پاکستانی ماہرین کا کورونا وائرس میں مزاحم دو جینیاتی تبدیلیوں کا انکشاف

ویب ڈیسک  جمعـء 10 اپريل 2020
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں واقع ڈاؤ کالج آف بایو ٹیکنالوجی کی محقق اور طالبات ڈاکٹر مشتاق حسین کے ہمراہ (فوٹو : ایکسپریس)

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں واقع ڈاؤ کالج آف بایو ٹیکنالوجی کی محقق اور طالبات ڈاکٹر مشتاق حسین کے ہمراہ (فوٹو : ایکسپریس)

کراچی ۔: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی ایک ٹیم نے انسانوں میں ایسی دو جینیاتی تبدیلیاں نوٹ کی ہیں جن کے حامل افراد قدرتی طور پر SARS-CoV-2 یعنی کورونا وائرس محفوظ ہوسکتے ہیں۔

ڈاؤ یونیورسٹی میں واقع ڈاؤ کالج آف بایو ٹیکنالوجی کی ڈاکٹر نصرت جبیں، فوزیہ رضا، ثانیہ شبیر، عائشہ اشرف، انوشہ امان اللہ اور بسمہ عزیز نے ادارے کے نائب پرنسپل ڈاکٹر مشتاق حسین کی نگرانی میں یہ اہم تحقیقی کام کیا ہے۔ اس تحقیق کی روداد جرنل آف میڈیکل وائرلوجی کی حالیہ اشاعت میں شائع ہوئی ہے۔

ٹیم نے ایک ہزار انسانی جینوم کی ڈیٹا مائننگ کرکے معلوم کیا کہ اے سی ای ٹو(اینجیو ٹینسن کنورٹنگ انزائم ٹو) نامی جین میں ہونے والے دو تغیرات S19P اور E329G کورونا کی راہ میں مزاحم ہوسکتے ہیں کیونکہ کورونا کا باعث بننے والا سارس کووڈ ٹو انفیکشن کے ابتدائی مرحلے میں ACE2 (اینجیو ٹینسن کنورٹنگ انزائم ٹو) سے ہی جاکر جڑتا ہے۔ کیونکہ وائرس اور بیماریاں کا آغاز سالماتی سطح پر ہوتا ہے اور کورونا وائرس بھی سب سے پہلے پروٹین پر حملہ آور ہوتا ہے۔

ڈاؤ یونیورسٹی کی ٹیم نے ہزاروں افراد کے ڈیٹا پر مشتمل آن لائن ڈیٹا سے استفادہ کیا اور اس کے لیے صرف اے سی ای ٹو جین اور پروٹین تک ہی اپنی تحقیقات کو محدود رکھا۔ اس مطالعے سے معلوم ہوا کہ شاید اسی پروٹین میں جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انسان دیگر وائرل انفیکشن سے بھی محفوظ رہ سکتا ہے۔

جبکہ دوسری جانب ریسرچ ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر مشتاق حسین نے بتایا کہ ڈیٹا مائننگ میں جن انسانی جینوم کی ڈیٹا مائننگ کی گئی ان میں چین، لاطینی امریکا اور بعض یورپی ممالک شامل تھے، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تجزیے میں اے سی ای ٹو میں مذکورہ تغیرات کی شرح نہایت کم پائی گئی یاد رہے کہ مذکورہ ممالک کورونا وائرس سے بری طرح متا ثر ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ کورونا تناظر میں کسی بین الاقوامی اہمیت کے جریدے میں شائع ہونے والا یہ پہلا تحقیقی مقالہ بھی ہے جو نہ صرف پاکستان میں کورونا پر ہونے والی معیاری تحقیق کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس کے معالجے کے لیے جینیاتی تحقیقی کے نئے پہلو بھی اجاگر کررہا ہے۔

اس طرح دنیا کے کئی ممالک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی کم یا بہت زیادہ رفتار کو بھی سمجھنے میں مدد ملے گی اور دوسری جانب اس پر تحقیق اور معالجے کی نئی راہیں بھی کھلیں گی۔

ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مشتاق حسین نے عوام کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ کووڈ 19 سے خوفزدہ ہوکر احتیاط کررہے ہیں تو یہ معقول بات ہے لیکن اس کے خوف کو حاوی کرکے بہت گھبرانے سے فائدے کی بجائے نقصانات ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔