کورونامہ

 راؤ محمد شاہد اقبال  اتوار 12 اپريل 2020
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

(’’کورونا ۔۔۔نامہ‘‘ سے بنائی گئی ترکیب ’’کورونامہ‘‘ کے عنوان کے تحت ہم یہ نیا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ کورونامہ میں کورونا کی وبا سے متعلق مختلف نوعیت کی مختصر اسٹوریز شایع کی جائیں گے)

 کورونا وائر س پاکستان میں دَم توڑ رہا ہے؟

پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ پہلا مریض 26 فروری کو سامنے آیا تھا، جب کہ چین میں اِس وائرس نے ماہ جنوری کے ابتدائی ہفتے میں ہی خوف ودہشت کی الم ناک فضاء قائم کردی تھی ۔ اس کے علاوہ پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی، تعلیمی، صنعتی میدان میں جس طرح کے مضبوط تعلقات استوار ہیں۔ اِن سب کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تجزیہ کیا جائے تو یہ حوصلہ افزاء راز منکشف ہوتا ہے کہ کورونا وائرس پاکستان کے لیے اتنا خطرناک ثابت نہیں ہورہا ہے جتنا کہ دیگر ممالک مثلاً چین، برطانیہ، امریکا، ایران، فرانس یا دنیا کے دیگر حصوں کے لوگوں کے لیے اَب تک ثابت ہوا ہے، جب کہ پاکستان میں کووڈ 19 کی بیماری سے ہونے والی شرح اموات بھی بے حد کم ہے۔

اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی اصل تعداد بیان کی گئی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے تب بھی حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ایک ماہ گزرنے کو آیا ہے اور 90 فی صد سے زائد افراد میں کورونا وائرس کی ہلکی سے ہلکی علامات بھی ظاہر نہیں ہوسکی ہیں۔ اِس سے متعلق بعض ماہرین طب کا تو یہ بھی تبصرہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کورونا وائرس کا خاموشی کے ساتھ شکار ہوکر صحت یاب بھی ہوگئی ہو اور اُسے اِس بات کا علم بھی نہ ہو۔ چین کے ساتھ ہمارے انفرادی واجتماعی تعلقات، ایران کے ساتھ ہمارے مذہبی روابط اور ملک میں ناقص ترین طبی سہولیات کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے اَب دنیا بھر کی ماہرین بھی حیران ہورہے ہیں کہ آخر کس طرح پاکستان میں اَب تک کورونا وائرس کا مہلک وار کارگر ثابت نہیں ہوپا رہا ہے۔ اِس حوالے سے دنیا بھر میں مختلف قسم کی تحقیقی سرگرمیاں بھی ہونا شروع ہوگئیں ہیں۔

اَب تک منظرِعام پر آنے والی مختلف تحقیقاتی رپورٹوں کے مطالعے کے بعد تین قسم کی وجوہات سامنے آئی ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان میں کورونا وائرس کھل کر اپنا کھیل نہیں کھیل پارہا ہے۔ پہلی وجہ وائرس میں ہونے والی جنیاتی تبدیلی ہے۔ اِس حوالے سے ہائرایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمان نے حال میں ہی بتایا ہے کہ ’’ہم نے پاکستان میں حملہ آور ہونے والے کورونا وائرس کی ساخت کا پتا لگالیا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی مریضوں میں پائے جانے والے وائرس کے کروموسومز چین کے شہر ووہان میں پائے جانے والے وائرس سے 9 حوالوں سے مختلف ہیں، جب کہ پاکستان میں حملہ آور کورونا وائرس کے کروموسومز کی شدت چینی وائرس میں موجود کروموسومز جتنی خطرناک بھی نہیں ہے۔‘‘

پاکستان میں حملہ آور کورونا وائرس کی کم زوری کو عیاں کرنے والی دوسری وجہ medRxiv نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق ہے، جس کے مطابق پاکستان میں پیدائش کے وقت شیرخوار بچوں کی دی جانے والیBacillus Calmette Guerin(BCG) ویکسین ہے، جس کے ابتدائی تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ ایسے تمام ممالک جہاں یہ ویکسین شہریوں کے لیے لازمی قرار دی گئی ہے وہاں کووڈ 19 وائرس سے متاثرہ افراد اور اس کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح ناقابلِ یقین حد تک کم ہے۔ اگرچہ یہ صرف ایک تحقیقاتی مطالعہ ہے، اس کے باوجود دنیا کے کم از کم 6 ممالک میں ماہرین طب تجربات کے دوران یہ ویکسین طبی مراکز پر کام کرنے والے عملے اور بوڑھے افراد کو باقاعدگی سے کورونا وائرس کے خلاف بطور دوا دے رہے ہیں، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا واقعی اس ویکسین کی وجہ سے کورونا وائرس کا مرض جان لیوا نہیں رہتا۔

دوسری جانب نیویارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں بھی اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ بی سی جی ویکسین کی وجہ سے نہ صرف ٹیوبرکلوسز (ٹی بی) بلکہ دیگر مختلف اقسام کے وبائی امراض سے بچاؤ کے ثبوت ملے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محققین کی ٹیم نے ان تمام اعداد و شمار پر ازسرِنو غور کرنا شروع کردیا ہے۔ رپورٹ میںیہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایسے تمام ممالک جو زیادہ آمدنی والے ہیں اور جہاں بی سی جی ویکسین نہیں دی جاتی ان میں امریکا، اٹلی، اسپین، فرانس، ایران، برطانیہ، چین اور جرمنی ایسے ممالک ہیں جہاں کئی برس قبل بی سی جی ویکسین دیے جانے کی پالیسی ختم کردی گئی ہے۔

لہٰذا اِن تمام ممالک میں کورونا وائرس کے جان لیوا حملوں کی شدت صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کی پسپائی کی تیسری وجہ ہمارے ملک کے درجۂ حرارت یا گرم موسم کو قرار دیا جارہا ہے، کیوںکہ حال ہی میں چین میں ہونے والے ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گرم اور مرطوب موسم کورونا وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی بنیادی صلاحیت کو متاثر کرسکتا ہے۔ بیجنگ سے تعلق رکھنے والے ایک سائنس داں نے اپنی طبی تحقیق میں عندیہ دیا گیا ہے کہ درجۂ حرارت میں ہر ایک ڈگری اضافہ اور نمی کی شرح بڑھنے سے کورونا وائرس کے مرض کووڈ 19 کی پھیلنے کی طاقت میں کمی آئے گی۔ محققین کا کہنا ہے کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ شمالی نصف کرے میں موسم گرما اور برسات کی آمد کووڈ 19 کے پھیلنے ے عمل کو موثر حد تک کم کرسکتے ہیں۔

نئے کورونا وائرس جیسے وبائی امراض کے پھیلنے یا متعدی ہونے کی طاقت کے لیے ماہرین کی جانب سے ایک اصطلاح آر0 یا ناٹ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ آر ناٹ نامی اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ کسی وبا کے عروج کے دوران ایک مریض مزید کتنے افراد کو بیمار کرسکتا ہے اور اس سائنسی پیمانے کی مدد سے پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ یہ وبا مستقبل میں کس حد تک تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ عام فلو یا زکام کے لیے آرناٹ 1.3 ہے جب کہ نئے کورونا وائرس کا ایک مریض اوسطاً 2 سے 2.5 افراد کو متاثر کرسکتا ہے۔ تاہم یہ قدر فکس نہیں ہوتی بلکہ مختلف عناصر جیسے لوگ ایک دوسرے کے کتنے قریب رہے ہیں اور موسم کیسا ہے، سے بدلتی رہتی ہے۔

اس نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ درجہ حرارت میں ہر ایک سینٹی گریڈ اضافے اور ہوا میں نمی کی سطح میں ایک فی صد اضافہ کورونا وائرس کی آر ناٹ ویلیو کو بالترتیب 0.04 سے لے کر 0.02 تک گرا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ابھی وائرس کی آر او ویلیو 2 ہے تو درجہ حرارت میں 7 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے سے یہ گر کر 1.6 تک پہنچ جائے گا یعنی 20 فی صد کمی۔ محققین نے 21 جنوری سے 23 جنوری کے دوران سو چینی شہروں میں 40 سے زائد کیسز کے ڈیٹا پر وائرس کے آر او ویلیو کا تخمینہ لگایا اور جائزہ لیا کہ مختلف موسم میں وائرس کے پھیلنے کی رفتار پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے محققین کو معلوم ہوا کہ یہ ویلیو شمالی نصف کرے میں 2.5 تھی جو کہ جنوبی نصف کرے کے متعدد مقامات کے مقابلے میں دوگنا زیادہ تھی جہاں اس وقت موسم گرم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ زیادہ درجۂ حرارت اور ہوا میں زیادہ نمی سے کووڈ19 کے پھیلنے کی رفتار میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔

اس سے قبل یکم مارچ کو جریدے جرنل آف ہاسپٹل انفیکشن میں شائع ایک تحقیق میں مختلف کورونا وائرسز کی مختلف اشیا کی سطح پر زندگی کے دورانیے کا جائزہ لیا گیا اور انکشاف ہوا کہ درجۂ حرارت میں اضافے سے اسٹیل کی سطح پر سارز وائرس کی زندگی کا دورانیہ کم از کم 50 فی صد تک کم ہوگیا۔ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ بیشر کورونا خاندان کے وائرسز میں ایک چربی کی تہہ وائرس کو ہوا میں ایک سے دوسرے فرد تک کے سفر کے دوران تحفظ فراہم کرتی ہے، مگر گرم درجہ حرارت میں وہ تہہ جلد خشک ہوجاتی ہے، جس سے وائرس کی وسیع تر پھیلاؤ کی اثرانگیزی بہت جلد ختم ہوجاتی ہے۔ تحقیق کے دوران محققین نے کورونا وائرس کی وبا کا زیادہ شکار ہونے والے دیگر ممالک جیسے اٹلی، آسٹریلیا، تھائی لینڈ اور امریکا میں 8 سے 29 فروری کے دوران روزانہ کیسز کی اوسط تعداد کا جائزہ بھی لیا تھا۔

انہوں نے دریافت کیا کہ اس دورانیے کے دوران اٹلی کے ایسے مقامات جہاں درجہ حرارت 9 ڈگری سینٹی گریڈ کے آس پاس تھا، وہاں نئے کیسز کی تعداد دیگر مقامات جیسے تھائی لینڈ کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ ریکارڈ ہوئی، جہاں درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب تھا۔ ایسا ہی ہوا میں نمی کے ساتھ بھی ہوتا ہے، یعنی جتنی زیادہ نمی ہوگی، نئے کیسز کی تعداد اتنی ہی کم ہوجائے گی۔ ہوا میں زیادہ نمی کے نتیجے میں حبس بڑھتا ہے اور پسینے کا اخراج زیادہ ہونے لگتا ہے جس سے ہوا میں بخارات کی موجودگی کا امکان کم ہوجاتا ہے، جب کہ وائرس والے ذرات کے لیے ہوا میں زندہ رہنا بھی مشکل ہوتا ہے۔

حسن ِ اتفاق ملاحظہ ہو کہ ہمارے ملک میں پائی جانے والی یہ تین وجوہات کورونا وائرس کے خلاف جنگ ہمیں غیبی معاونت فراہم کررہی ہیں، لیکن اِس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم احتیاط نہ کریں اور لاک ڈاؤن کے دوران سماجی دوری کے بنیادی اُصول کو ہی یکسر نظرانداز کردیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو یقیناً اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی کو شدید ترین خطرات میں ڈالیں گے، لہٰذا دانش مندی کا تقاضا یہ ہی ہے کہ احتیاط کا دامن کسی بھی صورت نہ چھوڑیں تاکہ ہم کورونا وائر س کے وبائی عفریت کو جلد ازجلد شکست دے کر کامیاب و کامران ہوں

ذرا سونگھ کر بتائیں ناں! کیا آپ کو کورونا ہے؟

اَب تک کورونا وائرس اِس لحاظ ایک پراسرار اور خاموش وائرس ثابت ہوا تھا کہ اِس کے نتیجے میں لاحق ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی کوئی ایک ایسی منفرد اور خاص علامت کے بارے میں علم نہیں ہوسکا تھا کہ جس کے ظاہر ہوتے ہی متاثرہ مریض کو یقین ہوجائے کہ اُس کے لیے کورونا وائرس کا تشخیصی ٹیسٹ کروانا یاخود کو مکمل طور پر قرنطینہ کرلینا لازم ہو چکا ہے۔ ابھی تک کورونا وائرس کی جن بھی علامات کے بارے میں بتایا جاتا رہا وہ چند ایسی عام سی علامات ہیں جو بیشتر دوسری بیماریوں میں بھی ظاہر ہوجاتی ہیں۔ اِس لیے طبی ماہرین کو شدت کے ساتھ کورونا وائرس کی کم ازکم ایک ایسی منفرد علامت کی تلاش تھی، جسے کورونا وائرس کے مریض کے ساتھ کسی نہ کسی حد تک خاص کیا جاسکے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ آخر کار طبی ماہرین کورونا وائرس کے مریض میں بخار، کھانسی، ٹھنڈ لگنا اور سانس لینے میں دشواری جیسی علامات کے ساتھ ایک اور علامت یعنی سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت کے ختم ہونے کا بھی سراغ لگا لیا ہے۔

اس حوالے سے برطانوی محققین کا کہنا ہے کہ اگر آپ سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجائیں تو ہو سکتا ہے کہ یہ کورونا وائرس کی اہم ترین علامت ہو۔ کنگز کالج آف لندن میں ماہرین نے چار لاکھ سے زیادہ افراد پر کورونا وائرس کے ردعمل کو ایک جدید ترین ایپ کی مدد سے جانچا اور وہ لوگ جن میں کورونا وائرس کی ایک یا اس سے زیادہ علامات رپورٹ ہوئیں تھیں۔ اُن کے متعلق تمام تر علامات کو ایک ایپ کی مدد سے اکٹھا کیا گیا۔

ایپ پر مرتب کیے گئے ان چار لاکھ افراد میں سے 1,702 نے کہا کہ انھوں نے کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروایا ہے۔ ان میں سے 579 کا نتیجہ مثبت آیا تھا اور 1123 کا منفی رہا، جن افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔ ان میں سے 59 فی صد سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محروم ہو گئے تھے۔ اس تحقیق سے طبی ماہرین پر پہلی بار انکشاف ہوا کہ سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت سے محرومی بھی کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی ایک اہم علامات ہوسکتی ہے۔

اس کے علاوہ دیگر متعدد ممالک میں کی گئی طبی تحقیقات میں بھی کووڈ 19 کے مریضوں کے حاصل کیے گئے ڈیٹا کے مطالعے سے بھی اِس جانب ٹھوس اشارہ ملتا ہے کہ اُن ممالک میں بھی کورونا وائرس کے بیشتر مریضوں کوکووڈ 19 مرض کی علامات کے دوران سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب کہ بیشتر اوقات تو یہ سب سے پہلے نمودار ہونے والی علامت بھی ہوسکتی ہے۔ ماہرین کے خیال میں شواہد تو اِس طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ سونگھنے کے ساتھ ساتھ چکھنے کی حس سے محرومی بھی ایسے افراد میں بھی صاف نظر آئی جن میں کووڈ 19 کی دیگر علامات نظر نہیں آئی تھیں، مگر ٹیسٹ میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوگئی تھی۔

شاید اسی لیے محققین نے تجویز دی ہے کہ سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کو بھی کووڈ 19 کی اسکریننگ کی علامات والی فہرست کا لازمی حصہ بنایا جائے، شاید اِس طرح مسائل نظام تنفس کی دیگر علامات نمودار ہوئے بغیر ہی مریض میں کورونا وائرس کی بروقت شناخت کرلی جائے، جب کہ پروفیسر ٹم جو کہ کنگ کالج آف لندن، انگلینڈ میں ہونے والی اِس منفرد تحقیق کی سربراہی کر رہے تھے کا کہنا ہے کہ ’’ہماری جمع کی گئی معلومات کے مطابق جب وہ لوگ جن میں سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی دوسری علامات بھی شامل ہوجاتی ہیں تو ان افراد میں بظاہر کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کا تین گنا زیادہ امکان یا اندیشہ ہوتا ہے، لہٰذا ایسے لوگوں کو اس مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سات دن تک ازخود تنہائی اختیار کرلینی چاہیے، تاکہ یہ لوگ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب نہ بن سکیں۔‘‘

کورونا کے خلاف روبوٹ نرسیں بھی میدان میں آگئیں

ایک رپورٹ کے مطابق اَب تک صرف اٹلی میں 4 ہزار سے زائد ہیلتھ ورکرز کوروناوائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے دوران وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور جن میں سے 66 ڈاکٹرز اپنی جانیں بھی گنوا چکے ہیں۔ اگر ڈاکٹر ہی کورونا وائرس کا شکار ہوجائیں تو پھر مریضوں کا علاج کون کرے گا؟ یہ ایک ایسا تلخ سوال ہے جس کا جواب بالآخر اٹلی کے سائنس دانوں نے ڈھونڈہی لیا اور اٹلی کے ایک اسپتال میں ایسی نرسوں نے کام شروع کر دیا ہے جنھیں کرونا وائرس لگنے کا کوئی خوف نہیں، یہ نرسیں بلا خوف و خطر کو وِڈ19 میں مبتلا مریضوں کے علاج میں ڈاکٹرز کی مدد کر رہی ہیں۔ یعنی اَب ڈاکٹروں کو مریض کے قریب جانے کی ضرورت نہیں رہے گی، اٹلی کے علاقے لمبارڈی کے شہر وریز کے سرکولو اسپتال میں کرونا مریضوں کے علاج کے لیے مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹ نرسیں متعارف کرائی گئی ہیں۔

یہ نرسیں نہ صرف مریض کا طبی معائنہ کریں گی بلکہ اسے دوا بھی کھلائیں گی، اور اس کا پورا طبی ڈیٹا بھی محفوظ کرتی جائیں گی، اس طرح طبی عملہ بھی وائرس کی منتقلی سے محفوظ رہے گا۔ فی الحال صرف 6 ایسی روبوٹ نرسیں بنائی گئی ہیں، جو ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر کورونا کے مریضوں کی جانیں بچا رہی ہیں، اور انھیں ماسک پہننے کی بھی کوئی ضرورت نہیں، یہ نرسیں مریضوں کا انسان نرس ہی کی طرح خیال رکھ سکتی ہیں۔ یہ روبوٹ نرسیں بچوں کے قد جتنی ہیں اور ان کے چہرے ٹچ اسکرین پر مبنی ہیں جس پر مریض ڈاکٹرز کے لیے اپنا پیغام بھی ریکارڈ کروا سکتے ہیں، ان میں سے ایک روبوٹ نرس کو ٹومی کا نام دیا گیا ہے۔ اگر آپ بھی اِس ربورٹ نرس کو کووڈ 19 کے مریضوں کی تیمارداری کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تو اِس مختصر سے لنک کو وزٹ کریں ۔ https://youtu.be/BMLm_ol9N2c

پاکستان میں کورونا وائرس کا مکمل جینوم سیکونس تیار

پاکستانی سائنس دانوں نے نئے نوول کورونا وائرس کے حوالے سے اہم کام یابی حاصل کرتے ہوئے اس کا مکمل جینوم سیکونس تیار کرلیا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے جمیل الرحمٰن سینٹر فار جینوم ریسرچ (جے سی جی آر) نے ایک مقامی مریض کی مدد سے کورونا وائرس کا مکمل جینوم سیکونس تیار کیا ہے، جس کے طبی تجزیے سے انکشاف ہوا کہ پاکستان میں یہ وائرس چین کے مقابلے میں کچھ مختلف ہے۔

اس وائرس کے تجزیے کے حوالے سے تحقیقی ٹیم کے قائد ڈاکٹر اشتیاق احمد نے بتایا کہ اس کا نمونہ ایک ایسے مریض سے حاصل کیا گیا جو ایران کا سفر کرکے آیا تھا اور اسے علاج کے لیے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں داخل کیا گیا، جب کہ نمونے کا تجزیہ کراچی یونیورسٹی کے مرکز میں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’جب اس کا موازنہ چین کے شہر ووہان میں تیار ہونے والے سیکونس سے کیا تو جینوم کے مختلف حصوں میں 9 میوٹیشن (ڈی این اے میں تبدیلیاں) نظر آئیں، مگر اس کے باوجود یہ وائرس ووہان سے پھیلنے والے وائرس سے ہی جڑتا ہے، کیوںکہ پروٹین اور انزائمے میں کوئی تبدیلیاں نظر نہیں آئیں۔ ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کے جنیوم سیکونس کا تعین ایک زبردست اقدام ہے، خاص طور پر کسی وبا میں، اس طرح کی تبدیلیوں کے اندر، شرح اور فطرت کو مانیٹر کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے، کیوںکہ اس طرزِ تحقیق سے مستقبل میں ویکسین اور تھراپیز بنانے میں خاطر خواہ مدد حاصل ہوسکے گی۔

چین میں کتے اور بلی کا گوشت کھانے پر پابندی عائد

پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے کورونا وائرس کے متعلق ابتدا سے ہی کہا جارہا تھا کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اَب احتیاط کے طور پر چین کے شہر شینزن میں بلی اور کتے کا گوشت کھانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جس کا اطلاق یکم مئی سے ہوگا۔ شینزن شہر کے حکام کا کہنا ہے کہ بلی اور کتے پالتو جانور بھی ہیں جن سے انسان کو قریبی لگاؤ ہوتا ہے، ایسی صورت میں ان کا گوشت کھانا بھی مناسب نہیں ہے۔ اس کے بدلے مچھلی جھینگے کھانے کی عادت ڈالی جا سکتی ہے کیوںکہ اُن سے انسان کو کورونا وائرس کا شکار ہونے کا بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ اس اقدام پر ہیومن سوسائٹی انٹرنیشنل برائے محکمہ وائلڈ لائف کے نائب صدر کا کہنا ہے کہ شینزن دنیا کا وہ پہلا شہر ہے جس نے عالمی وبا کورونا سے سبق سیکھتے ہوئے سنجیدگی سے قدم اٹھایا ہے، مگر کورونا وائرس جیسے خطرناک وبائی وائرس سے بچنے کے لیے کچھ تبدیلیاں مزید بھی درکار ہیں اور وہ یہ کہ دیگر جنگلی حیات کو کھانے کا رجحان بھی ترک کیا جائے۔‘‘

مزے دار کورونا برگر

کورونا وائرس کے خوف کو دور کرنے کے لیے ویتنام کے ایک شیف نے صارفین کو انوکھی پیشکش کردی ہے۔ ویتنام کے دارالحکومت ہانوئی کے ایک شیف نے کورونا وائرس تھیم کے برگر کی پیشکش کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر کورونا وائرس کو شکست دینی ہے تو آپ کو یہ کھانا ہوگا۔ ہوانگ تنگ شیف کی ٹیم نے کورونا وائرس کی مائیکرواسکوپک تصویر کی طرح کا ایک مزے دار برگر تیار کیا ہے، جس کا نام ’’کورونا برگر‘‘ ہے۔ شیف کا کہنا ہے کہ ہم نے لوگوں میں کورونا کا ڈر ختم کرنے اور ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے لیے یہ برگر بنایا ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے ویتنام میں بھی تمام تر ریسٹورینٹس اور ہوٹل بند کیے جا چکے ہیں لیکن شیف ہوانگ تنگ یہ کورونا برگر ہوم ڈلیوری سروس کے ذریعے فروخت کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ ویتنام میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 148 ہے جب کہ یہاں کورونا سے ایک بھی ہلاکت سامنے نہیں آئی ہے۔

پالتو جانور بھی کورونا وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں

بلجیئم میں ایک پالتو بلی کے کورونا میں متاثر ہونے کے بعد دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ مذکورہ بلی دنیا کا وہ پہلا جانور ہے جسے کسی انسان نے بیمار کیا۔ بیلجیئم میں بلی کے بیمار پڑنے کے بعد چینی ماہرین نے تحقیق کی تو اس میں یہ بات سامنے آئی کہ بلیاں، کتے، بطخیں اور دیگر گھریلو پالتو جانور بھی کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ چین کے شہر ہاربن میں موجود جانوروں کی بیماریوں پر تحقیق کرنے والے ادارے ہاربن ویٹرنری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین کی جانب سے کم تعداد کے جانوروں پر کی جانے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ کورونا وائرس بلیوں، مرغے و مرغیوں، سور، بطخوں اور کتوں میں کورونا وائرس کی علامات پائی گئیں، تاہم ان میں مذکورہ وبا کی علامات شدید نہیں تھیں۔

ماہرین کے مطابق بلیوں کو بھی ایک دوسرے سے کورونا وائرس لگ سکتا ہے اور وہ اچھی خاصی بیمار بھی ہوسکتی ہیں، تاہم بلیوں کے مالکان کو پریشان ہونی کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ انسانوں کی طرح شدید بیمار نہیں ہوں گی، جب کہ کتوں میں بھی کورونا وائرس منتقل ہو سکتا ہے مگر وہ بلیوں کے مقابلے کم بیمار ہوسکتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ ان میں شدید علامات بھی ظاہر نہ ہوں۔ بہرحال چینی ماہرین نے جانوروں کے مالکان کو تسلی دی ہے کہ وہ اپنے پالتو جانوروں کے بیمار پڑنے پر پریشان نہ ہوں، کیوں کہ ان میں کورونا کی شدید علامات نہیں پائی جاتیں اور وہ کچھ عرصہ زیرعلاج رہنے کے بعد ٹھیک ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔