر کبھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ساتھ سلامتی کونسل کی اکثریت بھی کسی ویٹو پاور کی کسی جارحیت کے خلاف ووٹ دے تو عالمی سطح پر غیر جمہوری انداز میں ایک ویٹو پاور ووٹ حقیقت اور سچ کو جھٹلا دیتا ہے۔

1945 میں اقوام متحدہ کے قیام کے صرف پانچ سال بعد کوریا میں ہو نے والی جنگ میں بھی سویت یونین اور چین نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی دھجیاں اڑا دیں اور یہاں ایک ملک کو ریا 30 لاکھ انسانوں کی ہلاکت کے بعد شمالی اورجنوبی کو ریا کے نام سے دو ملکوں میں تقسیم ہو گیا اور پھر اسی اقوام متحدہ نے شمالی اور جنوبی کو ریا کو تسلیم کرتے ہو ئے دو ملکوں کو رکنیت بھی دے دی۔

،کوریا میں جنگ 1953 میں ختم ہو ئی تو اس کے صرف دوسال بعد اقوام متحدہ کے سامنے ایک اور بہت بڑا تنازعہ ہنگری کی صور ت میں سامنے آیا۔ سویت یونین نو آبادیاتی دور میں اگر چہ برطانیہ ، فرانس وغیر ہ کے مقابلے بڑی نو آبادیاتی قوت نہیں تھی یعنی روس کے پاس بر طانیہ اور فرانس وغیرہ کے مقابلے میں مقبوضہ علاقے کم تھے مگر ایک تو روس ہمیشہ سے رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک رہا ہے، پھر یہاں اشتراکی انقلاب سے قبل زار باد شاہت کے زمانے سے نہ صرف روس کا اپنا رقبہ دنیا میں سب سے زیاد ہ تھا بلکہ سنٹرل ایشیا میں اُس کے قبضے میں ازبکستان، کرغزستان، تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان اور آزربائجان جیسے مسلم اکثریت کے ممالک تھے اور مشرقی یورپ میں کروشیا، لتھویا،بوسینیا ہرزوگووینا، لٹویا،سربیا، یوکرائن،جیسے علاقے اُس کے قبضے میں تھے اور بڑ ی قوت کی حیثیت سے ہمسایہ ملکوں پو لینڈ، چیک ، سلواکیہ، رومانیہ،ہنگری وغیرہ پر روس کا سیاسی غلبہ تھا۔ہٹلر نے دوسری جنگِ عظیم میں ماسوائے بر طانیہ تقر یباً پورے یورپ میں اتنے بڑے رقبے پر قبضہ کیا تھا جس کی تاریخ میں پہلے مثال نہیں ملتی یوںدوسری جنگ عظیم میں فرانس جیسے ملک پر بھی جرمنی کا قبضہ ہو گیا تھا تو بڑی قوتوں میں سویت یونین اور برطانیہ ہی ایسے ملک تھے جن کو مکمل طور پر جرمنی شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ جفاکش روسیوں اپنے وسیع علاقے اور شدید سرد موسم کو استعمال کرتے ہوئے جرمنی کی فوج کو اپنی اُسی دفاعی حکمت عملی سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا یا جیسا ماضی میں نیپولین کی فوجوں کو پہنچا یا تھا۔ روسیوں نے جرمن فوجوں کو بھی پہلے آگے بڑھنے دیا اور شدید سردی کی آمد پر اپنے شہر وں کو خود آگ لگا کر اور خوارک کے ذخائر کو تباہ کر کے پسپا ہو گئے تھے۔

یوں نیپولین کی فوجوں کی طرح ہٹلر کی لاکھوں کی تعداد میں فوج بھوک اور شدید سردی کی وجہ سے ہلاک ہو گئی تھی۔ پہلی جنگ ِ عظیم کی طرح اس جنگ ِ عظیم دوئم میں بھی سب سے زیادہ تعداد میں روسی فوجی ہلاک ہو ئے تھے جہاں تک تعلق برطانیہ کا ہے توتاریخ اس کی گواہ ہے کہ جرمنی کی فوجیں جس طرح فرانس سمیت یورپ کے دیگر ملکو ں کو روندتی ہو ئی چند دونوں ہفتوں ،مہینوں میں یورپی ملکوں کو فتح کر تی آگے بڑھ رہی تھیں اُن کو مختصر رقبے اور جزیرے کے ملک برطانیہ نے روک لیا اور ایک جانب اس کی بحریہ تھی جو پہلی جنگ عظیم سے پہلے تک دنیا کی سب سے مضبوط اور طاقتور بحریہ تھی اور اُس وقت امریکی بحریہ کے بعد دوسرے نمبر پر آگئی تھی اُس نے سمندر میں جرمنی کو روکے رکھا ،اور فرانس کی فتح کے بعد فرانس اور برطانیہ کے درمیان واقع تقریباًچالیس کلومیٹر سمندر برٹش واٹر چینل ،،رود بادِ انگلستان،، جرمنی کو پار نہیں کرنے دی۔ اسی طرح جرمن فضائیہ نے ایک ایک دن میں بر طانیہ پر کئی کئی درجن لڑاکا طیاروں سے حملے کئے کہ کسی طرح یہ صورت پیدا کی جا ئے کہ جرمن چھاتہ بردار فوج اتاری جاسکے مگر جرمنی ہر طرح کی کوشش کے باوجود ناکام رہا۔

ہٹلر کا جنگی بنیادی منصوبہ یہی تھا کہ جس تیز رفتاری سے اُس نے یورپ کے باقی ملک فتح کئے اسی طرح وہ بر طانیہ کو فتح کر کے پورے یور پی اتحاد کوبے اثر کر دے گا۔ واضح رہے کہ جنگ عظیم دوئم کے پہلے ڈھائی برسوں میں امریکہ اس جنگ کے اتحادیوں میں شامل نہیں ہوا تھا۔ اگرجرمنی ہٹلر کے منصوبے کے تحت برطانیہ کو فتح کر لیتا تو دنیا کے کل رقبے کی 25 فیصد پر پھیلی برطانوی نو آبادیات پر اُس کی گرفت بہت کمزور ہو جاتی، برطانیہ کو بھی فرانس کی طرح جلا وطن حکومت قائم کر کے باقی جنگ لڑنا پڑتی، فرانس کی جلا وطن حکومت تو برطانیہ میں تھی، ایسی صورت میں برطانیہ کی جلا وطن حکومت امریکہ میں ہوتی اور وہاں سے نو آبادیا ت کو کنٹرول کر نا بہت مشکل ہو تا۔ انگریزوں کی یہ دفاعی جنگ دنیا کے لیے اُن کی بہادری اور مستقل مزاجی کی ایک تاریخی اور زندہ مثال ہے۔

اسی طرح ونسٹن چرچل کو دنیا کا عظیم سیاست دان یوں تسلیم کیا جا تا ہے کہ ایک تو بر طانیہ نے سویت یونین کو شدید نظریاتی ،سیاسی اور اقتصادی اختلافات کے باوجود جرمنی کے خلاف اتحادیوں میں شامل کر لیا جس کی وجہ سے روس نے تباہ کن جانی نقصان کے عوض جنگ ِ عظیم دوئم کا رخ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا، اسی طرح امریکہ بھی اس جنگ میں ایسا شامل ہوا کہ امریکہ برطانیہ کو آج تک ایک بڑی اور مستحکم قوت کے طور پر ساتھ لے کر چل رہا ہے۔ پھر یہ بھی اہم ہے کہ بر طانیہ نے دوسری جنگ عظیم میں بڑی حکمت عملی سے برصغیر سمیت اپنی دیگر نو آبادیات سے نہ صرف لاکھوں کی تعداد میں فوجیں بھرتی کرکے دنیا بھر کے مختلف محاذوں پر جرمن فوجوں کے سامنے کھڑے کردیے اور باوجود جنگ کے اپنی نو آبادیا ت میں اس جنگی صورتحال پر مقامی طور پر کروڑوں کی تعداد میں عوام کو قابو میں بھی رکھا۔ پھر جب دوسری جنگ عظیم میں پانسہ پلٹا تو تین بڑی قوتیں تھیں جنہوں نے جرمنی کی شکست کے بعد اُن علاقوں میں اپنی فو جیں داخل کیں جہاں جرمن فوجوں نے قبضہ کیا تھا اور اِن تین بڑی قوتوں میں امریکہ کی تازہ دم فوجوں کے علاوہ سابق سویت یونین اور بر طانیہ کی لاکھوں کی تعداد میں فو جیں شامل تھیں۔ اِن تینوں قوتوں کی کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ علاقوں میں جہاں جرمن فوجیں تھیں وہاں اِن کی فوجوں کا قبضہ ہو ،لیکن یہ احتیاط بھی ضروری تھی جنگِ عظیم دوئم کی فتح کے فوراً بعد اِن اتحایوں میں کو ئی تنازعہ فوجی تصادم، جھڑپ یا لڑائی کی صورت اختیار نہ کرئے۔

جہاں تک تعلق برطانیہ اور امریکہ کا تھا اِن دنوں کی لیڈر شپ اور فوجی قیادت میں اِن امور پر ہم آہنگی تھی بلکہ یہ خیال بھی کیا جا تا ہے کہ پہلے ہی سے مستقبل کے بہت سے منصوبوں پر اتفاق تھا جبکہ سابق سویت یونین جو اِن دونوں قوتوں کے اشتراک کے مقابلے میں ٹیکنالوجی ، بحری قوت اور اقوام متحدہ میں اکثریت کی سپورٹ کے لحاظ سے 70 سے 80 فیصد کم تک تھا مگر سویت یونین کی قیادت یہ جانتی تھی کہ پہلی جنگِ عظیم کے نقصانات سے کراہتی چیختی ہوئی یورپ کی معاشی ،اقتصادی اور مالیاتی حالت فورا کسی تصادم کی پوزیشن میں نہیں اور امریکہ جس کو پہلی جنگِ عظیم کی طرح اس دوسری جنگِ عظیم میں بھی فائدہ ہوا تھا وہ اپنی اس اُبھرتی مضبو ط پو زیشن اور قوت کو مستقبل کے پیشِ نظر مستحکم اور پائدار بنانا چاہتا تھا اور جنگِ عظیم دوئم کے بعد یہ نئی عالمی فضا خصوصاً اقوام متحدہ کے قیام کے بعد امریکہ کے حق میں تاریخی اعتبار سے بہت ہی آئڈیل تھی۔ جنگِ عظیم میں اتحادیوں کی فتح کے بعد امریکہ اور برطانیہ کی یورپ میں یہ منصوبہ بندی ایشیا ،افریقہ اور دیگر علاقوں سے مختلف تھی۔ پرانا نوآبادیاتی نظام نئے اقتصادی نو آبادیاتی نظام سے تبد یل کیا جا رہا تھا۔

خصوصاً مغربی یورپ کے وہ ممالک جو اتحادیوں میں شامل تھے جیسے ناروے ،پرتگال ،نیدر لینڈ، اسپین ،اٹلی،فرانس وغیرہ جن کی اپنی نو آبادیا ں جنگ سے پہلے مو جود تھیں، پھر وہ یورپی ملک تھے جو جنگ عظیم دوئم سے قبل آزاد وخود مختار تھے اور نظریاتی سیاسی اقتصادی پالیسیوںکی بنیاد پر امریکہ اور برطانیہ کے ہم مزاج تھے 1945 میں قائم ہو نے والے عالمی ادارے اقوام متحد کے ابتدائی یا بانی ممبران میں شامل تھے، یوں اِن کی خود مختاری آزادی واقعی نہ صرف حقیقی تھی بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بعد کے ہیومن رائٹس ڈیکلریشن کے مطابق تھی۔ اِن ممالک میں مغربی طرز کی جمہوری حکومتیں قائم تھیں۔ اگر برطانیہ کی طرح نیدر لینڈ وغیرہ جیسے کچھ ملکوں میں بادشاہتیں بھی تھیں تو وہ جمہوری انداز کی تھیں۔ یہاں یورپ کے بیشتر ملکوں میں گذشتہ تین صدیوں کے مذہبی عقائد اور قوم پرستی کے نظریاتی تصادم سے گذرتی ہو ئی جمہوریت میں مذہب کو سیاست سے حکومتیں قائم تھیں۔

اگر برطانیہ کی طرح نیدر لینڈ وغیرہ جیسے کچھ ملکوں میں بادشاہتیں بھی تھیں تو وہ جمہوری انداز کی تھیں۔ یہاں یورپ کے بیشتر ملکوں میں گذشتہ تین صدیوں کے مذہبی عقائد اور قوم پرستی کے نظریاتی تصادم سے گذرتی ہو ئی جمہوریت میں مذہب کو سیاست سے الگ کر دیا گیا تھا اور اِن مغربی ملکوں میں اگر چہ پوری مذہبی آزادی ہر فرد کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حاصل ہو تی ہے لیکن حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہو تا وہ سیکولر ہو تی ہے۔ یورپ میں کیونکہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے عوام مذہب سے اس کی پیشوائیت کی وجہ سے دور ہو گئے ہیں اس لیے وہاں آزادی اظہار کے ساتھ دوسرے نظریا ت کی قبولیت معاشرتی سطح پر بہت کھلے ذہنوں سے ہو تی ہے۔

یہی وجہ تھی کہ 1917 میں روس میں جس کی آبادی کی اکثریت عیسائی تھی اُس نے انقلاب کے بعد اشتراکیت کو قبول کیا اور یہ بھی حقیقت ہے جنگ عظیم اوّل میں کئی لاکھ ہلاکتوں اور سر کاری اخراجات میں بے پناہ اضافے اور شاہ کی جانب سے عوام کو ریلف نہ دینے کے سبب اُس وقت کوئی پچاس فیصد روسی عوام نے کارل مارکس اور لینن کے اشتراکی نظریا ت کو قبول کیا تھا اور مشرقی اور مرکزی یورپ جہاں جنگِ عظیم اوّل اور دوئم کے درمیانی عرصے میں عوام میں اشتراکی نظریا ت سرایت کر گئے تھے وہاں مختلف ملکوں میںغربت و افلا س کے سبب عوام کی 20 سے30 فیصد تعداد اشتراکیت کے حق میں تھی اور اب سویت یونین جنگ ِ عظیم دوئم کے بعد اور خصوصاً ایٹمی قوت بننے کے بعدا س پو زیشن میں تھا کہ اِن ملکوں میں اس عوامی قوت کو منظم کر کے اِن ملکوں میں اشتراکی انقلا ب بر پا کرئے یوں مشرقی یورپ کے بیشتر ملکوں میں جو اشتراکی انقلاب رونما ہو ئے۔

اُن کے پس منظر میں یہی تھا اوراس کے مخا لف آزاد جمہوریت کے حامی ممالک میں اس کو اسی وجہ سے کیمونسٹ آمریت اور اس کا جبر قرار دیا جاتا تھا۔ سابق سویت یونین کو اِن ملکوں میں جارحیت کا مرتکب جا نا جاتا تھا۔ دوسری جانب سویت یونین جو ایک نظریاتی ملک تھا یہاں کیمونزم کے نظریات کے تحت اقتصادی اور سیاسی نظام کامیاب ہو اتھا اور سویت یونین کے عوام کو نہ صر ف زندگی کی تمام بنیادی ضرویات اور سہو لتیں بغیر طبقاتی فرق کے ہر ایک کو برابری کی بنیاد پر میسر تھیں اور ساتھ ہی روسی اشتراکی پروپیگنڈ ہ اور خصوصاً ادب ایسا معیاری اور لاجواب تھا کہ پسماند ہ اور ترقی پزیر ممالک کے عوام کو روسی جارحیت بھی کچھ زیادہ بری نہیں لگتی تھی۔

ہنگری میں1945 روسی فوجیں داخل ہو ئیں تو اشتراکی نظریات کی حامل ہنگرین لیڈرشپ برسر اقتدار آ گئی۔ اقتدار Matyas Rokosi ماٹئیس روکوسی کو ملا اور اس کے باوجود کہ عوام کی ایک بڑی تعداد روس نواز اشتراکیت کے خلاف تھی، انقلاب کے نام پر جبر کے ساتھ اسٹالن ازم کے تحت سیاسی اصلاحا ت نافذالعمل ہو ئیں جس میں اشتراکی نظام کے مخالف دانشوروں،اور سیاسی ورکروں کو لاکھوں کی تعداد میںقتل کیا گیا۔ پھر 1953 میں سویت یونین کے لیڈر جوزف اسٹالن وفات پا گئے ہو گئے جو 1925 سے سویت یونین سربراہ تھے اور اپنی سخت گیری پالیسیوں کی وجہ سے دہشت ناک تصور کئے جا تے تھے یوں ان کی وفات کے بعد نیکیٹا خروشیف برسرِاقتدار آئے تو اُس وقت سویت یونین کے انقلاب کو 36 سال ہو چکے تھے جن میں سے 28 سال تک اسٹالن برسر اقتدار رہے تھے یہ سرد جنگ کے دوران ایک اہم موڑ تھا کہ اسٹالن کی شخصیت روسی اشتراکی انقلاب کے اعتبار سے بہت اہم تھی۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت اشتراکیت کے مخالف تمام ممالک توقع کرتے تھے کہ اسٹالن کے بعد سوویت یونین میں قیادت کا بحران پیدا ہو جائے گا۔ اور اس تبدیلی کے کیسے اثرات سووتت یونین کے زیرِ اثر مرکزی اور مشرقی یورپی ملکوں پر مرتب ہو نگے۔ ہنگری سوویت یونین کی نئی لیڈر شپ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس تھا۔

اب ایمسی نیگے اقتدار میں آئے اور جبر کا سلسلہ جاری رہا۔ ہنگری 1955 میں سویت یونین اور خصوصاً مرکزی اور مشرقی یورپ اور دیگر اشتراکی ملکوں کے ساتھ وارسا پیکٹ میں منسلک ہو گیا۔ اس کے بعد 1956 ہنگری کے عوام نے نیگے ہی کی قیادت میں سویت یونین کی بالا دستی کے خلاف احتجاج کیا۔ جس کو سویت یونین نے بھر پور فوجی قوت سے دبا دیااور 23 اکتوبر1956 کوجب ہنگامے بہت بڑھ گئے تو سویت یونین نے4 نومبرکو 3000 ٹینکوں کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ روسی فوج ہنگری میں داخل کر دی۔ 20000 سے زیاد ہ ہنگرین کو ہلاک کر دیا گیا بہت سے روسی فوجی بھی ہلاک ہوئے واضح رہے کہ ہنگری میں اشتراکی حکومت کے قیام کے بعد چھ لاکھ سے زیادہ ہنگر ین کو سویت یونین میں بیگار کیمپوں میں قید کیا گیا تھا، لاکھوں افراد ہلاک کئے گئے تھے۔

یوں ہنگری سویت یونین کے لیے اشتراکیت کے اعتبار سے ایک چیلنج تھا اور اگر یہاں سویت یونین ناکام ہو جا تا تو پھر شاید اُسے مرحلہ وار ہر اُس ملک سے نکلنا پڑتا جہاں اشتراکی انقلاب برپا کیا گیا تھا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر غیر اشتراکی ملکوں کی لیڈر شپ کا خیال تھا کہ خروشیف کا رویہ اسٹالن سے مختلف ہو گا مگر خروشیف نے اسے غلط ثابت کر دیا اس پر عالمی دباؤ ڈالنے کے لیے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے اجلاس نمبر 754 کے تحت سویت یونین کی جارحیت کے خلاف قرارداد نمبر 120 پیش کی گئی اس کے حق میں سوائے سویت یونین کے تمام ووٹ آئے اور سویت یونین نے اس قرارداد کو ویٹوکردیا اور اس کے دوسال بعد نو مبر1958 ہنگری کے لیڈر نیگے کو بغاوت کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی یہ حقیقت ہے کہ کئی دیگر ملکوں کی طرح ہنگری کے عوام کی اکثریت کیمونزم کے خلاف تھی اور مرکزی یورپ میں اس کے خلاف یہ بہت ہی زبردست مزاحمت تھی اور پھر جب سویت یونین ہی میں کیمونزم کا خاتمہ ہو ا تو یہاںاُسی خونی احتجاج کی تاریخ یعنی 23 اکتوبرکو سال 1989میں اس نظام اور سویت یونین سے آزادی ملی۔

آج ہنگری مرکزی یورپ کا ایک خوشحال ملک ہے یہاں قدرت نے اس ملک کو بہت خوبصورت اور وسائل بخشے ہیں یہاں یورپ کا سب سے وسیع گھاس کا میدان،، گراس لینڈ ہے ،،یہاں دنیا کی دوسری بڑی گرم پانی کی جھیل ہے اور اسی طرح یہاں کی غاریں بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں یہ ملک سیاحوں کی جنت کا درجہ رکھتا ہے او ر سالانہ یہاں پونے دو کروڑ کے قریب سیاح آتے ہیں۔ اب 9772756 آبادی اور رقبہ 93032 مربع کلو میٹر کے ملک کا سالانہ جی ڈی پی 350.000 ارب ڈالر ہے اور فی کس سالانہ آمدنی 35941 ڈالر ہے ہنگری 2004 سے یورپی یونین کا رکن ہونے کے علاوہ ورلڈ بنک، نیٹو ، ڈبلو ٹی او،آئی آئی بی، اور اے آئی آئی بی کا بھی ممبر ہے یہ ایک خوشحال ترقی یافتہ اور پُر امن ملک ہے لیکن یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا اگر افغانستان میں1979-80 میں سویت یونین کی جاریت کے سامنے افغان بھی ہنگرین کی طرح ناکام ہو جاتے تو آج کیا صور ت ہو تی ؟مسئلہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے33 سال بعد اگر ہنگری سمیت دیگر ممالک آزاد ہوئے تویہ سب افغانستان کے عوام کی سابق سویت یونین کی طیاروں، گن شپ ہیلی کاپٹروں ،میزائیلوں ،ٹینکوں سے لیس لاکھوں فوجیوں سے وہ مسلسل جنگ تھی ،اور اسی جنگ نے سویت یونین کو شکست دی تاریخ گواہ ہے کہ افغانیوں کی قر بانیاں ہنگری کے عوام کی قربانیاں سے کئی گنا زیادہ تھیں۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔