لاک ڈاؤن مجبوری، روزگار ضروری

ایڈیٹوریل  جمعرات 9 اپريل 2020
عالمی میڈیا کے مطابق کورونا سے سوا ارب افراد کا روزگار ڈوبنے کا خدشہ ہے۔ فوٹو: فائل

عالمی میڈیا کے مطابق کورونا سے سوا ارب افراد کا روزگار ڈوبنے کا خدشہ ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا بھر میں کورونا وائرس کے باعث متاثرہ افراد کی تعداد13 لاکھ 65 ہزار 327 سے زائد ہو گئی ہے جب کہ ہلاکتیں 77ہزار ہوگئیں۔ اب تک صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد 2 لاکھ 93ہزار 910 سے بڑھ گئی ہے۔ اٹلی میں بھی کورونا وائرس کے باعث ہلاکتوں اور نئے کیسز کی شرح میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

امریکا میں مسلسل چھٹے روز مزید ایک ہزار سے زائد اموات کے بعد ہلاکتیں11ہزار سے زائد ہو گئی ہیں۔ امریکا میں متاثرہ افراد کی تعداد 4 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے۔ ملک بھر میں کورونا متاثرین کی تعداد4036  اور اموات 57 ریکارڈ ہوئیں۔

امریکا سمیت مغربی ملکوں میں لاک ڈاؤن میں سختی کی جو اطلاعات آرہی ہیں ان سے ماہرین، سائنسدان اور ڈاکٹروں کی طرف سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ کورونا وائرس سے دنیا کی جان جلد چھوٹنے والی نہیں۔ بی بی سی نے مستقبل کے تناظر میں موسم و ماحولیات سے کورونا کی حساسیت کی شدت اور شرح پر بھی الگ الگ ریسرچ جاری رکھی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ملک کے اکیڈیمک اداروں کی تحقیق کس سمت میں جارہی ہے، جن ماہرین، طلبہ یا علمی اور سائنسی اداروں نے ایجادات کیں، کسی ویکسین، دوا یا سائنسی آلات کی تیاری میں کوئی پیش رفت کی اس کا حکومت کی طرف سے کیا رسپانس آیا۔

کورونا اور لاک ڈاؤن کے درمیان سماجی، گھریلو، قومی، معاشی اور نفسیاتی و اقتصادی مسائل کے حل کے لیے حکومت کے پاس کون سا ماسٹر پلان ہے اور کورونا وائرس سے محصور عوام کے معاشی مسائل ان کی ریلیف اور امداد کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مجموعی کارکردگی پر کب درست اعداد وشمار جاری ہوئے، ان پر کیا بحث ہوئی، یا اپوزیشن جماعتوں نے کورونا سے پیدا شدہ چیلنجز پر کوئی مربوط، متفقہ، قابل اعتبار کوئی وائٹ پیپر جاری کیا جس سے معلوم ہو کہ ملک میں کورونا سے متاثرین کو ملنے والی امداد، علاج کی سہولتیں اور روزمرہ حالات سے نمٹنے میں قومی ادارے کتنے فعال ہیں اور عدالت عظمی کے چیف جسٹس کی ہدایت پر سرکاری اسپتال، کلینکس اور ڈسپنسریز کھل گئیں اور کیا ان میں کورونا سمیت دیگر بیماریوں کے علاج کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہوا، حکومت کے ذمے دار اور مختلف ٹاسک فورسز ان اہداف تک پہنچے جن تک رسائی کورونا وائرس کے سدباب کے لیے ناگزیر ہے؟

ایسے سیکڑوں سوالات ہیں جن کے عوام جواب چاہتے ہیں، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ارباب اختیار کی ساری کارروائی دیومالائی mythical ہے، حکومت کی اصل میں توجہ بٹ گئی ہے، اسے چینی اور آٹا سکینڈل رپورٹ کا 25 اپریل تک انتظار رہے گا، دوسری طرف صوبائی حکومتیں کورونا کی روک تھام کے لیے اقدامات میں مصروف نظر آتی ہیں۔

گزشتہ روز کوئٹہ میں ینگ ڈاکٹروں اور صوبائی وزرا میں مذاکرات کامیاب رہے، قبل ازیں ڈاکٹروں نے ضروری سامان کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج کیا، پولیس نے ان پر شدید تشدد کیا، لاٹھی چارج ہوا۔ شکر ہے صورتحال نارمل ہوئی، فوجی ترجمان کے مطابق بلوچستان کے میڈیکل اسٹاف کے لیے ضروری سامان بجھوادیا گیا، ایمرجنسی سپلائی میں پرسنل پروٹیکٹیو آلات اور دیگر طبی سامان بھی شامل ہے۔

سندھ حکومت نے مختلف طبقات کو ریلیف دینے کے لیے آرڈیننس کی تیاری شروع کردی ہے، مشیر قانون کو فوری طور پر ڈرافٹ تیار کرنے کا حکم دیدیا ہے، احساس کے ایمرجنسی کیش پروگرام کے لیے رقوم کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے نجی اسپتالوں کے مالکان اور ڈاکٹروں نے ملاقات کی اور ان سے لاک ڈاؤن میں توسیع کی اپیل کی، سندھ میں وبا کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا، کورونا کے جائزہ اجلاس میں وزیر اعلیٰ نے سڑکوں اور دکانوں میں رش پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔

ایک اطلاع کے مطابق چین سے آئے ایک وفد نے بھی لاک ڈاؤن کا دورانیہ بڑھانے کا مشورہ دیا، وفد نے سندھ میں کورونا کے ٹیسٹ کی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا، وزیر صحت سے ملاقات میں ڈاکٹروں اور ہیلتھ پروفیشنلز کو تربیت فراہم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

پنجاب میں بھی لاک ڈاؤن میں سختی کا عندیہ دیا گیا ہے۔ گیلپ سروے میں بتایا گیا کہ کورونا کے حوالے سے 78 فیصد پاکستانی حکومتی اقدامات سے مطمئن، جب کہ 75 فیصد پاکستانی جون تک صورتحال معمول پر آنے کے لیے پرامید ہیں، بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر عوام کی ایک بڑی تعداد حکومتی اقدامات سے مطمئن ہے تو مسلسل لاک ڈاؤن سے کراچی کے چھوٹے تاجروں کے صبر کا پیمانہ کیوں لبریز ہوگیا جنھوں نے 15اپریل سے کاروبار کھولنے کا اعلان کیا ہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق کورونا سے سوا ارب افراد کا روزگار ڈوبنے کا خدشہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کی ضرورت سے عوام کو انکار نہیں، سب کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہم سب کی اجتماعی ذمے داری ہے لیکن لاک ڈاؤن مسئلہ کا حل نہیں بلکہ اقتصادی اور معاشی چیلنجز سے چشم پوشی بھی بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے، ملک کے فہمیدہ عناصر یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کو محض لاک ڈاؤن کرنے سے کورونا کا جن بوتل میں بند نہیں ہوسکے گا، جن کو لاک ڈاؤن کرنے کا شاہی فرمان جاری کیا جاتا ہے ملک کا قانون اور آئین ہر شہری کو زندہ رہنے کا حق دیتا ہے۔

حکومت لاک ڈاؤن ضرور کرے لیکن خلق خدا کو اور دیہاڑی دار، ملازمت پیشہ افراد اور غریبوں کے جم غفیر کو دو وقت کی روٹی بھی مہیا کرے، انھیں ریلیف، راشن اور زندہ رہنے کی سہولت دیے بغیر لاک ڈاؤن کرنا غیر انسانی اور غیر جمہوری فعل ہے، انسان کو کسی کنسنٹریشن کیمپ میں رکھنا، قید کرنا اور محصور کردینے سے کورونا کے خاتمے کی اخلاقی مہم اور قومی مشن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ذرایع ابلاغ کے مطابق چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو بحرانی کیفیت کا سامنا ہے، عام آدمی شدید مالی بحران کا شکار ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، روزگار کے ذرایع مسدود ہیں، اس لیے عوام کو ریلیف دینے کا بھی کوئی آسان راستہ کھلنا چاہیے، ورنہ عوام شدید ڈپریشن کا شکار ہونگے، اقوام متحدہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کورونا کے باعث گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کا رجحان سر اٹھا رہا ہے۔

واضح رہے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سمیت نو شہروں میں چوبیس گھنٹے کے کرفیو کے اعلان پر عملدرآمد شروع ہوگیا ہے۔ چین میں پہلی بار کورونا سے کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی، چینی شہر ووہان جہاں سے وبا پھوٹی تھی وہاں حالات قابو میں آنے پر آج 100مسافر ٹرینوں کا آپریشن بحال کیا جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق کورونا ریسورس جنھوں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ امریکا میں کورونا کے متاثرین کی تعداد 369522 سے تجاوز کر گئی ہے۔ مزید1255اموات کے بعد 11013 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اٹلی میں وبا سے16523 ہلاکتیں ہوئی ہیں681 اور متاثرین کے بعد تعداد 132547 ہو گئی ہے۔

اسپین متاثرین کی تعداد میں دنیا بھر میں امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ یہاں ہلاکتوں کی تعداد 13 ہزار 798 ہے تو متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 40 ہزار 510 ہے۔ وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے اعلان کیا ہے کہ ملک گیر لاک ڈاؤن پر عمل درآمد میں 26 اپریل تک توسیع کر دی گئی ہے۔ سعودی وزارت صحت نے کورونا پورٹل میں تازہ اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں کورونا کے مزید 147 کیسوں کی تصدیق ہوئی ہے۔ نئے کیسوں کے بعد مریضوں کی کل تعداد بڑھ کر 2752 ہوگئی ہے۔

سلطنت عمان میں 40 نئے مریضوں کی تصدیق ہوئی ہے جب کہ دو مریض ہلاک ہوگئے ہیں۔ مصر میں مزید7 مریض ہلاک ہوگئے۔ 149 نئے کیسز سے تعداد 1322 ہوگئی۔ دوسری جانب جونز ہاپکنز یونیورسٹی کے مرکز برائے سسٹمز سائنس اینڈ انجینئرنگ کی جانب سے گذشتہ روز متاثرہ ملکوں کے حوالے سے جاری کیے گئے اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں مریضوں کی تعداد13لاکھ 47 ہزار892 اور اموات کی تعداد 74807ہوگئی ہے۔

امریکا میں متاثرین کی تعداد 3 لاکھ 68 ہزار241، اسپین میں1لاکھ 36ہزار675، اٹلی میں 1لاکھ 32 ہزار547  اور جرمنی میں1لاکھ 3 ہزار375  ہو گئی ہے۔ فرانس میں مزید833، اسپین میں630 اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔ برطانیہ میں اموات 5373 سے تجاوز کرگئی ہیں۔ بھارت میں 136افراد ہلاک ہوگئے ہیں جب کہ متاثرین کی تعداد ساڑھے چار ہزار سے زائد ہے۔ اب تک2 لاکھ84 ہزار886 صحت یاب ہوئے ہیں۔

آسٹریلیا کی ریاست جنوبی آسٹریلیا میں کووڈ 19سے ہونے والی پہلی ہلاکت ریکارڈ کی گئی ہے۔ افغانستان میں 56  نئے کیسز سے مریضوں کی مجموعی تعداد423  ہوگئی ہے۔ نیوزی لینڈ میں 32  نئے کیسز رپورٹ ہوئے جس سے تصدیق شدہ اور مشتبہ مریضوں کی تعداد1ہزار 160ہوگئی۔ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر کیوی وزیر صحت ڈیوڈ کلارک کی تنزلی کر دی گئی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ کورونا سے لڑنے کی کثیر جہتی اسٹرٹیجی میں تبدیلی وقت کا تقاضہ ہے، عوام کے معاشی مسائل حل نہیں ہونگے تو کورونا اپنے ساتھ کئی دردناک داخلی چیلنجز کی سوغات لاسکتا ہے، حکومت آخر کتنے محاذوں پر لڑے گی، ارباب بست وکشاد کو عوام کے معاشی مسائل لازماً حل کرنا ہونگے۔ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔