25 اپریل:عمران خان سرخرو ہوں گے؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 10 اپريل 2020
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

41 سال پہلے 4اپریل کو پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کو تختہ دار پر کھینچ کر ایک’ منفرد تاریخ‘ رقم کی گئی تھی ۔ تازہ چار اپریل نے بھی ایک تاریخ رقم کی ہے۔ 4اپریل2020 اس لحاظ سے تاریخ سازدن ہے کہ اُس روز پاکستان کے ایک وفاقی ادارے ( ایف آئی اے) کی طرف سے وہ تحقیقاتی اور انکشافاتی رپورٹ حکومت اور قوم کے سامنے پیش کر دی گئی جس کا بڑے دنوں سے انتظار تھا۔ اخبارات کی سرخیاں چنگھاڑ اُٹھی ہیں۔

حیرت مگر اُن ’’مستقل مزاج‘‘ اور ’’بہادر ‘‘ لوگوں پر ہے جن پر چینی آٹا بحران تحقیقاتی رپورٹ میں انگلی اُٹھی ہے مگر وہ مان کر نہیں دے رہے ۔ عمومی طور پر ایسی رپورٹیں ، جن کے نتائج حکومت کے قریبی ساتھیوں کے لیے بدنامی کے مترادف ہوں، دبا دی جاتی ہیں، انہیں عوام سے چھپا کر سرد خانے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ عمران خان اور اُن کی پی ٹی آئی حکومت اس اعتبار سے قابلِ تحسین ہے کہ یہ رپورٹ نہ صرف منظرِ عام پر لے آئی ہے بلکہ اُن لوگوں کے نام بھی برہنہ ہو کر سامنے آ گئے ہیں جو عمران خان کے قریبی اور معتمد ساتھی ہیں بلکہ وہ بھی جو اُن کے حکومتی اتحادی ہیں ۔

پوری قوم اس رپورٹ کے کارن دَم بخود ہے اور سوچ رہی ہے کہ کس کس اسلوب میں اُن کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے ۔ عمران خان نے یہ رپورٹ منظرِ عام پر لاکر بہرحال ایک جرأتمندانہ قدم اُٹھایا ہے ۔ اس لحاظ سے اُن کی بجا طور پر تحسین بھی ہورہی ہے اور اُن کے چاہنے والے خانصاحب کی بلائیں بھی لے رہے ہیں ۔ خانصاحب نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آٹا اور چینی کا شدید اور سنگین بحران پیدا کرنے اور عوام کو لوٹنے والوں کے نام سامنے لائیں گے ۔

سو اُنہوں نے اپنا یہ وعدہ پورا کر دیا ہے ۔ چونکہ اس رپورٹ میں اُن کے کئی معتمدین اور اتحادیوں کے نام بھی مبینہ طور پر آئے ہیں ، اس لیے بدنامی سے بچنے کے لیے اگر وہ چاہتے تو حیلوں بہانوں سے اس رپورٹ کا گلہ بھی گھونٹ سکتے تھے ، جیسا کہ اس سے پہلے کئی قومی سطح کی تحقیقاتی رپورٹوں کی قوم کو ہوا تک نہیں لگنے دی گئی ۔ اس پس منظر میں خانصاحب کا یہ اقدام قابلِ تحسین ہے ۔ شائد اسی لیے وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے احتساب ، شہزاد اکبر ، نے بھی کہا ہے کہ وزیر اعظم کا ( رپورٹ بارے ) نکتہ نظر یہ تھا کہ چونکہ انھوں نے اپنے عوام سے رپورٹ منظرِ عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا، اس لیے اب وقت آگیا تھا کہ وعدہ پورا کردیا جائے ۔

پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت کے سابق ترجمان ، شہباز گل، نے رپورٹ کے منصہ شہود پر آنے کے بعد ان الفاظ میں ٹویٹ کی: ’’مبارک ہو پاکستان ! عمران خان نے آپ سے کیا گیا ایک اور وعدہ پورا کر دیا۔ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے جاندار انکوائری کمیٹی بنائی اور پھر اس کی سفارشات کو من و عن تسلیم بھی کیا اور اب اسے پبلک بھی کررہی ہے ۔ کورونا کی آڑ میں اس رپورٹ کو دبایا جا سکتا تھا لیکن یاد رکھا جائے یہ عمران خان کی حکومت ہے۔ پچیس اپریل تک اس کی فرانزک رپورٹ بھی آجائیگی۔ خانصاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے بھی پبلک کیا جائے گا۔‘‘

دوسری جانب بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ خانصاحب سے استعفے کا اگر مطالبہ کیا جارہا ہے تو یہ اُنہی کے قائم کیے گئے معیار کے مطابق ہے ۔ پیپلز پارٹی غصے میں ہے۔مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں کہ’’ فرانزک رپورٹ کا انتظار کیوں؟ کیا نواز شریف اور آصف زرداری کی باری فرانزک رپورٹوں کا انتظار کیا گیا تھا؟‘‘ اس تہلکہ خیز رپورٹ پر نون لیگی قیادت کی بانچھیں کھل رہی ہیں۔

میاں شہباز شریف اس کا فوری نتیجہ چاہتے ہیں۔ دیگر نون لیگی لیڈرز بلند آواز سے ایسی تلخ نوائی کا مظاہرہ کررہے ہیں جس کی توقع کی جا سکتی تھی۔  واقعہ یہ ہے کہ آٹا اور چینی تحقیقاتی رپورٹ کے سامنے آنے پر عوام سناٹے کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ بے بس عوام حیران ہیں کہ کئی گنا مہنگی چینی اور آٹا فروخت کرنے اور پھر حکومت کے خزانے سے سبسڈی لے کر اُنہیں ہاتھ کی صفائی دکھانے والے دولتمند اور صنعت کار سیاستدانوں میں مبینہ طور پر نون لیگ ، پی ٹی آئی ، پیپلز پارٹی اور قاف لیگ کے سبھی سیاستدان شامل ہیں۔ یعنی قوم کے مال پر ہاتھ صاف کرنے والے تازہ اسکینڈل کے اس حمام میں بڑی سیاسی جماعتوں کے کئی بڑے شامل ہیں؟

عمران خان نے یہ چہرے قوم کے سامنے بے نقاب کرکے اچھا تو کیا ہے لیکن عوام ساتھ ہی یہ سوال بھی پوچھ کر مطالبہ کررہے ہیں کہ مبینہ ملزمان کے خلاف عبرتناک کارروائی کب ہوگی ؟ اور یہ کرے گا کون؟ اس سے قبل ملک بھر میں ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرنے والے حکومتی وزیر ’صاحب‘ کا بھی کوئی احتساب نہیں کیا گیا تھا۔ عامر کیانی کو بس وزارت سے ہٹایا گیا لیکن وہ اب بھی پی ٹی آئی  کے مرکزی پارٹی عہدیداروں میں شامل ہیں  ۔ ایک اور حکومتی شخصیت، زلفی بخاری ، بھی حال ہی میں بہ اندازِ دگر الزامات کی زد میں آئے لیکن اُن سے بھی صرفِ نظر کر دیا گیا۔ اعظم سواتی بھی بوجوہ وزارت سے فارغ کیے گئے تھے لیکن یہ صاحب پھر وزیر بن چکے ہیں۔

تو کیا تازہ ترین تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جن شخصیات نے آٹا اور چینی کے پردے میں ’’بہتی گنگا‘‘ میں بیدردی سے ہاتھ دھوئے ہیں ، اُنہیں بھی یونہی بے سزا چھوڑ دیا جائے گا ؟ ایسا اگر ہُوا تو یہ اقدام پی ٹی آئی حکومت کو بھک سے اُڑا کر رکھ دے گا ۔ خانصاحب کو فی الحقیقت بڑے خطرات اور چیلنجوں کا سامنا ہے ۔کچھ لوگ دھمکیاں دیتے بھی مبینہ طور پر سنائی دیے ہیں لیکن تادیبی کارروائی کرتے ہُوئے وزیر اعظم نے مزید اقدام کیا تو سرخروئی عمران خان ہی کے حصے میں آئے گی ۔

خانصاحب بھی عوامی احساسات و خیالات سے آگاہ ہیں۔ اسی لیے اُنہوں نے مذکورہ رپورٹ کے اشاعت کے بعد ، عوامی ردِ عمل کو دیکھتے ہُوئے ، بروقت کچھ ٹویٹس کی ہیں ۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے لکھا:’’گندم اور چینی کی قیمتوں میں یکلخت اضافے کی ابتدائی تحقیقات وعدے کے مطابق فوراً ، بلا کم و کاست جاری کر دی گئی ہیں ۔

تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ ذاتی مفادات کی آبیاری اور سمجھوتوں کی رسوم نے ماضی میں سیاسی قیادت کو اس اخلاقی جرأت سے محروم رکھا جس کی بنیاد پر وہ ایسی رپورٹس کے اجرا کی ہمت کر پاتیں۔‘‘ اور پھر اُنہوں نے ملزمان کے خلاف کارروائی کیے جانے کے حوالے سے عوام کے ذہنوں میں کلبلاتے سوالات کے پیشِ نظر دوسری ٹویٹ یوں کی :’’مَیں (ملزمان کے خلاف) کسی بھی کارروائی سے پہلے اعلیٰ سطح کمیشن کی جانب سے مفصل فرانزک آڈٹ کے نتائج کا منتظر ہُوں ۔یہ نتائج 25اپریل 2020 تک مرتب کر لیے جائیں گے۔ ان نتائج کے سامنے آنے کے بعد کوئی بھی طاقتور گروہ (لابی) عوامی مفادات کا خون کرکے منافع سمیٹنے کے قابل نہیں رہے گا۔ انشاء اللہ۔‘‘

اب ہم سب 25اپریل کے منتظر ہیں ۔ یہ تاریخ بھی کچھ دُور نہیں ہے ۔ میدان بھی یہاں ہے اور گھوڑا بھی یہیں ۔ اس سے قبل بھی جناب وزیر اعظم کئی سماج دشمن گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے اور اُنہیں نشانِ عبرت بنانے کے کئی اعلان کر چکے ہیں لیکن عمل کے میدان میں ہُوا کچھ بھی نہیں ۔ خدا نہ کرے کہ اس بار بھی ایسا ہی ہو ۔ بلا شبہ پی ٹی آئی حکومت اور عمران خان پر یہ بھاری وقت ہے ۔ یہی وقت مگر اُن کے لیے بلند اخلاقی اور طاقت ثابت کرنے کا ہے ۔عمران خان کا اپنا سرکاری کردار بہرحال بے داغ ہے ۔ وہ کڑے احتساب کی مثال قائم کرکے اپنے حریفوں کو پچھاڑ سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ مثال قائم کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔