کورونا اور غریب طبقات

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 10 اپريل 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

کرۂ ارض پر انسان ہزاروں سال سے آباد ہے لیکن اس کی اولین ترجیح جنگ رہی ہے۔ کوریا سے لے کر افغانستان تک انسانی خون پانی کی طرح بہتا آرہا ہے اسے کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ دنیا کو امن و آشتی کا مرکز بنا کر کرۂ ارض پر ایک پرامن اور خوشحال زندگی کے کلچر کو فروغ دے، اس کی پہلی ترجیح ایٹمی ہتھیار کو زیادہ سے زیادہ خطرناک بنانا رہی ہے۔ آج بڑی طاقتوں کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے اتنے بڑے ذخائر ہیں کہ دنیا کو ان ہتھیاروں سے ہزار بار تباہ کیا جاسکتا ہے ایٹمی میزائل کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ایک ملک ایک ہزار کلو میٹر تک مار کرنے والا میزائل بناتا ہے تو دوسرا حریف ملک دو ہزار کلو میٹر تک مار کرنے والا میزائل بناتا ہے یہ جانتے ہوئے کہ وہ ان ہتھیاروں کو استعمال نہیں کرسکے گا لیکن اس کی جنگ پسند طبیعت ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں لگی ہوئی ہے۔

انسان جب منفی کاموں میں حد سے زیادہ آگے بڑھ جاتا ہے اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں سوچتا تو فطرت سرگرم ہو جاتی ہے اور اس کے ایٹمی ہتھیار دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ آج ایک ننھے سے کورونا وائرس نے جو نظر بھی نہیں آتا،دنیا کے جنگ پسندوں کو اتنا بے بس اور خوفزدہ کردیا ہے کہ وہ اپنی جانیں بچاتے پھر رہے ہیں لیکن ان کو کہیں جائے پناہ نہیں مل رہی ہے کہیں وہ آئسولیشن میں پناہ لے رہے ہیں تو کہیں وہ قرنطینہ میں دبکے ہوئے ہیں۔ موت ان کے سامنے ایک نظر نہ آنے والے ننھے سے وائرس کی شکل میں کھڑی ہوئی ہے اور وہ اس سے چھپتے پھر رہے ہیں۔ دنیا کو ہزار بار تباہ کرنے والے ایٹمی ہتھیاروں کے مالک کورونا وائرس سے بچتے پھر رہے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان بدبختوں نے یہ کبھی سوچنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی کہ کرۂ ارض پر انسان کو پرامن طریقے سے رہنا چاہیے اور اپنی صلاحیتوں کو انسانی زندگی کو خوشحال بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے والا یہ انسان آج اپنی جان بچانے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے لیکن موت نے اسے اس طرح گھیرا ہوا ہے کہ اسے اپنی جان بچانے کا کوئی موقعہ نہیں مل رہا ہے۔ ہر روز اخباروں اور الیکٹرانک میڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرنے والے آج بلوں میں دبکے ہوئے ہیں اور جو امن اور آشتی کے دشمن ہیں وہ آج بھی محفوظ محلوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں لگے ہوئے ہیں۔ غریب انسان مزدور اور کسان جسے کورونا وائرس سے بچنے کی کوئی سہولت حاصل نہیں بازار میں اپنے اڈوں پر بیٹھا روزگار کی تلاش میں ادھر ادھر امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے کیونکہ لاک ڈاؤن نے اسے قید کردیا ہے وہ جانتا ہے کہ وہ باہر نکلے گا تو کورونا موت بن کر اس کے سامنے کھڑا ہو جائے گا لیکن اس کے پاس زندگی بچانے کا کوئی آپشن نہیں ہے البتہ موت کے لیے اس کے پاس ایک آپشن ہے یا تو وہ باہر نکل کر موت کا مقابلہ کرے یا گھر میں رہ کر فاقے کی موت کا سامنا کرے۔

عام غریب انسان جو پانچ روپے کا ماسک نہیں خرید سکتا وہ کورونا جیسے وحشی وائرس سے بچنے کے لیے کون سے قرنطینہ میں پناہ لے، اس کے لیے تو گھر کے اندر بھی موت ہے گھر کے باہر بھی موت۔ 72سال سے غریب عوام کو دھوکہ دینے والی اشرافیہ چونکہ اس کے پاس کورونا سے بچنے کے تمام سامان ہیں وہ آج بھی حکومت کے خلاف زہر اگل رہی ہے۔

میڈیا آج بھی براہ راست یا باالواسطہ اشرافیہ  کے حق میں پروپیگنڈا کر رہا ہے اور عوام کو باالواسطہ یہ پیغام دے رہا ہے کہ اشرافیہ ہی اس کے مسائل حل کرسکتی ہے لیکن مشکل یہ آن پڑی ہے کہ عوام اب اشرافیہ کے جادو سے باہر نکل رہے ہیں اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے عمران خان سے رجوع کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے کورونا نے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ غریب روٹی سے پریشان ہے۔ 10سالوں میں عوام کے اربوں روپے لوٹنے والوں کی تجوریاں بند ہیں ۔ حکومت رات دن عوام کو کورونا اور کورونا کی لائی ہوئی فاقہ کشی سے نکالنے کے لیے کوشاں ہے اور اشرافیہ ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ میڈیا میں چھپے ہوئے اشرافیہ کے غلام رات دن ان حالات میں بھی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس اچانک اٹھنے والے کورونا کے طوفان نے حکومت کے لیے ایسی مشکلات پیدا کردی ہیں کہ ان سے نکلنے کے لیے عوام کو حکومت کا ساتھ دینا ہوگا۔

کورونا وائرس سے کتنا بڑا جانی نقصان ہوگا ابھی اس حوالے سے کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن اتنا البتہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وباؤں میں ایسی وبا کبھی نہیں دیکھی گئی۔ کیا اس وبا میں ایٹمی میزائلوں وغیرہ کے تجربات کا بھی دخل ہے؟ اس کی تحقیق ہونی چاہیے کیونکہ ایٹمی ہتھیاروں کے اتنے بڑے بڑے ذخائر دنیا میں موجود ہیں کہ ان سے کسی بھی قسم کے نقصان کی امید کی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ’’برق گرتی ہے تو بے چارے غریبوں پر‘‘۔ کورونا وائرس ملیر، لانڈھی جیسی غریب بستیوں میں تو بے دھڑک چلا جاتا ہے اور جتنا چاہے نقصان کرتا ہے لیکن اسے امیروں کی بستیوں میں جانے کی ہمت نہیں ہوتی کیونکہ ان پوش بستیوں میں غلاظت نہیں ہوتی۔

کورونا نے اب تک جتنا نقصان پہنچایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی اگر غریب بستیوں میں بھی صفائی ستھرائی ہوتی تو شاید کورونا کو ان بستیوں میں جانے کی ایسی ہمت نہ ہوتی۔لاکھوں غریب اس بلا کی نذر ہوگئے، اس کے علاوہ غربت، افلاس، بھوک غریب طبقات کا مقدر بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں 22 کروڑ دنیا میں 7ارب انسان رہتے ہیں اگر یہ طبقاتی حوالے سے منظم ہو جائیں تو پھر 2 فیصد اشرافیہ کا وہ حشر ہو سکتا ہے جو کورونا سے غریب طبقات کا ہو رہا ہے لیکن کیا ایسا ممکن ہے، یہ ایسا سوال ہے جس پر غریب طبقات کے مستقبل کا دار و مدار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔