دیگر رپورٹس بھی ’’پبلک ‘‘کی جائیں !

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 10 اپريل 2020
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

کاروبار اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں، مگر پاکستان میں یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں، نہ سیاست کے بغیر کاروبار ممکن ہے اور نہ ہی کاروبار بنا سیاست۔ سیاست اور کاروبار بالکل الگ تھلگ ہونے چاہئیں،سیاستدانوں کو کاروبار اور کاروباری افراد کو سیاست نہیں کرنی چاہیے۔

پاکستان میں حکمرانوں کی طرف سے صنعتیں لگانے کی ناپسندیدہ روایت فیلڈ مارشل ایوب خان نے ڈالی۔ ضیاء الحق نے بھی سیاسی لوگوں کو ایسے ہی فائدے پہنچائے۔ نواز شریف جب وزیراعظم بنے توشوگر ملیں لگانے کی ریت اسی دور میں پڑی۔ شریف فیملی،چوہدری برادران، زرداری خاندان سمیت سب نے شوگر ملیں لگائیں۔رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے چوہدری منیر ابوظہبی کے امیر شیخ زاید بن سلطان النیہان کے کاروباری مفادات کی نگرانی کرتے تھے۔

دولت آنے کے بعد ان کو بھی سیاست کا چسکا لگا تو انھوں نے خسرو برادران کو اپنا لیا اور شوگر ملیں لگوائیں ورنہ خسرو برادران کی اتنی مالی استطاعت نہیں تھی کہ وہ شوگر ملیں لگاتے۔ الغرض تمام سیاسی خاندانوں کا کاروبار کے ساتھ منسلک ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہاں ہر دور میں من مرضی کی سبسڈیز حاصل کی گئیں، بینکوں سے قرضے معاف کروائے گئے اور ایک دوسرے کے سیاسی خاندانوں کو زمینوں سے نوازا گیا۔ تبھی تو عام عوام قرضوں تلے دبتے چلے گئے اور ملک کا کباڑہ ہوگیا۔

اب جب کہ حالیہ چینی آٹا بحران اسکینڈل کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ ہر دور میں یہ گل کھلائے جاتے رہے ہیں لیکن اسے منظر عام پر نہیں لایا جاتا رہا ۔ شوگر انڈسٹری کو اربوں روپے کی سبسڈی دینے کا معاملہ دو سال سے چل رہا تھا۔ شوگر انڈسٹری کہہ رہی تھی کہ ہم نے زیادہ چینی پیدا کر لی لہٰذا ایکسپورٹ کرنے دیں۔

اُس وقت چینی کی قیمت55 روپے فی کلو گرام تھی۔ اسد عمر وزیرخزانہ نہیں مان رہے تھے، اس پر انھیں اوپر سے بھی کہا گیا کہ دے دو سبسڈی لیکن اسد عمر نے انکار کر دیا اور ہٹا دیے گئے۔اس پر ایک راستہ نکالا گیا اور گیارہ لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کر نے کا کہا گیا۔ اس پر شوگر ملوں نے کہا کہ پھر ہمیں تین ارب روپے کی سبسڈی بھی دی جائے، جیسے ماضی میں ملتی رہی ہے۔ اس پر کہا گیا کہ وفاقی حکومت سبسڈی نہیں دے گی، ہاں صوبے دینا چاہیں تو ان کی مرضی۔ پہلے یہ فیصلہ ای سی سی میں ہوا، پندرہ بیس وفاقی وزیر جس کے ممبرز ہیں۔ پھر ای سی سی کا فیصلہ وفاقی کابینہ کو بھیجا گیا جس کی صدارت وزیر اعظم عمران خان کرتے ہیں۔

کابینہ نے ای سی سی کے چینی کی ایکسپورٹ دس سے بڑھا کر گیارہ لاکھ ٹن کرنے اور اس پر صوبوں کو سبسڈی دینے کے فیصلے کی منظوری دے دی۔ توقع کی جارہی تھی کہ سندھ حکومت وفاقی حکومت کے اس فیصلے کا سب سے بڑا فائدہ اٹھائے گی، کیونکہ زرداری کی آٹھ شوگر ملیں ہیں، لیکن جو رپورٹ سامنے آئی اس نے سب کے اوسان خطا کر دیے ہیں کہ پنجاب ، جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے، کے سوا کسی صوبے نے ملوں کو سبسڈی نہیں دی۔ سندھ میں کسی مل کو ایک روپیہ خزانے سے نہیں دیا گیا۔

اگر سابقہ اسکینڈلز کی رپورٹ بھی منظر عام پر آجائیں تو عوام دیکھیں کہ ان کی دولت کو کس طرح لوٹا گیا۔ نواز شریف 1997 میں دوسری دفعہ وزیراعظم بنے تو انھوں نے ایک شہرہ آفاق تقریر کی تھی جس کا چرچا مہینوں تک رہا۔ پوری قوم وہ تقریر سن کر آبدیدہ ہوگئی کہ ہمیں ایسا وزیراعظم ملا ہے جس کے سینے میں اتنا درد ہے کہ وہ بینکوں کے چار ارب روپے واپس کرنے کے لیے اپنے فیکٹری بینکوں کے حوالے کرنے پر تیار ہے۔ اس فیکٹری پر اربوں کا قرضہ تھا اور واپس نہیں کیا گیا۔ قرض اتارو مہم کے آغاز میں ہی وزیراعظم نے اپنی فیکٹری بینکوں کے حوالے کر دی تھی۔

جب بینک مل کا قبضہ لینے گئے تو پتہ چلا کہ نواز شریف کے ایک کزن نے عدالت سے اسٹے لے لیا ہے۔ اس دوران نواز شریف حکومت کا تختہ اُلٹا گیا، وہ جدہ چلے گئے، اس دوران بھی وہ اسٹے چلتا رہا۔ کسی کو یاد نہیں رہا کہ فیکٹری کا کیا بنا۔ چودہ برس تک وہ اسٹے چلتا رہا، جب 2013ء میں نواز شریف تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو قومی بینک جس کا قرضہ دینا تھا پہلے اس کا صدر ایک رشتہ دار کو لگایا گیا اور بینک کو تین چار ارب روپے واپس کر کے ساری زمین واپس لی گئی۔ ان چودہ برسوں میں وہ ساری زمین شہر کا حصہ بن کر کمرشل بن چکی تھی۔ ساتھ ہی شہباز شریف نے پنجاب حکومت سے اس انڈسٹریل زمین کو رہائشی کا درجہ دلوایا اور اب اس پر ہاؤسنگ سوسائٹی بن رہی ہے۔ اس زمین کی اب مالیت تیس ارب سے زائد ہے۔بااثر سیاسی لوگوں اور ماضی کے حکمرانوں کے خلاف جعلی بینک اکاؤنٹس کی رپورٹس ابھی تک منظر عام پر نہیں لائی گئیں۔

پھر گزشتہ دور حکومت میں سرکاری توشہ خانہ سے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گاڑیاں، تحائف لینے کے الزام لگائے گئے انکوائری قائم ہوئی مگر رپورٹ منظر عام پر نہ آسکی۔ پھر مشرف دور کے این آر او کی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آسکی جس میں اربوں روپے لوٹنے والوں کی کھل کر نشاندہی کی گئی تھی اور پھر یہ قرضے معاف کروائے گئے تھے۔

پھر بہت سی چھوٹی بڑی انکوائری رپورٹس کو آج تک منظر عام پر نہیں لایا جاسکا۔  شہباز شریف جو حالیہ رپورٹ کو عمران خان اور عثمان بزدار کے خلاف چارج شیٹ کہہ رہے ہیں وہ خود بہت سے الزامات کا شکار ہیں، گزشتہ سال ڈیلی میل کی خبر میں بھی منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے گئے تھے۔اس خبر کو رپورٹ کرنے والے انگریز صحافی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس خبر کو ہر سطح پر ثابت کر نے کے لیے تیار ہیں جب کہ شہباز شریف نے بھی اس رپورٹ کے حوالے سے لندن کی ایک عدالت سے رجوع کر لیا ہے اور ڈیلی میل کے خلاف دعویٰ دائر کیا ہے ، حال ہی میں شہباز شریف 6ماہ کا عرصہ لندن میں گزار کر آئے ہیں اور لندن کی عدالت میں کیس چل رہا ہے۔ بقول شاعر

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

بہرکیف قرضوں کی تفصیلات کے حوالے سے بھی ایک انکوائری رپورٹ وزیر اعظم کے آس پاس ہی موجود ہے جس کے بار ے میں ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ 21 اداروں سے وابستہ 250 افراد نے سابقہ ادوار (2008 سے 2018 ) میں لیے گئے قرضوں کو استعمال کیا۔ قرضہ انکوائری کمیشن نے 420غیرملکی قرضوں کے مکمل ریکارڈکی جانچ پڑتال بھی کی جس میں اورنج لائن ٹرین، بی آر ٹی پشاور، کول پاورپلانٹس اور نیلم جہلم سمیت دیگر منصوبوں کے متعلق تفصیلات بھی رپورٹ کا حصہ ہیں ۔ لیکن بقیہ مندرجات کو عوام سے چھپا لیا گیا۔

میرے خیال میں اگر Right to Knowپالیسی کے تحت عوام کے سامنے ہر چیز کو کھول کر رکھا جائے تو اس سے یقینا عوام کا ہی فائدہ ہوگا اور عوام یہ جان سکیں گے کہ اُن کے لیے اصل کون ہے اور نقل کون ہے؟ اور شاید عوام ایجوکیٹ بھی ہو جائیں اور غلامی چھوڑ کر حقیقی لیڈرز کا انتخاب کرنا شروع کردیں ورنہ شاید غلامی کی زنجیریں توڑنا ہمارے لیے ایک خواب ہی رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔