کورونا وائرس، چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو بحرانی کیفیت کا سامنا

بزنس رپورٹر  بدھ 8 اپريل 2020
بڑے برآمد کنندگان پر توجہ دینے کا خدشہ حقیقت کے برعکس ہے، رزاق داؤد نے چھوٹے ایکسپورٹرز کے خدشات کو غلط قرار دیدیا
فوٹو: فائل

بڑے برآمد کنندگان پر توجہ دینے کا خدشہ حقیقت کے برعکس ہے، رزاق داؤد نے چھوٹے ایکسپورٹرز کے خدشات کو غلط قرار دیدیا فوٹو: فائل

کراچی:  کورونا وائرس کے باعث پاکستان کی چھوٹی اور درمیانے درجہ کی صنعتوں کو بحرانی کیفیت کا سامنا ہے، ٹیکسٹائل سیکٹر کی چھوٹی اور درمیانے درجہ کی صنعتوں کو برآمدی آرڈرز موخر ہونے اور سیلز ٹیکس ریفنڈز کی عدم ادائیگی کی وجہ سے دہری مشکلات درپیش ہیں۔

سیلز ٹیکس ری فنڈز کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ٹیکسٹائل ایس ایم ایز کی بھاری رقوم پھنس کر رہ گئی ہیں جن کی وجہ سے ان کے لیے اپنے ورکرز کو تنخواہوں کی ادائیگی مشکل ہورہی ہے، ٹیکسٹائل سیکٹر کی چھوٹی فرمز اس صورتحال میں زیادہ متاثر ہورہی ہیں جن کے برآمدی آرڈرز یا تو ملتوی یا موخر کردیے گئے اور آئندہ2سے3ماہ تک کسی قسم کی آمدن نہ ہونے کا خدشہ ہے اس دوران انھیں اپنے وررکز کی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں، ڈینم کے ایک انٹرپرنیور نے ایکسپریس کو بتایا کہ کورونا سے پیدا ہونے والی معاشی صورتحال میں چھوٹی اور درمیانے درجہ کی کمپنیوں کے لیے وجود برقرار رکھنا دشوار ہوگیاہے۔

درجنوں کمپنیاں بند اور ہزاروں ورکرز بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے، ا ن کمپنیوں کا سرمایہ حکومت کے پاس سیلز ٹیکس ریفنڈز کی شکل میں پھنسا ہوا ہے، برآمدات رک چکی ہیں ایسے میں ورکرز کی اجرت کہاں سے دیں، اگر ٹیکسٹائل ایس ایم ایز کو ری فنڈز نہ ملے تو بہت سے چھوٹے ایکسپورٹرز دیوالیہ ہوجائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کا سیلز ٹیکس ریفنڈ ادا کرنے کا سسٹم صرف بڑے ایکسپورٹرز کے لیے فعال ہے، چھوٹے ایکسپورٹرز اور کمپنیوں کے لیے ری فنڈز کا حصول مشکل ہے، جب سے برآمدی صنعتوں کو حاصل زیرو فیصد سیلز ٹیکس کی سہولت ختم ہوئی ہے چھوٹی صنعتوں کے لیے کام جاری رکھنا دشوار ہوچکا ہے، ٹیکسٹائل ایس ایم ایز کے لیے حکومتی سپورٹ اور ری فنڈز کی ادائیگی کے بغیر بحران سے نمٹنا مشکل ہے، چھوٹی اور درمیانے درجہ کی ٹیکسٹائل کمپنیوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کیلیے سیلز ٹیکس کی چھوٹ نظام بحال کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔