کورونا، حیاتیاتی ہتھیار اور سلور لائننگ

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی  ہفتہ 11 اپريل 2020
حیاتیاتی ہتھیار کمزور افراد کو زیادہ شدت سے نشانہ بناتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

حیاتیاتی ہتھیار کمزور افراد کو زیادہ شدت سے نشانہ بناتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ایک طرف جہاں کورونا کی وبا کا دور دورہ ہے، وہیں طرح طرح کے سازشی نظریات سننے کو مل رہے ہیں۔ ان نظریات میں سے ہم پاکستانیوں کا ہمیشہ سے سب سے پسندیدہ نظریہ امریکی و یہودی سازش والا ہوتا ہے کہ یہ وبا چین کی معاشی طاقت کو کمزور کرنے اور مسلمانوں کے اہم مذہبی فریضہ حج و عمرہ کو موقوف کروانے کےلیے پھیلائی گئی ہے۔ اس بحث میں اب تو بڑے بڑے نام بھی شامل ہوگئے ہیں جو کہ انٹرویوز وغیرہ میں ایسے نظریات کا ذکر کرتے پائے گئے ہیں۔

سب سے پہلے تو میں یہ وضاحت کردینا چاہتا ہوں کہ میں نہیں جانتا کہ آیا یہ وائرس قدرتی طور پر وجود میں آیا یا کسی شرپسند ذہن کی اختراع ہے، لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اب تک کی ہونے والی کسی تحقیق میں خواہ وہ چین میں کی گئی ہو یا مغرب میں، اس وائرس کے وجود میں انسانی کاوش کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ چینی حکام دبے دبے الفاط میں امریکی سازش کی بات تو کررہے ہیں لیکن وہاں کے سائنسدان ابھی تک اس سازشی نظریے کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔

حیاتیاتی ہتھیار (بائیو ویپنز) یا حیاتیاتی خطرات (بائیو تھریٹس) بنیادی طور پر بیماری پھیلانے والے جاندار یا اجسام ہوتے ہیں، جنھیں دانسۃ طور پر بطور ہتھیار استعمال کیا جاسکتا ہو۔ بہت سارے جراثیم اور وائرس وغیرہ ایسے ہیں جنھیں خطرناک سمجھا جاتا ہے جیسا کہ چیچک، اینتھراکس وغیرہ۔ موجودہ تاریخ میں حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کا اہم واقعہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے فوراً بعد اینتھراکس جرثومہ سے بھرے ہوئے خطوط کا امریکی اراکینِ سینیٹ اور میڈیا دفاتر کو بھیجا جانا تھا۔ ان حملوں کے نتیجے میں 5 افراد ہلاک اور 17 متاثر ہوئے تھے۔

اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے تقریباً تمام ممالک نے ہی حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال پر پابندی لگانے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال میں ایک سب سے اہم مسئلہ ان کو کنٹرول کرنے کا ہوتا ہے۔ آپ کلاشنکوف کو دو طریقوں سے روک سکتے ہیں، ایک اگر اس کے ٹریگر سے انگلی ہٹا لیں، دوسرا اس کا میگزین ختم ہوجانے کے بعد مزید گولیاں فراہم نہ کی جائیں۔ مزید برآں کسی کو گولی مارنا نہ مارنا کلاشنکوف بردار کے فیصلے پر موقوف ہوتا ہے، اور عموماً بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو دیکھ کر انسان کا دل پسیج ہی جاتا ہے۔

پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں جہاں سائنس کی ہلاکت خیزی کو صنعتی پیمانے پر انسان کشی کےلیے استعمال کرنا شروع کیا گیا تو ابتدا کیمیائی ہتھیاروں سے ہوئی۔ جرمن اور اتحادی افواج نے ایک دوسرے پر گیسوں کے کنستروں کی برسات کردی اور نتیجتاً ہزارہا لوگ متاثر ہوئے۔

کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ کوئی بھی کیمیائی مادہ جسے بطور ہتھیار استعمال کیا جائے اس وقت تک مؤثر رہتا ہے کہ جب تک اس کی مناسب مقدار ماحول (ہوا، خوراک یا پانی) میں موجود رہے، یہ ازخود نہ تو اپنی مقدار بڑھا سکتے ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی ایسی ارتقائی تبدیلی رونما ہونے کا امکان ہوتا ہے کہ ان کی ہلاکت خیزی میں اضافہ ہوتا جائے۔ کیمیائی اور روایتی ہتھیاروں میں فرق ان کے تباہ کن اثرات کا ہوتا ہے، کیمیائی ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی مذہب، زبان، رنگ، نسل اور جنس وغیرہ میں تفریق نہ کرتے ہوئے ہر انسان کو متاثر کرتی ہے بلکہ کمزور افراد جیسے مریض، بچے اور بوڑھے، جوانوں اور صحت مند وں کے مقابلے میں زیادہ شدت سے متاثر ہوتے ہیں۔ بعینہ یہی حال حیاتیاتی ہتھیاروں کا بھی ہوتا ہے۔ ان کے اثرات بھی کمزور افراد کو زیادہ شدت سے نشانہ بناتے ہیں، جیسا کہ آپ آج کل کورونا کی وبا میں دیکھ رہے ہیں۔

کیمیائی اور روایتی ہتھیاروں کے مقابلے میں حیاتیاتی ہتھیاروں کا ایک نہایت ہی اہم اور خطرناک پہلو ان کی افزائش کی صلاحیت ہے۔ چونکہ یہ جاندار (مثلاً کوئی بھی جرثومہ، وائرس یا طفیلیہ) ہوتے ہیں، ان میں اپنی تعداد بڑھانے کی قدرتی صلاحیت ہوتی ہے۔ ایک بار پھر کورونا کی ہی مثال لیتے ہیں۔ آپ سبھی یہ جان چکے ہوں گے یہ وائرس ایک بیمار شخص سے اس کے تیمارداروں اور ملنے والوں میں منتقل ہوتا ہے اور ان کو بیمار کرتا ہے اور اسی طرح آگے پھیلتا چلا جاتا ہے۔ ایسے ہی اور بھی دوسرے بیماری پھیلانے والے جراثیم بیمار افراد کے جسم میں رہتے ہوئے اپنی افزائش کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور یہ نہ صرف انسانوں میں ہی ہوتا ہے بلکہ وہ تمام جراثیم اور طفیلیے بھی جو انسانوں کے علاوہ جانوروں اور پودوں کو بیمار کرتے ہیں، ان کا بھی یہی طرزعمل ہوتا ہے۔ اس امر کی آسان مثال آکاس بیل ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں گے اس طفیلی پودے کے بارے میں اور اگر نہیں بھی جانتے تو آپ نے کہیں نہ کہیں دیکھا ضرور ہوگا۔

عام پودوں کے برعکس یہ پودا سورج کی روشنی کی مدد سے اپنی خوراک تیار نہیں کرسکتا، لہٰذا یہ دوسرے پودوں کی خوراک چوس لیتا ہے اور اس دوران اپنی بڑھوتری اور افزائش کرتے کرتے اپنے میزبان پودے کو سکھا دیتا ہے۔ اسی دوران اگر بڑھتے بڑھتے آکاس بیل ایک درخت سے دوسرے درخت تک پہنچ جائے یا پھر کوئی اس کا تھوڑا سا ٹکڑا بھی توڑ کر کسی دوسرے صحت مند پودے پر ڈال دے تو اس کا بھی یہی حشر ہونا مقدر ہوجاتا ہے۔ اب ذرا تصور کیجئے کہ آپ کا پھلوں کا باغ ہے اور آپ کا کوئی دشمن اس باغ کے درختوں پر آکاس بیل کے ٹکڑے پھینک دے تو آپ کے باغ کا کیا حال ہوگا۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر میں لگی بوگن ویلیا کی بیل پر کچھ برس قبل کہیں سے آکاس بیل آگئی تھی۔ اس کے خاتمے کےلیے تقریباً پورا ایک سال لگا، جب ہر چھٹی والا دن والد کے ساتھ مل کر بوگن ویلیا میں سے آکاس بیل کو کانٹ چھانٹ کر نکالنے میں گزرتا تھا۔

اچھا اب واپس آتے ہیں حیاتیاتی ہتھیاروں پر۔ آپ جان چکے ہیں کہ یہ جاندار نہ صرف جانی بلکہ بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طور پر ٹھیک ٹھاک مالی نقصان بھی کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ ان کو ماحول میں چھوڑ دیا جائے تو پھر ان کو کنٹرول کرنا نہایت دشوار ہوجاتا ہے اور ان کی ہلاکت خیزی بلاتفریق ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ہتھیاروں کو پوری دنیا میں سختی سے ناپسند کیا جاتا ہے۔ اگرچہ کئی ممالک ماضی میں خفیہ طور پر ایسے ہتھیاروں کی تیاری کےلیے تحقیقی پروگرامز کرتے رہے ہیں اور اب یہی بداعتمادی آپ کو اس وبا کے تناظر میں امریکا اور چین کے درمیان نظر آرہی ہے۔

پاکستان جیسے ممالک کےلیے اس حالیہ وبا کے چند ایک فائدہ مند پہلو بھی ہیں۔ جہاں پوری دنیا کو اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ جیسے قومی دفاع کےلیے ہوائی و بحری جہاز اور ٹینک ضروری ہیں، وہیں صحت کی سہولیات ان تمام اسلحہ کے ذخائر سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ اس وبا کے دوران ایک طرف ہر ملک اپنے قومی صحت کے نظام کو بہتر کرنے اور اس کی استعداد بڑھانے میں مصروف ہے کہ جس سے آنے والے دنوں میں عمومی صحت کی سہولیات میں بہتری آنے کی امید ہے، وہیں آنے والے کل میں صحتِ عامہ کا معیار بھی گزشتہ کل اور آج کے مقابلے میں یقیناً بہتر ہوگا۔ پاکستان میں جہاں ہم ایٹم بم، آگسٹا آبدوز، الخالد ٹینک اور جے ایف 17 تھنڈر تو بنانے کے قابل ہیں لیکن دو ماہ قبل تک کسی کو وینٹی لیٹر بنانے کا خیال تو کجا یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ملک بھر میں کتنے وینٹی لیٹرز موجود اور کتنے فعال ہیں۔

اس وبا کے دوران ملک بھر میں کئی افراد اور ادارے جہاں وینٹی لیٹر کے ڈیزائن اور پرزہ جات کی تیاری کے حوالے سے مصروفِ عمل ہیں، وہیں دوسری بہت سی ضروری اشیا جیسے فیس ماسک اور دیگر حفاظتی ساز و سامان کی ملکی صنعتوں ہی میں تیاری پر بھی کام ہو رہا ہے، جو کہ صنعتی شعبے کےلیے بہتری کی نوید ہے۔ اس وبا کے خاتمے کے بعد یہ سب وینٹی لیٹرز عام مریضوں کے استعمال میں ہی آئیں گے اور یہ حفاظتی ساز و سامان صحت کے شعبے میں کام کرنے والے میڈیکل اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ بہتر تحفظ فراہم کرسکے گا۔ اسی طرح ایک جانب عوام میں بیماری، علاج اور ویکسین جیسے موضوعات کا شعور بڑھ رہا ہے، وہیں اس شعور کو دیگر بیماریوں جیسے پولیو اور خسرہ وغیرہ کے تدارک کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ذاتی طور پر میرے لیے بطور خرد حیاتیات کے ایک طالبِ علم کی حیثیت میں سب سے خوش آئند امر ہمارے نظامِ صحت اور انتظامیہ میں آئندہ کسی بھی وبا سے نمٹنے کی (جزوی ہی سہی) صلاحیت کا حصول ہے۔ آج حکومت، انتظامیہ اور عوام لاک ڈاؤن، قرنطینہ، سماجی دوری اور خودحفاظتی تنہائی جیسے عوامل کے فوائد و اثرات سے واقف ہیں۔ قومی سطح پر مربوط حکمتِ عملی اور بین الصوبائی رابطے کےلیے ایک کمانڈ اور کنٹرول مرکز کا قیام عمل میں آنا مستقبل میں کسی بھی قدرتی یا انسانی تیار کردہ وبا سے نمٹنے کےلیے بروقت اور مؤثر اقدامات اٹھانے میں مفید ثابت ہوگا۔

اس مشکل اور کڑے وقت میں بھی انگریزی محاورے والی سلور لائننگ چمکتی دمکتی نظر آرہی ہے، بس ضرورت ہے تو صرف تھوڑے سے صبر، احتیاط اور کشادہ دلی کی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد ابراہیم رشید شیرکوٹی

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی

بلاگر مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور سائنس کے مختلف شعبہ جات میں ہونے والی پیش رفت، تاریخ اور روزمرہ کے واقعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔