تاریخ کی بدترین وبا 

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 9 اپريل 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ساری دنیا انسانی تاریخ کی ایک بدترین وبا کی زد میں ہے ایک ایک دن میں سیکڑوں نہیں ہزاروں انسان انتہائی بے بسی سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں ہر طرف ایک دہشت کی کیفیت ہے۔ دنیا کی سپرپاور امریکا کورونا کا مرکز بن گیا ہے ہزاروں انسان جان سے جا چکے ہیں اور ہزاروں اس وبا میں مبتلا ہیں۔

ساری دنیا میں خوف و دہشت کا عالم ہے ہر شخص ایک دوسرے کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے حکومت اپنی مقدور بھر کوشش کر رہی ہے اس مرض کی وجہ سے ویسے تو سارے لوگ پریشان ہیں لیکن روزانہ دہاڑی پر کام کرنے والوں کا حال اتنا برا ہے کہ ان کی بھیگی آنکھیں دیکھی نہیں جاسکتیں۔

یہ ایک متعدی مرض ہے جو ایک سے دوسرے کو لگتا ہے حکومت نے عوام کو اس خطرناک بیماری سے بچانے کے لیے لاک ڈاؤن کر دیا ہے ہر طرف ایک ڈر اور خوف کی فضا قائم ہے دکانوں، مارکیٹوں سمیت پوری زندگی کا پہیہ جام ہے اس حوالے سے عام غریب مزدوروں کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ وہ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن ختم کیا جائے تاکہ وہ کام کرکے اپنے بچوں کو بھوکا مرنے سے بچا سکیں لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں اور دہاڑی دار مزدور اپنے اڈوں پر بیٹھے کام کا انتظار کر رہے ہیں اسے ہم انسان کا کتنا بڑا المیہ کہیں کہ لوگ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے گھروں میں بند ہیں اور مزدور کام حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں کہ اپنے بھوکے بچوں کے لیے روٹی کا انتظام کرسکیں۔

کراچی ڈھائی کروڑ انسانوں کا ایک سمندر ہے اس سمندر میں کسی کی کسی کو خبر نہیں۔ عمران خان عوام خصوصاً ڈیلی ویجز مزدوروں کے روزگار کے لیے بے قرار ہیں وہ جلد سے جلد لاک ڈاؤن ختم کرکے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کنسٹرکشن انڈسٹری کو کھولنے کے ساتھ ساتھ وہ انڈسٹری کو متعدد رعایتیں دینے کے اعلان کر رہے ہیں۔ یہ غریب انسان کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ مزدور موت کے منہ میں جانے کے لیے بے قرار ہے۔

ہماری اشرافیہ جسے ہر طرح کی سہولت حاصل ہے اسے کورونا کا کوئی خوف نہیں کیونکہ وہ ان ساری پابندیوں کو برداشت کرسکتی ہے جو کورونا سے بچنے کے لیے ضروری ہیں۔ ان کے بینک اکاؤنٹس کروڑوں روپوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ انھیں نہ کھانے پینے کی فکر ہے نہ گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ غریب مزدور اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے موت کے منہ میں جانے کے لیے بے قرار ہے۔ اگر وہ مزدوری نہیں کرتا تو اس کا خاندان بھوک کا شکار ہو جاتا ہے اور اگر وہ مزدوری کرتا ہے تو موت کے منہ میں جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا یہ کس قدر شرمناک جبر ہے کہ انسان اپنی مرضی سے موت کے منہ میں جانے کے لیے بے قرار ہے۔

یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ دنیا موت حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے اور ہماری اشرافیہ حکومت پر الزامات لگا کر اسے یکسوئی سے عوام کے تحفظ اور اس کے روزگار کا بندوبست کرنے کی راہ میں حائل ہو رہی ہے۔ کچھ بے بس مزدوروں کو روڈ پر لاکر حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے جب کہ یہ وقت ایسا ہے کہ موت عوام کے سر پر کھڑی ہے اور اپوزیشن کو سیاست کی پڑی ہے۔ عمران خان صبح سے شام تک عام آدمی کی بھلائی کے لیے کوشاں ہیں۔

میرے اس کالم کا عنوان ’’میں موت سے بہت خوفزدہ ہوں‘‘ ہے جب کہ میں زندگی اور موت کی حقیقت سے آشنا ہوں۔ میرے موت سے خوفزدہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ میرے دو جوان بیٹے بے روزگار ہیں گھر کا سارا بوجھ جب ایک ریٹائرڈ شخص کے سر پر آجاتا ہے تو وہ خوف اور مجبوریوں سے دیوار حیرت بن کر رہ جاتا ہے نہ جانے ہم جیسے اور کتنے لوگ ہوں گے جو ہم جیسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ملازمت حاصل کرنا اور بچوں کو باروزگار بنانا اور دولت کمانا کوئی مشکل کام نہیں، بس ذرا ضمیر کی لاش سے گزرنا پڑتا ہے۔ میرے بچے تعلیم یافتہ اور ہنرمند ہیں انھیں روزگار حاصل کرنے کا حق ہے لیکن اس میدان حشر میں کسی کو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے ایک دوسرے کی مشکلات جاننے کی نہ ضرورت ہے نہ حوصلہ ہے۔

پنجاب میں کورونا سے متاثرین کی تعداد 2693 اور موت کا شکار ہونے والوں کی تعداد 40 ہے عام اندازہ ہے کہ یہ بلا ایک ماہ کے اندر اندر اس قدر پھیل سکتی ہے کہ انسان کا زندہ رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔  سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا میں 87 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے بدقسمتی یہ ہے کہ اس بلا کا علاج اب تک دریافت نہیں ہو سکا۔

دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ناقابل یقین ترقی کر رہی ہے انسان چاند پر ہو آیا ہے ایسی ترقی یافتہ دنیا میں رہنا اور دنیا بھر کے ماہر ڈاکٹر کورونا کا علاج دریافت نہیں کرسکے۔ اسے ہم انسان کی بدقسمتی کہیں یا متعلقہ شعبے کی لاپرواہی بات کچھ بھی ہو کرہ ارض کا انسان آج اس قدر بے بس ہوکر رہ گیا ہے کہ شاید اسے اتنی بے بسی کا پہلے کبھی سامنا نہ ہوا ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔