کورونا وائرس، کچھ تلخ حقائق اور مستقبل کے خدشات

شہاب احمد خان  جمعـء 10 اپريل 2020
یہ صرف عالمی وبا نہیں بلکہ عالمِ اسلام، بالخصوص پاکستان کےلیے تبدیلی کی ایک غیرمعمولی لہر کا پیش خیمہ بھی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ صرف عالمی وبا نہیں بلکہ عالمِ اسلام، بالخصوص پاکستان کےلیے تبدیلی کی ایک غیرمعمولی لہر کا پیش خیمہ بھی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج ہم ایک بدلی ہوئی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ ایسی دنیا جہاں ایک بیماری کے خوف نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ یہ بات پہلے ہی ساری دنیا میں قابل بحث سمجھی جارہی ہے کہ آیا یہ بیماری کوئی آسمانی وبا ہے یا ایک بایولاجیکل ہتھیار ہے۔ یہاں اس بیماری کی وجوہ کی بحث میں پڑے بغیر ہم صرف اس بات کو دیکھتے ہیں کہ اس بیماری نے مسلم دنیا کو کیسے تبدیل کر دیا ہے۔

آج اگر ہم صرف پاکستان ہی کو دیکھیں تو ہمیں ایک ایسا بدلا ہوا نظام نظر آتا ہے جہاں مسجدیں نماز کےلیے بند ہیں۔ آج کا ملا خود لوگوں کو اس بات کی تلقین کر رہا ہے کہ لوگ نماز گھروں پر پڑھیں۔ اس بیماری کے ایک وار نے ہمارے ان تمام درد مند پاکستانی تبلیغی اداروں کی کاوشوں کو مٹی میں ملا دیا ہے جو کئی دہائیوں سے کوششیں کرکے چند لوگوں کو مسجد تک لانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اب اگر یہ کہیں کہ لوگ نماز گھروں پر باقاعدگی سے پڑھ رہے ہیں تو یہ بات اتنی درست نہیں، کیونکہ ہماری آئی ٹی کی ترقی نے ہمارے گھروں میں بیشمار ایسی تفریحی سہولیات پہنچا دی ہیں جن کے ہوتے ہوئے نماز کا خیال بہت کم مسلمانوں کو آتا ہے۔ اکثر و بیشتر افراد گھروں میں بیٹھ کر صرف نیٹ فلکس پر دن رات فلمیں دیکھ رہے ہیں۔ اکثر و بیشتر افراد رات رات بھر مختلف تفریحی مشغولیات میں گزار کر صبح سو جاتے ہیں۔ ان کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب فجر تو کیا ظہر کا وقت بھی قضا ہوچکا ہوتا ہے۔ اٹھ کر ناشتہ کرتے ہوئے مغرب بھی قضا ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد شیطان انہیں بہلا دیتا ہے کہ کل سے نماز باقاعدگی سے پڑھیں گے۔

ہمارے معاشرے میں ایک بہت بڑی تعداد ان نمازیوں کی ہے جو صرف جعمہ کی نماز پڑھتے تھے۔ اب جعمہ بھی نہیں ہورہا۔ اس لیے وہ نمازی تو بالکل ہی فارغ ہوچکے ہیں۔ اگر اسی طرح ایک دو جمعے اور گزر گئے تو ایسے نمازی تو مسجد کا راستہ ہی بھول جائیں گے۔

ہمارے ملک میں یہ سب اتنی آسانی سے ہونا ممکن نہ ہوتا، اگر اس کی تیاری بہت عرصہ پہلے سے نہ ہورہی ہوتی۔ اس تیاری کی ابتدا اس وقت ہوئی جب ہمارے چند پاپ سنگرز اچانک مبلغ بنا دیئے گئے۔ گلوکاری کی فیلڈ میں وہ مغربی یا بھارتی گلوکاروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے، کیونکہ وہ اس گلوکاری کی ابجد سے بھی واقف نہیں تھے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ نہ انہوں نے حدیث و فقہ کی تعلیم کہیں سے حاصل کی نہ ہی اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی۔ آج وہ اسلام میں اتائیت کے بانی ہیں۔ آج ہمارے چند نامور گلوکاروں کے برانڈ مارکیٹ میں موجود ہیں۔ وہ خود تو تبلیغ کرتے پھرتے ہیں، کاروبار دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ یہ ایک پراسرار حقیقت ہے کہ وہ کاروبار میں اتنے کامیاب کیسے ہوئے۔

صرف اس پر ہی بس نہیں کیا گیا بلکہ کچھ ایسے نام نہاد عالم دین بھی ان کی مدد کےلیے میدان میں اتارے گئے جنہوں نے اپنے آپ کو پہلے تو ایک عالم دین کے طور پر متعارف کرایا۔ ہمارا میڈیا بھی انہیں ایک عالم دین کے ہی طور پر پروجیکٹ کرتا رہا۔ لیکن اب وہ اس ٹائٹل سے دست بردار ہوچکے ہیں۔ اب وہ ایک سیاست دان ہیں۔ موصوف اب ایک فلم میں بطور ہیرو بھی آرہے ہیں، کیونکہ جو کام ان سے لینا تھا وہ پورا ہوچکا ہے۔ اسلام کے تشخص کو جو نقصان پہنچانا تھا، وہ ہوچکا ہے۔ مغرب کو ایسا ہی اسلام چاہیے جو اتنا ہی آزاد خیال ہو، جہاں مسجد کا امام نماز پڑھا کر ایک چکر پب کا بھی لگا لیتا ہو۔ فارغ وقت میں سنیما فلم دیکھنے بھی چلا جاتا ہو۔ آج ہمارے میڈیا سے ملاؤں کی گاڑیوں سے شراب کی بوتلیں برآمد ہونے کی خبریں میڈیا پر چلتی ہیں لیکن معاشرہ اس کا نوٹس نہیں لیتا ہے۔ آزاد خیالی یہاں تک تو آچکی ہے۔ اب اگر آپ سارا دن گھر میں نمازیں پڑھتے رہیں تو بھی غیر مسلموں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مغرب کو ڈر تو اس اسلام سے لگتا ہے جو اجتماعیت پر زور دیتا ہو۔ جس نے روس اور امریکا جیسی سپر پاورز کو افغانستان میں شکست دے دی ہو۔

دوسری طرف مدرسوں سے باقاعدہ اسلامی تعلیم حاصل کرنے والے علماء کو بھی ایک نئی لائن پر لگا دیا گیا ہے۔ وہ ہے اسلامی بینکنگ۔ آج نئی نسل کے مفتی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی اسلامی بینک کا شریعہ ایڈوائزر بن جائے۔ کل تک جو لوگ سائیکل پر گھر گھر جاکر بچوں کو قرآن پڑھا رہے تھے، وہ آج شریعہ ایڈوائزر بن کر بینک کی طرف سے دی جانے والی کلٹس گاڑی، لیپ ٹاپ اور موبائل فون لے کر گھوم رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بینک کو زیادہ وقت دینے کی بھی ضرورت نہیں۔ جب مفتی صاحب کا دل چاہے، چار گھنٹوں کے لیے بینک آجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر وہ مفتی حضرات جو مختلف بینکوں کے شریعہ ایڈوائزر بھی ہیں، میڈیا پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف اکثر مفتیان کرام مدرسوں کے منتظم بھی ہیں۔

ہمارے ملک میں مدرسہ لامحدود آمدنی کا ایک ذریعہ بھی بن چکا ہے۔ اس بات کا برا بہت سے لوگ مانیں گے لیکن حقیقت یہی ہے۔ مدرسے وہ ادارے ہیں جنہیں کتنا چندہ ملتا ہے، کہاں سے ملتا ہے، کہاں خرچ ہوتا ہے، کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ وہ خود ہی ایک آمدنی اور اخراجات کا گوشوارہ بنا کر پیش کر دیتے ہیں جسے کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ اکثر ایسی ویڈیوز یوٹیوب پر موجود ہیں جن میں خود مدرسے کے منتظم بیان کر رہے ہیں کہ ایک ایک کروڑ روپے تک کا چندہ صرف ایک شخص ہی دے جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں صرف ایک اسلامی بینک ہی قائم ہوا تھا، کمرشل بینک اس طرز بینکاری سے دور ہی تھے۔ لیکن جب کمرشل بینکوں نے دیکھا کہ اسلامی بینکنگ اور سودی بینکاری میں صرف چند کاغذات کا ہی فرق ہے، باقی سب کچھ ایک جیسا ہی ہے تو آج تمام بینک اسلامی بینکاری میں کود پڑے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انگلینڈ جیسے غیر اسلامی ملک میں 100 سو کے قریب اسلامی بینک کام کر رہے ہیں جن کا مالک ایک یہودی ہے۔

اسلامی بینکاری صرف ایک برانڈ ہے، ان لوگوں کی دولت کا رخ اپنی طرف موڑنے کا جو مسلمان کمرشل بینکوں میں اپنا پیسہ رکھوانا پسند نہیں کرتے ہیں۔ انگلینڈ میں چلنے والے اسلامی بینکوں کےلیے شریعہ ایڈوائزر بنگلہ دیش جیسے ملک سے ہائر کیے جاتے ہیں، جہاں غربت کے مارے مفتیان کرام بڑی بڑی تنخواہوں پر جب آتے ہیں تو وہ کسی بھی مالی لین دین پر کوئی اعتراض نہیں کرتے، ہر چیز کو اسلامی ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے۔ سود کو جائز قرار دینے والے یہ مُلا کسی قسم کی مزاحمت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

یہی وجہ ہے کہ آج اسلام کو ہونے والے نقصان کو کوئی ملا محسوس بھی نہیں کر رہا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب رمضان میں مفتیان کرام ٹی وی پر عام لوگوں کو اسلامی تعلیمات اور حدیث و قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ کم از کم لوگ رمضان میں ہی قرآن و حدیث کی کچھ شدھ بدھ پالیتے تھے۔ لیکن آج منظر بالکل بدل چکا ہے۔ آج وہی پاپ سنگرز جو اب مبلغ بن گئے ہیں، چند ایسے اینکروں کے ساتھ مل کر پروگرام پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جنہیں اسلام کی ابتدائی معلومات بھی نہیں؛ اور پروگرام بھی ایسے جن میں اسلامی تعلیمات کا تو نام و نشان نہیں ہوتا۔ صرف ایک مجمع مرد و خواتین اور بچوں کا ہوتا ہے جو صرف میڈیا پر روزہ کھولنے کےلیے نہ جانے کہاں سے آجاتے ہیں۔ کچھ ایسے پروگرام ہوتے ہیں جن میں صرف کچھ چیزیں لوگوں میں بانٹنے کےلیے ان سے طرح طرح کے کام کروائے جاتے ہیں۔ لوگ انتہائی بھونڈے انداز میں بھکاریوں کی طرح چیزیں مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اب اگر ہمارے ملک میں رمضان اسی صورت حال میں شروع ہوتے ہیں تو تراویح کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یعنی آج کا مسلمان، جو سال میں چاہے ایک مرتبہ ہی سہی، پورا قرآن سن لیا کرتا تھا وہ اس سے بھی محروم ہوگیا۔

دوسری تبدیلی جو ہمارے معاشرے میں آئی ہے، وہ سوشل ڈسٹنسنگ کی وجہ سے ہے۔ اب بیوی شوہر سے دو فٹ کے فاصلے سے بات کرے۔ والدین اپنے بچوں کو پیار نہ کریں۔ کچھ لوگوں کو شاید یہ بات معلوم ہو کہ چین میں لاک ڈاؤن کے بعد سب سے زیادہ طلاق کی درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ ہر وقت کام میں مصروف رہنے والے کو اگر اس طرح گھروں میں بند کردیا جاتے تو مزاج میں چڑچڑا پن پیدا ہونا فطری بات ہے۔ کیا کوئی اس بات کو یقین سے کہہ سکتا ہے کہ اس بیماری کے رخصت ہونے کے بعد سب کچھ نارمل ہوجائے گا؟ کیا وہی زندگی پھر لوٹ آئے گی؟ ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ آج ہمارے معاشرے میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو اس بیماری کے ڈر سے اپنے گھر کے دروازے تک بھی نہیں جا رہے۔ کیا یہ خوف ان کے دلوں سے اتنی جلدی نکل جائے گا؟

یہ تو ہمارے ملک کی صورت حال ہے جبکہ سعودی حکومت کی طرف سے عمرہ کی ادائیگی روک دی گئی ہے جبکہ اس سال حج پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ آج خانہ خدا سنسان ہے، مسجد نبوی خالی پڑی ہے۔ یہاں اس بیماری کی ٹائمنگ بہت غور طلب ہے۔ کیونکہ ابھی رمضان بھی سر پر کھڑے ہیں۔ اس مہینے میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد عمرہ کی ادائیگی کےلیے سعودی عرب جاتی ہے۔ اکثر لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ سعودی حکومت کی آمدنی کے دو ہی بڑے ذرائع ہیں: ایک تیل کی فروخت اور دوسری حج و عمرہ۔ ایک طرف سعودی حکومت کو تیل کی جنگ میں پھنسا کر اس کی آمدنی کو انتہائی کم کر دیا گیا ہے۔ اب یہ تیل کی جنگ کیسے شروع ہوئی اور کیوں شروع ہوئی؟ یہ ایک غور طلب معاملہ ہے۔ اب اگر حج اور عمرہ بھی نہیں ہوگا تو یہ ایک اور بڑا دھچکا سعودی حکومت کی معیشت کو ہوگا۔ سعودی حکومت کا سالانہ بجٹ تقریباً 275 ارب ڈالر ہے۔

ان کے پاس تقریباً 500 ارب ڈالر زر مبادلہ کے ذخائر موجود ہیں۔ اب اگر تیل کی قیمتیں پانچ ڈالر تک گرا دی جاتی ہیں، جیسا کہ کہا جارہا ہے، تو زمین سے تیل نکالنا ہی ممکن نہیں رہے گا کیونکہ اس سے زیادہ تو اس کو نکالنے پر خرچ ہوتا ہے۔ ان کی آمدنی کو بند کردیا جاتے تو تقریباً دو سال کے بعد سعودی عرب بھی آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہوگا۔ یہ برا وقت ان پر اس سے پہلے بھی آسکتا ہے کیونکہ ان کی تمام دولت مغربی بینکوں میں ہی پڑی ہوئی ہے۔ کسی بھی بہانے سے اگر ان کی دولت کو منجمد یا ضبط کرلیا جاتا ہے تو اس صورت حال کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔

جمال خاشقجی قتل کا کیس پہلے ہی شہزادہ محمد بن سلمان کے سر پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے۔ سعودی عرب صرف ایک ملک ہی نہیں، بلکہ دنیا بھر میں چلنے والی بہت سی اسلامی تبلیغی سرگرمیوں کا سرپرست بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان جیسے ملک بھی برے وقت میں سعودی عرب کی ہی طرف دیکھتے ہیں۔ اگر اسے ہی بھکاری بنا دیا جاتا ہے تو آپ سوچ سکتے ہیں کیا کچھ دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا نقصان ہوگا۔

دوسری طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی معاملات خاصے خراب ہوچکے ہیں۔ دونوں طرف کی افواج پوری تیاری سے آمنے سامنے آچکی ہیں۔ لگتا کچھ ایسا ہے کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ ایک محدود جنگ میں پھنسا کر مشرق وسطیٰ میں کوئی نیا کھیل کھیلا جانے والا ہے۔ پاکستان اگر بھارت کے ساتھ جنگ میں پھنس جاتا ہے تو وہ اپنے قریبی دوستوں کی مدد کرنے سے قاصر رہے گا۔ یہ تمام معاملات مغرب کی بدنیتی کھول کر بیان کر رہے ہیں۔ اسی لیے کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بیماری صرف مسلمانوں کو ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچائے گی۔

یوں بھی ہفت روزہ ’’دی اکانومسٹ‘‘ کے ایک حالیہ شمارے کے سرورق پر عبارت ہے: اب سب کچھ قابو میں ہے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہاب احمد خان

شہاب احمد خان

بلاگر اسلامک بینکنگ اور فائنانس میں ماسٹرز کی سند رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔