نہر سویز کے معاملے پر امریکا نے مصر پر حملے کی مخالفت کی

عرفان احمد بیگ  اتوار 12 اپريل 2020
1976ء کی عرب اسرائیل جنگ میں شکست کا صدمہ صدرناصر کی موت کا سبب بن گیا‘ اقوام متحدہ کی تاریخ پر معلوماتی سلسلہ

1976ء کی عرب اسرائیل جنگ میں شکست کا صدمہ صدرناصر کی موت کا سبب بن گیا‘ اقوام متحدہ کی تاریخ پر معلوماتی سلسلہ

( قسط نمبر9)

کرہ ارض کے تین حصے سمندر اور صرف ایک حصہ خشکی پر مشتمل ہے۔ اگر دنیا کے نقشے کو دیکھیں تو خشکی کا یہ چوتھائی حصہ عجیب طرح سے سمندورں کے درمیان کٹا پھٹا نظر آتا ہے۔ سمندروں کا پانی ہزاروں جزیروں، جزیرہ نما علاقوں اور ساحل رکھنے والے دنیا کے تقریباً 90 فیصد سے زیادہ ملکوں کو چُھوتا ہے۔ دنیا کے محض پانچ سات فیصد ممالک ہی ایسے ہونگے جن کے پاس اپنے ساحل نہیں یا ایسے ساحل ہیں جو موسم ِ سرما میں شدید سردی کی وجہ سے چھ ماہ سے زیادہ بند رہتے ہیں۔ دنیا میں تمام ساحلوں کی کل لمبائی 1162306 کلو میٹر ہے جس میں بہت سے ممالک ہزراوں جزائر شامل ہیں۔ ساحل کی لمبائی کے اعتبار سے ٹاپ ٹونٹی ممالک اور علاقوں کی صورتحال یوں ہے۔

نمبر 1 کینڈ ا ساحل کی کل لمبائی 202080 کلومیٹر نمبر 2 ناروے 58133 کلو میٹرنمبر3 انڈو نیشیا 54720 نمبر4 گرین لینڈ 44087 نمبر 5 روس 37653 نمبر6 فلپائن 36289 نمبر 7 جاپان 29751 نمبر 8 آسٹریلیا25760 نمبر9 امریکہ 19924 نمبر10 انٹار ٹیکا17968 نمبر11 نیوزی لینڈ15134 نمبر 12 چین 14500 نمبر13 یونان 13676 نمبر14 بر طانیہ 12429 نمبر15 میکسیکو 9330 نمبر16 اٹلی 7782 نمبر 17 بھارت 7516 نمبر18 برازیل7491 کلو میٹر اور نمبر 20 پر ڈ نمارک ہے جس کے ساحل کی کل لمبائی 7314 کلو میٹر ہے۔

اسی طرح دنیا میں ہونے والی تجارت کا90%  حصہ آج بھی بحری جہازوں کے ذریعے ہو تا ہے اوراس اعتبار سے دیکھیں تو ساحلوں کے ساتھ بندر گاہوں کی اہمیت بھی غیر معمولی ہے۔ تجارتی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو اس کے لیے جو پیمانہ بحری جہازوں کے سامان اٹھانے کی گنجائش کی بنیاد پر ہے وہ TEU یعنی ٹونٹی فٹ ایکولنٹ یونٹ کہلاتا ہے اور گذشتہ چار برسوں میںاس لحاظ سے 5.49 ملین سے بڑھ کر اس کا ہجم 5.86 ملین ہوگیا ہے یعنی بیس فٹ بلند ی تک کنٹینروں کو اٹھانے یا لادنے والے جہاز کو یونٹ قرار دیا گیا ہے۔ اس 5.86 ملین یا 58 لاکھ 60 ہزار ٹی ای یوز کی بنیاد پر اِس وقت دنیا کی دس مصروف ترین بندر گاہوں کی درجہ بندی یوں ہے نمبر 1 چین کی بندرگاہ شنگائی TEU سالانہ  37.1، نمبر 2 ۔ سنگاپور 30.9، نمبر 3 ۔شینزہین چین24.0، نمبر 4 ۔ نینگلوزاہوشان 21.6 چین، نمبر5 ۔بوسان جنوبی کو ریا، نمبر6 ۔ 19.9 ہانگ کانگ، 19.8نمبر7 ۔ گوانزاہو ہاربر چین18.9، نمبر8 ۔کوئن ڈو 18.0چین، نمبر9 ۔جبلِ علی عرب امارات 17.0، نمبر10 چین ہی کی ٹیانین بندرگاہ  14.5 ٹی ای یوزہے۔ یہ دس بندر گاہیں کل ٹی ای یوز میںسے 2.20 ملین سمبھالتی ہیں۔ اَن بندر گاہوں کی اہمیت صرف جہازوں سے اتارنے یا لاد ے جا نے والے سامان کی مقدار پر ہے۔

اس لحاظ سے چین سرِ فہرست ہے پھر یہاں یہ بات حیرت انگیز ہے کہ سنگاپور جس کا خشکی کاکل رقبہ صرف 648 مربع کلو میٹر، ساحل کی لمبائی 193 کلو میٹر اور آبادی صرف 46 لاکھ سے کچھ زیادہ ہے، اس ٹاپ ٹن میں دنیا کی دوسری مصروف ترین بندر گاہ ہے۔ لیکن یہاں یہ بات ذہین نشین کر نے کی ضرورت ہے ترقی یا فتہ ممالک کی صف میں شامل ہو نے کے لیے صرف یہی ایک بنیاد کافی نہیں کیونکہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک اپنے ملک کو آلودگی سے بچانے اپنی صنعت و تجارت کوکم سے کم لاگت اور زیادہ منافع کی بنیاد پر فروغ دینے کے لیے پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں سر مایہ کاری کرتے ہیں۔

بہت سے ملکوں کے پاس ساحل نہیں ہیں اور بعض کے پاس اپنی بندر گاہیں نہیں ہیں یا ہیں توسارا سال فعال نہیں رہتیں۔ جو بندر گاہیں مصروف ہیں ان پر خصوصاً ترقی پذیر ملکوں کی بندر گاہوں پر سیاسی اقتصادی طور پر پسِ پردہ اجارہ داری بڑی قوتوں کی ہوتی ہے، اور سب سے اہم یہ کہ بندر گاہوں سے کہیں اہم سمندر وں کے مصروف تجارتی راستے اور اِن کے قریب عسکری دفاعی نظام ہے جس کے تحت یہ راستے محفوظ رہتے ہیں، یوں بندر گاہوں کے ساتھ حقیقت میں مضبوط بحری قوت ہر زمانے میں بہت اہم رہی ہے، بلکہ دنیا میں نو آبادیاتی نظام کا آغاز ہی اُس وقت ہوا جب ایک جانب یورپ اپنے تاریک دور سے نکل آیا اور وہاں علم و تحقیق کی بنیاد پر سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تیزی سے ترقی ہورہی تھی تو دوسری جانب بحری راستوں پر عربوں کے کنٹرول حاصل کر لینے کی وجہ سے ہند وستان کا نیا بحری راستہ دریافت کر نے کے لیے یورپ کے مہم جو ملاح جستجو کررہے تھے جن میں سے اسپین کے کرسٹو فر کولمبس نے 1492 امریکہ دریافت کر لیا اور واسکوڈی گاما نے راس اُمیدکا چکر کاٹ کر ہندوستان کا نیا بحری راستہ دریافت کرلیا۔ اسی طرح جہاز سازی میں بھی جد ت آئی اور برطانیہ ،فرانس ،پرتگال، نیدر لینڈ ،اسپین اور دوسرے یورپی ملکوں نے دنیا کے ملکوں پر قبضہ کر کے نو آبادیا تی نظام قائم کر لیا۔

1945 میں جب دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا ادارہ قائم ہوا تو یہ سیاسی نو آبادیا تی نظام ٹو ٹنے لگااور باد شاہتیں ہچکولے کھانے لگیں۔ اسلامی ممالک خصوصاً عرب ملکوں میںپہلی جنگ ِ عظیم میں ترکی کی سلطنت عثمانیہ ،،خلافت،،کے خلاف عرب امیر اورشیوخ  نے عرب نیشنل ازم کی بنیاد پر عوام کو بغاوت پر آماد کیا تھا اور پھر یہاں مصر ،عراق ،اردن، سعودی عرب ، لیبیا اور دیگر ملکوں میں بادشاہتیں قائم ہو گئیں تھیں اور اسلامی مرکزیت کی بنیاد خلافت کے نظا م کو ترک کر دیا گیا تھا اور پھر جب اسرائیل کے قیام کے بعد 1948 کی جنگ میں مصر سمیت عرب بادہشاہتوں کو شکست ہوئی توخصوصاً مصر ،فلسطین، شام ،عراق،سوڈان وغیر ہ میں ملوکیت کے خلاف عوامی جذبات بھڑک اُٹھے اور پہلے مصر ہی میں 1952 میں انقلاب آیا۔ یہ انقلاب جنرل نجیب اور کرنل جمال ناصر لائے تھے اور شاہ فاروق کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔

15 جنوری 1918 میں پید ہونے والے جمال عبدلناصر نے1938 سے 1952 تک فوجی ملازمت کی پھر انقلاب کے بعد جنرل نجیب کی حکومت میں نائب کے طور پر رہے اور اس دوران بھی وہ عوام میں جنرل نجیب سے زیادہ مقبول تھے 1954 میں اِن کو قتل کر نے کی کوشش کی گئی اور پھر انہوں نے نجیب کو اقتدار سے الگ کر دیا اور 1956 سے وہ باقائدہ منتخب صدر ہو گئے۔ مصر دنیا میں نہ اپنی قدیم تہذیب آثار ِقدیمہ اور الہامی ادیان اور مذاہب کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے بلکہ سمندر اور دنیا کے سب سے طویل دریائے نیل کے اعتبار سے بھی ہمیشہ سے اہمیت رکھتا ہے۔ یہ دونوں ہی مصر کی خوشحالی اور ترقی میں ہزاروں برسوں سے اہم رہے ہیں اور انہی کی وجہ سے دنیا کی دوسری قومیں اور ممالک یہاں اِن وسائل پر قبضہ کر نے کے درپے رہیںسترویں صدی کے آخر اور اٹھارویں صدی کے آغاز پر سمندری سفر کو تیز رفتار کرنے کے لیے جدید جہاز سازی پر بھی توجہ رہی اور ساتھ ہی بحری راستوں کے مختصر سے مختصر کر نے پر بھی توجہ دی گئی یہ سب اس لیے تھا کہ صنعت و تجارت پر لاگت کم سے کم اور نفع زیادہ سے زیادہ ہو۔

یہی وہ دور ہے جب اس حوالے سے انجینیرنگ نے بھی بہت ترقی کر لی تھی1798 سے 1801 تک جب مصر اس حصے پر فرانس کا قبضہ رہا تو نیپولین بو نا پارٹ کا بھی یہ منصوبہ رہا تھا کہ مصر کے دونوں اطراف میں واقع بحیر روم اور بحیر قلزم کے درمیان جو خشکی کا تقریبا200 کلو میٹر سے زیادہ فاصلہ ہے اس کو ایک کشادہ نہر کے ذریعے ملا دیا جائے تو اس طرح مغربی یورپ سے ہندوستان تک کا راستہ 4000 کلو میٹر تک کم ہو جا ئے گا۔ اسکے تقریباً 60 سال بعد 1859 میں یہاں نہرِسوئز کے منصوبے پر کام  شروع ہوااور 1869 میں اس عظیم منصو بے کا افتتاح ہوا یہ نہر محمد سعید پاشا اور فرانسسی انجینئر موسو فرڈینینڈڈیسپ پچاس فیصد اشتراک پر قائم کمپنی نے تعمیر کی تھی اور اُس وقت اس کی تعمیر پر تین کروڑ پاونڈ لاگت آئی تھی یہ وہ دور جب بر طانیہ دنیا کی سپر پاور بن چکا تھا اور اس کی بنیاد اُس کی مضبوط اور طاقتور بحریہ تھی بر طانیہ نہر سوئز کی اہمیت سے واقف تھا اور چاہتا تھا کہ اس نہر پر اس کا کم سے کم برابر کا اثر ہو 1875 بر طانیہ کے وزیر اعظم نے اسرائیلی کمپنی میں مصر کے بہت سے حصص خرید لیئے اور یوں مصر کے حصص برائے نام رہ گئے اور اس طرح برطانیہ بھی نہر کی ملکیت میںحصہ دار ہو گیا۔

یہ نہر بحری رستوں میں کمی کے لحاظ سے دنیا  بھرکی تجارت میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور1888 تک نہر سوئز کی بین الااقوامی حیثیت واضح نہیں تھی اور یہ بھی اہم تھا کہ یہ نہر جنگ اور امن دونو ں زمانوں میں اہم تھی اس لیے1888 میںایک بین الاقوامی معاہدہ ہو ا جس میں یہ طے ہوا کہ جنگ اور امن دونوں صورتوں میں یہ نہر پوری دنیا کے بحری جہازوں کی آمد و رفت کے لیے کھلی رہے گی اور یوں اس کی حفاظت کے بہانے یہاں برطانیہ اور فرانس کی فوجوں کے رکھنے کا جواز مل گیا لیکن نہر کے کناروں کے حوالے سے 1909 تک برطانیہ نے دستخط نہیں کئے تھے، نہر سوئز کی طرح دنیا میں ایک نہر پا نامہ ہے مگر یہ نہر سوئز کے مقابلے میں کم لمبی یعنی 82 کلومیٹر  لمبی اور سوئز کی نسبت کم مصروف نہر ہے اس کی تعمیر 1881 میں شروع ہو ئی 1904 میں یہ امریکہ نے لے لی پانامہ نہر بحراقیانوس اور بحر الکاہل کو ملاتی ہے۔

نہر سوئز پر اگر چہ جنگ اور امن کے زمانوں میں اس کے ہمیشہ کھلے رہنے کا یہ انٹرنیشنل معاہد ہ تھا مگر 1898 میں امریکہ اسپین جنگ،1905 جاپان روس جنگ ،1935-36 اٹلی کی ایتھوپیا میں مداخلت پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران نہر سوئز بحران کا شکار رہی۔ ایسی ہی صورت  1948-49میں پہلی عرب اسرئیل جنگ میں ہو ئی۔ اس نہر سے گذرنے والے جہازوں پر محصولات کی وصولی فرانس اور برطانیہ کی کمپنی کر تی تھی مگر ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ نہرِسوئز میں تجارتی

سر گرمیوں کی وجہ سے مصر میں نہ صرف مقامی آبادیوں کو روزگار ملا بلکہ مقامی آبادیوں میں غیر ملکیوں سے میل ملاپ کی وجہ سے اِن کے سماجی سیاسی شعور میں بھی اضافہ ہوا۔ 1870 میں جب نہر کھو لی گئی تو یہاں سے روزانہ دو بحری جہاز گذرا کرتے تھے اور 1996 میں روزانہ 58 بڑے بحری جہاز یہاں سے گذرا کرتے تھے۔ اب اس تعداد میں کافی اضافہ ہو چکا ہے۔ مصر نہ صرف عرب دنیا کا ایک اہم ملک تھا بلکہ آبادی رقبے کے علاوہ یہاں عوامی سیاسی سماجی شعور کی سطح بھی دیگر عرب ملکوں کے مقابلے میں بلند تھی یوں مصر کے بادشاہ نے نہر سوئز کے معاملے کو تو نہیں چھیڑا البتہ عرب اتحاد کی بنیاد پر عرب لیگ کے قیام کی ابتدا کی اور 22 مارچ1945 کو مصر میں قائم ہونے والے اس عرب اتحاد میں22 مارچ 1945 کو مصر کے علاوہ عراق ،اردن، لبنان،سعودی عرب ،شام اور یمن شامل ہو ئے یہ ابتدائی نوعیت کا اور کسی حد تک دکھاوے کا اتحاد تھا۔

مصر کے بادشاہ نے دریائے نیل پر اصوان ہائی ڈیم کی تعمیر کی بات بھی کی مگر وہ اس پر کسی قسم کی مالی اور تکنیکی امداد بر طانیہ، فرانس یا امریکہ سے حاصل نہ کر سکے۔ پھراسرائیل کے قیام کے فوراً بعد جب اسرائیل نے مصر سمیت عرب ملکوں کی مشترکہ فوج کو ذلت آمیز شکست دی تو حقیقتاًعرب عوام کے دلوں میں بہت غم وغصہ تھا اور مصر کے عوام جن کا سیاسی سماجی شعور زیادہ بلند تھا انہوں نے1952 میں شاہ فاروق کا تخت الٹنے اور فوجی انقلاب کی بھر پور حمایت کی اور جب اقتدار 1956 میں مکمل طور پر مقبول انقلابی لیڈر کرنل جمال عبدالناصر کے پاس آیا تو اُنہوں نے واقعی انقلابی نوعیت کے اقدامات کئے۔ اگرچہ 1956 مصر میں صدرجمال ناصر کی بطور مقبول عرب قوم پرست لیڈر کے ابھرنے اور عرب دنیا پر چھا جانے کا سال تھا لیکن یہ سال ہی دنیا میں سرد جنگ کے حوالے سے بڑی قوتوں اور اقوام متحدہ کی آزمائش کا سال بھی تھا۔

اُس وقت دنیا میں اشتراکی نظریات کے ساتھ اپنے اپنے ملکوں میں نیشنل ازم یعنی قوم پرستی کے نظریات ایک خاص رومانیت رکھتے تھے اور اِن کی مکمل کشش مرکزی اور مشرقی یورپی ممالک کے علاوہ چین کوریا ،اور کیوبا جیسے ملکوں میں انقلاب کا سبب بن چکی تھی لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے نو آبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے والے مسلم اکثریت کے کسی بھی ملک میں اس طرح کا کوئی انقلاب نہیں آسکا تھا جس میں عوام کی اکثریت نے اشتراکیت اور نیشنل ازم کی خاطر اسلامی عقائد و نظریات کو ترک کر دیا ہو یوں جب صدر جمال ناصر نے عرب قوم پرستی کی بنیاد پر مقبولیت حاصل کی تو خود کو اور مصر کی خارجہ پالیسی اور سیاست کو متوازن اوربڑی قوتوں کے لحاظ سے غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کی، البتہ بطور لیڈر اُن سے سیاسی بیانات دینے اور امریکہ برطانیہ فرانس اور روس کے درمیان تعلقات کو متوازن نہ رکھنے کی غلطیاں سرزد ہوئیںجہاں تک بیانات کا تعلق ہے تو اُن سے عرب قوم پرستی اور اپنے مصری ہونے کے فخر کے اعتبار سے یہ بیان منصوب کیا جا تا ہے کہ ایک بار انہوں نے کہا کہ،،ہم مصری باشندے فروعین کی اولاد ہیں‘‘ جمال ناصر یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ہم حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام کی اولادوں میں سے ہیں۔

جمال ناصر نے اپنی مقبولیت کے دور میں مصر میں اخوان المسلمین اور دیگر مذہبی جماعتوں اور ان سے وابستہ شخصیات کے خلاف شدید کاروائیاں کیں اور بطور انقلابی لیڈر مصر میں بادشاہت کے بعد جمہوریت کی بجائے آمریت کو فروغ دیا، مگر اِ ن تمام باتوں کے باوجود یہ بھی حقیقیت ہے کہ جمال عبدالناصر بیسویں صدی میں اُبھرنے والے ایک بڑے اور مقبول لیڈر تھے جنہوں نے اُس وقت بڑی قوتوں کے درمیان عرب دنیا سمیت پوری دنیا کے پسماندہ اور ترقی پزیر ملکوں میںعوامی حمایت سے غیر جانبداری اور مقامی قوم پرستی کی بنیادوں پر مکمل آزادی کی خواہش کو نہ صرف عام کیا بلکہ مصر کی بنیاد پر عرب دنیا میں اس کے لیے بھر پور کو شش بھی کی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 1948 میں عرب اسرئیل جنگ کے بعد جو عرب قوم پرستی اُبھر ی اس میںسر زمین عرب پر پیدائش کے اعتبار سے اور زبان و نسل کی بنیاد پر قوم پرستی کے نظریات کی وجہ سے اُس وقت عیسائی عربوں کی ایک بڑی تعداد عرب مسلمان قوم پر ستوں کے ساتھ تھی اور اس رحجان میں سابق سویت یونین کی جانب سے کیمونزم کے عالمی نظر یات کا تڑ کا بھی لگا یا گیا تھا۔

عرب دنیا میں صدر ناصر کے زمانے سے لے کر اب تک عیسائی آبادی کا تنا سب کچھ اس طرح سے رہا ہے بحرین جو قدیم زمانے سے عیسائیوں کے لیے اہم مذہبی مرکز رہا ہے یہاںعیسائی آبادی کا تنا سب 14.5% ہے اور یہاں عیسائیوں کی کل تعداد 205000 ہے،لبنان میںپہلے عیسائی آبادی کا تناسب 40% سے کچھ زیادہ تھا آج یہاں مسلم آبادی 61.1% اور عیسائی آبادی 33.7% ہے اُردن میں بیسویں صدی کے وسط تک عیسائی آبادی کا تناسب 18% تک تھا، اب یہ تنا سب 6% تک بتا یا جاتا ہے واضح رہے کہ اُردن کی آبادی اب ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔

عراق میں 2003 تک 7% عیسائی آبادی تھی جس کی کل تعداد 15 لاکھ کے قریب تھی اب عراق کی تقریباً چار کروڑ کی آبادی میں2% عیسائی ہیں شام کی آبادی میں 1960 تک عیسائی آبادی کا تناسب15% تھا جو بارہ لاکھ کے قریب تھی اب تناسب کم ہوکر 11.2% رہ گیا ہے اور یہاں کل عیسائی آبادی 25 لاکھ بتائی جاتی ہے فلسطین ا تھارٹی کے حالیہ علاقے میں 1990 تک 173000 عیسائی آباد تھے اب تعداد 75 ہزار ہے مصر جو مشرقِ وسطٰی میں سب سے بڑا ملک مصر ہے جس کا رقبہ 1010408 مربع کلو میٹر اور آبادی 1947 میں 18967000 تھی اور 14% آبادی عیسائی تھی آج مصر کی کل آبادی10 کروڑ سے زائد ہے اور اس میں عیسائی آبادی کا تناسب 10% ہے جب کہ اسرائیل کی آبادی میں پہلے مسلم آبادی کا تناسب زیادہ تھا اب یہاں کی آبادی میں75% یہو دی 17.5% مسلمان 2% عیسائی اورباقی دیگر ہیں یوں جب یہاں عرب نیشنل ازم کو ناصر نے فروغ دیا تو یہ ہوا کہ اِ ن عرب عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد نے عرب قوم پرستی میں عملی طور پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف ناصر کے موقف کا ساتھ دیا جب کہ بہت سے عیسائی اُن کے ساتھ نہیں تھے اسی طرح اسرائیلی جاریت کے خلا ف جد وجہد میں مسلم علما اور تنظیمیں تو ناصر کی جدو جہد کے خلاف نہیں تھیں مگروہ اِن نظریات کو اسلام کے خلاف سمجھتے تھے اس لیے یوں اُن علما کے مطابق اگر اسلامی عقائد سے انحرف ہو تو پھر اس طرح کالائحہ عمل جا ئز نہیں ہوتا ساتھ ہی صدر ناصر نے اپنے نظریات کو مذہبی عقائد پر بھاری رکھنے کی کوشش کی اور اس کے لیے طاقت استعمال کی۔

عرب دنیا میں ناصر کی مقبولیت اس وجہ سے بھی تھی کہ وہ بادشاہتوں کے خلا ف تھے مشرق وسطٰی میں اُن کی اس مقبولیت سے امریکہ ،فرانس ، برطانیہ بھی اپنے مفادات حاصل کر نا چاہتے تھے اور دوسری جانب سابق سویت یونین تھی جس نے کو ریااور ہنگری میں آزاد مارکیٹ کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام معیشت اور جمہوریت کے حامی بڑی قوتوں کو سرد جنگ کے محاذ پر شکست دی تھی۔ وہ عرب دنیا میںناصر کے تعاون سے امریکہ برطانیہ ،فرانس کو نیچا دکھانا چاہتے تھے اور اس اعتبار سے سویت یونین میں اسٹالن کے بعد خروشف نے کہیں زیادہ جارحانہ انداز اختیار کیا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ایک تیسر اگروپ دنیا میں تشکیل پا رہا تھا جو غیر وابستہ ممالک کی تحریک یعنیNon Aligned Movement کہلا ئی اور اس کے لیے بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے 1953 سے کام شروع کردیا تھا۔ جوہر لال نہرو، صدر جمال ناصر اور مارشل ٹیٹو اس تنظیم کے اہم رہنماوں میں شامل تھے۔  صدر ناصر اس تنظیم کے 1964 سے1970 تک صدر بھی رہے اس میںشروع میں چین کے چواین لائی اور انڈونیشیا کے صدر سیکارنو نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

صدر ناصر نے مصر میں دریائے نیل پر ہائی اسوا ن ڈیم کے منصوبے پر کام شروع کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا ڈیم تھا جس سے دریائے نیل کے مصری ڈیلٹا میں خو شحالی اور ترقی آنی تھی۔ اس ڈیم کی بلندی 111 میٹر، لمبائی3830 میٹر، چوڑائی 980 میٹر اور اس ڈیم کی جھیل کا رقبہ 132 مربع کلو میٹر ہے۔ ڈیم کی تعمیر سے بجلی کی پیداوار کے ساتھ لاکھوں ایکڑ رقبہ سیراب ہو نا تھا۔ دسمبر1955 میں اس کی تعمیر کے لیے امریکہ نے 56 ملین ڈالر اور برطانوی نے14 ملین ڈالر امدادی قرضہ دینے کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ ناصر عرب قوم پرست لیڈر تھے مگر وہ کیمونزم کی جانب مائل نہیں تھے اور اسرائیل کے مقابلے میں مصر سمیت عرب دنیا کے مفادات کو عزیز رکھتے تھے۔ وہ اسرائیل کے مقابلے میں مصر کو بھی ایک مضبوط دفاعی قوت بنا نا چاہتے تھے کیونکہ مصر علاقہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اُنہوں نے اس مقصد کے لیے امریکہ سے بھی اسلحہ کی خرایداری کیبات چیت کی امریکی صدر آئزن ہاور اور سیکرٹری آف اسٹیٹ جان فاسٹر ڈولسJohn Foster Dulles نے کہا کہ امریکہ مصر کو اسلحہ فراہم کر نے کے لیے تیار ہے مگر اس کے لیے یہ شرائط ہیں کہ یہ اسلحہ صرف مصر کے دفاع کے لیے استعمال ہو گااور ساتھ ہی مصر میں امریکی ماہرین اس اسلحہ کے استعمال کی ٹرینگ دیں گے اور نگرانی کر یں گے۔

یعنی یہ واضح تھا کہ مصر اسرائیل کی مخالفت اورتنقید بند کرے اس پر صدر ناصر نے سویت یونین سے اسلحہ کی خریداری کی بات چیت شروع کر دی۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ڈولس کا خیال تھا کہ ناصر عرب قوم پرست اور غیر جاندار لیڈر ہے اور وہ سیاسی طور پر امریکہ کو  بلف کر رہا ہے لیکن ناصر جواس بات پر آمادہ نہیں تھے کہ وہ اسرائیل کے خلاف اسلحہ نہ استعمال کرنے کی شرط پر اور صرف مصر کے دفاع کے لیے اسلحہ خریدیں۔ یوں27دسمبر 1955 کو ناصر نے چیکوسلاواکیہ سے اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کرلیا جو بطور ایجنٹ سویت یونین اور مصر کے درمیان کردار ادا کر رہا تھا اس پر برطانیہ نے اپنی طرف سے اسوان ڈیم پر امداد روکنے کا اعلان کر دیا۔

اس پر صدر جمال ناصر نے نہر َسوئز پر قبضہ کر کے اسے قومی ملکیت میں لینے اعلان کر دیا۔ سوئز بحران پر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے 13 اکتوبر1956 کو ایک قرارادا پیش ہو ئی اُس وقت سیکوررٹی کونسل میں مستقل اراکین امریکہ برطانیہ ، فرانس سویت یونین ،چین تائیوان، کے علاوہ غیر مستقل اراکین آسٹریلیا ، بلجیم،کیوبا،ایران،پیورو،اور یو گو سلاوکیہ تھے اس قراددا میں درج ذیل شرائط تھیں نمبر1 ۔مصر کی خود مختاری کا احترم کیا جائے نمبر2 ۔نہر سوئز جہازوں کے استعمال کے لیے آزادانہ بغیر کسی سیاست کے کھولی جائے نمبر 3 ۔نہر میں جہاز رانی کو ہر ملک کی سیاست سے دور رکھا جائے نمبر4 ۔ سوئز کنال پر ٹول محصولات کا تعین مصری حکومت اور نہر کے استعمال کر نے والوں کے درمیان طے ہوگا نمبر5 ۔کرایے کا ایک حصہ تعمیرات کے لیے استعمال ہو گا۔ نمبر6 ۔ اگر نہر سوئز پر معاملات میں کوئی تنازعہ ہوا تو مصر کی حکومت سے مصالحت کی بنیاد پر رقوم کی ادائیگی طے کی جائے گی۔ نہر سوئز پر قبضے اور سویت یونین سے اسلحہ کی خریداری کے باوجود امریکہ کا رویہ درشت نہیں ہوا بلکہ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے مصلحت سے کام لیا اور فوری طور پر صدر ناصر کے خلا ف کو ئی کاروائی نہیں کی۔

لیکن برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کے ساتھ مل کر مصر پر حملہ کردیا۔ اَن کا موقف یہ تھا کہ مصر میں صدر جمال ناصر کو اقتدار سے ہٹا دیا جائے۔ مصر کی طرف سے سربراہ اور کمانڈر صدر جما ل ناصر تھے اسرائیل کی جانب سے ڈیویڈ بی گوری آن اور جنرل موشے دیان ،برطانیہ کے وزیراعظم اُسوقت سراینتھنی ایڈن ، جب کے کمانڈر جنرل ٹمپل تھے۔ فرانس کے صدر Rone Coty رونی کوٹے تھے اس  جنگ میں مصر کی تین لاکھ فوج کے مقابلے میںاسرائیلی فوج کی تعداد 175000 بر طانیہ کی فوج 45000 اور فرانس کی34000 تھی یہ جنگ 29 اکتو بر سے1956 سے7 نومبر1956 تک ایک ہفتہ دو دن جاری رہی اور مصر کا سینا کا علاقہ غازہ کی پٹی سوئز کنال کا علاقہ میدان جنگ بنا رہا۔ اس جنگ میں 3000 مصری فوجی اور 1000 سویلین جاں بحق 4900 زخمی ہوئے اور 30000 جنگی قیدی بنائے گئے۔ اسرائیل کے172 فوجی ہلاک 817 زخمی برطانیہ کے 16 فوجی ہلاک 96 زخمی فرانس کے 10 فوجی ہلاک اور 33 زخمی ہوئے 5 نومبرکو برطانیہ نے نہر سوئز پر اپنے جدید طیاروں سے چھاتہ بردار فوج اتار کر علاقے کو قبضے میں لے لیا۔ جب کہ امریکہ کے صدر آئزن ہاور نے برطانیہ کو شدید انداز سے انتباہ کیا کہ وہ فوراً اپنی فوجیں مصر کے علاقے سے نکال لے ورنہ امریکہ بر طانیہ کے خلاف شدید اقتصادی نوعیت کے اقدمات کرئے گا۔ جس پر مارچ 1957 تک برطانیہ فرانس اور اسرائیل کی فو جیں واپس ہو گئیں۔ نو آبادیا تی نظام سے لیکر 1956 تک یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کسی قوت نے بر طانیہ کو دھمکی دی تھی۔

یہاں یہ نکتہ بھی مد نظر رہے کہ امریکہ کی جانب سے واضح اعلان تھا کہ اب بر طانیہ سپر پاور نہیں رہا۔ ا س جنگ کے فوراً بعد کنزرویٹو پارٹی کے وزیر اعظم سر اینتھنی ایڈن اپنی ناکامی کی وجہ سے استعفٰی دے دیا۔ وہ بر طانوی سیاست میں بہت اہم شخصیت تھے اور بر طانیہ کی بر تری کے لیے ہمیشہ سخت موقف رکھتے تھے۔ وہ 1938 میں جب وزیر خارجہ تھے تو وزیر اعظم چیمبرلین کی ہٹلر نواز پالیسوںکے خلاف احتجاجاً مستعفٰی ہو گئے تھے یوں اگر چہ جدید فوجی ساز و سامان کے بل بوتے فرانس، بر طانیہ اور اسرائیل کی افواج نے فتح حاصل کی تھی مگر سیاسی طور پر اس سے صدر ناصر کو بے پنا ہ فائد ہ پہنچا اور اُن کی مقبولیت میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا۔ یہاں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ اُس وقت امریکہ کی پالیسی فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے آج کے مقابلے میں کا فی حد تک مختلف تھی اور غالباً امریکہ یہاں مصر اور اسرائیل کے حوالے سے کوئی ایسی مفاہمت چاہتا تھا جس کی وجہ سے یہاں کم از کم اُس وقت امن رہتا۔

کچھ دن بعد مصر نے چین کو تسلیم کر لیا اس پر امریکی سیکرٹر ی آف اسٹیٹ ڈولس ناراض ہوئے اور پھر امریکہ نے بھی 56 ملین ڈالر کا امدادی قرضہ یہ کہہ کر روک دیا کہ اب یہ امریکہ کے مفاد میں نہیں۔اب سویت یونین نے مصر کو اسوان ڈیم کی تعمیر کے لیے قرضہ فراہم کیااور ساتھ ہی ٹیکنکل امداد دی یوں مصر اگرچہ خود کو غیرجاندار ہی تصور کر تا رہا مگر حقیقت میں اب مصر امریکہ برطانیہ فرانس سمیت مغربی دنیا کی نظر میں سویت یونین کا طرفدار ملک بن چکا تھا اور سرد جنگ میں اب مصر کی حیثیت ان کے دشمن کی سی تھی۔ آنے والے دنوں میں لیبیا، سواڈان،مراکش  کویت، الجزائر اور صدر ناصر کی وفات کے بعد متحدہ عرب امارت،بحرین،قطر،عمان بھی عرب لیگ میں شامل ہو ئے۔

ماریطانیہ 1973 میں ریاست فلسطین کی تنظیم پی ایل اوکی بنیاد پر شامل ہوا۔ یہیں سے عرب قوم پرستی کی بنیاد پر ایک اہم لیڈر جارج حبش تھے جو عرب لیکن عیسائی تھے۔ وہ اُس وقت انتہا پسند تھے اور اُن کی تنظیم کانام پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف پیلسٹائن تھا۔ جار ج حبش کی سربراہی میں 1960 کی دہائی میں PFLP بنائی گئی اور اسرائیل کے خلاف پر دہشت گردانہ انداز کے حملے کئے گئے۔ جارج حبش یاسر عرفات کے خلا ف تھے اور اُن کی جانب سے فلسطین اور اسرائیل کے دو ریاستی مذاکزات کے شدید مخالف تھے۔ حبش کو باوجود کوششوں کے اسرائیل امریکہ اور دیگر ممالک گرفتار نہیں کر سکے۔ وہ 80 سال کی عمر میں2008 کودل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔

اس موقع پر بھارت کے وزیراعظم پنڈت جو ہر لال نہر جو ایک ماہر سیاست دان تھے انہوں نے غیر جانبدارانہ ملکوں کی تنظیم کے پلیٹ فارم سے عالمی سطح پرخوب سیاست کھیلی۔ وہ اقوا م متحدہ کی سیکورٹی کو نسل میں 1948-49 میں کشمیر پرجنگ بندی کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے اور خود سیکورٹی کو نسل سے یہ قراداد یں منظور کروائیں تھیں کہ کشمیر کا  فیصلہ رائے شماری کی بنیاد پر خودکشمیرکے عوام کر یں گے۔ اس کے بعد وہ شروع کے برسوںمیں رائے شماری کے لیے حیلے بہانے کر تے رہے اور پھر ریاست میں سیاسی اصلاحات اور انتخابات کرکے قرارددوں سے منحرف ہو گئے۔ اس دوران غیر جانبدارانہ ملکوں کی تحریک میں اہم حیثیت رکھنے اور صدر جمال ناصر کی دوستی کی بنیاد پر انہوں نے مشرق وسطٰی کے ملکوں کو اقوام متحدہ میں پاکستان کی کھلی حمایت سے باز رکھا۔ دوسری جانب انہوں نے صدر ناصر کے مقابلے میں بہت خوبی سے سویت یونین اور امریکہ سے تعلقات کو متوازن اور بھارت کے حق میں رکھا اور ساتھ ہی چین سے بھی اُنہوں نے تعلقات اسٹالن کے دور تک بہتر رکھے۔

سوویت صدر خروشیف نے عالمی سطح پر اُس وقت چین کی کمزور سیاسی پوزیشن کے تحت چین جیسے بڑے ملک کو بھی ہنگری رومانیہ وغیرہ کی طرح قابو کرنے کی کو شش کی جب کہ چین کے علاقائی سرحدی اعتبار سے سویت یونین سے کچھ مسئلے بھی تھے اور پھر یہی مسائل بڑھے اور تنازعات کی صورت اختیار کر گئے۔ اس کشیدگی سے بھارت نے غیر جانبدارانہ ممالک کی تنظیم کے بنیادی فلسفے انحراف کر تے ہوئے صرف بھارتی مفادات کی خاطر چین سے دشمنی مول لی اور 1962 میں چین سے جنگ کی۔ اُس وقت بھارت نے امریکہ برطانیہ فرانس اور دیگر مغربی ملکوں کو یہ باور کر وایا کہ بھارت سیکولر اور جمہوری ملک ہے جو آزادانہ معاشی اقتصادی نظام کے تحت دنیا کے تمام ملکوں سے غیرجانبداری کے ساتھ تعلقات رکھتا ہے۔ دوسری جانب سویت یونین اپنی چودراہٹ کے لئے چین کی خود مختاری کو تسلیم نہیں کرتا تھا ورنہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک کے لیے سرحد علاقائی تنازعہ کو تھوڑے سے رقبے کی بنیاد پر حل کیا جا سکتا تھا۔ بھارت نے بھی یہی کیا اور امریکہ کو خوش کر نے کے لیے تبت کے مذہبی رہنما دلائی لامہ کو بھارت میں چین کے خلاف سیاسی پناہ بھی دے دی۔ اگر چہ 1962 میں بھارت کوچین نے جنگ میں شکست دی اور لداخ میں چند ہزار مربع کلو میٹر رقبہ  بھارت سے چھین لیا مگر عالمی تعلقات کے اعتبار سے نہر و نے امریکہ اور سویت یونین سے بھی فائد ہ حاصل کیا اور غیر وابستہ ممالک کی تنظیم کے پیلٹ فارم سے مشرق وسطٰی میں پاکستان   کو کشمیر پر حمایت سے محروم کر دیا۔

14 جولائی 1958 میں عراق میں بھی بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا اور اس کے پس منظر میں بھی صدر ناصر کا عرب نیشنل ازم تھا اس کے بعد ناصر کی مقبولیت کی وجہ سے عرب قوم پرستی کو مزید فروغ ملا۔ سوڈان شام ، لبنان ،لیبیا اور دیگر ملکوں میں بھی عرب نیشنل ازم کی بنیا د پر اسرائیل کی مخالفت پُر جوش ہو گئی۔ دوسری جانب اب امریکہ ،بر طانیہ اور دیگر مغربی ملکوں کی سپورٹ اسرائیل کے لیے بہت بڑھ گئی اور ناصر جو ایک فوجی کمانڈر بھی تھے اور بطور فوجی افسر اُن کے پاس 1948-49 کی پہلی عرب اسرائیل جنگ اور پھر 1956 میں نہر سوئز پر ہونے والی جنگ کا تجر بہ بھی تھاوہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ سے پہلے اس پورے تناظر میں مصر کے دفاع کے لیے اقدامات سے بے خبر رہے کہ اسرائیل کی جنگی تیاریاں کیسی ہیں۔ جب 1967 کی عرب اسرائیل جنگ ہو ئی تو اسرائیل نے مصر سمیت اردن، شام ، لبنان سے کو عبرت ناک شکست دی۔ مصر کی فضائی قوت پہلے ہی حملے میںمکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ سویت یونین یہاں عجیب کردار ادا کر رہا تھا وہ ایک جانب تو امریکی بر طانوی مفادات کے مقابلے میں سویت یونین کے مفادات کا تحفظ کر رہا تھا تو ساتھ ہی اُسے اسلامی ملکوں میں کیمونزم کامکمل نفاذ دکھائی نہیں دتیا تھا اس لیے وہ ان مسلم اکثریت رکھنے والے ملکوں کو  فوجی اور اقتصادی طور پر بہت مضبو ط اور خود انحصار نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔

یہ شکست صدر ناصر کے لیے بڑا جھٹکا تھی۔ وہ مستعفٰی ہو نا چاہتے تھے مگر عوام نے اُنہیں ایسا نہ کرنے دیا مگر یہی غم تھا کہ اس جنگ کے تین برس بعد 28 ستمبر1970 کو صرف 52 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اُن کے انتقال پر افسوس کرتے ہو ئے چین کے چواین لائی نے کہا تھا کہ عالمی بے حسی اور فریب کے غم نے ناصر کو وقت سے پہلے ماردیا۔ غالباً اُن کا اشارہ اُس وقت بھارت اور سابق سویت یونین کی جانب تھا، اگر چہ وفات سے پہلے وہ سابق سویت یونین سے دوٹوک انداز میں بات چیت کر کے روسی سام میزائل مصر کے دفاع کے لیے حاصل کر گئے تھے اور پھر 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسی سام میزائل کی وجہ سے مصر کی پوزیشن اچھی رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے ذولفقار علی بھٹو سعودی عرب کے شاہ فیصل اور لیبیا کے کر نل معمر قدافی نے اسلامی سربراہ کانفرنس کی بنیاد پر اہم کرادر ادا کر تے ہو ئے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا تھا۔

آنے والے دنوں میں اسرائیل ،امریکہ ،برطانیہ ،فرانس، بھارت اور دیگر ممالک کی بہتر منصوبندی سے نہ صرف افغانستان میں پا کستان کی مدد سے سویت یونین کو شکست فاش دی بلکہ سنٹرل ایشیا کے ممالک کی آزادی کے باوجود عراق ،ایران ،کویت جنگ اورپھر عراق ، شام ،سوڈان ،لبنان،افغانستان ،پاکستان میںخصوصاً 2001 کے بعد سے جو تباہی مچی وہ آج تک جاری ہے یوں1956 میںاقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل کی قرادادنمبر118 کے ساتھ قراداد  نمبر121-120-117-116-115-114-113-112-111 بھی پوری دنیا کے اعتبارسے اہم تھیں مگر صدر جمال ناصر نہر سوئز کے بحران پر مصر کی سیاسی فتح کو مستحکم اور مستقل نہ بنا سکے۔ اگر جمال عبد الناصر واقعی متوازن انداز میں اور غیر جاندار پالیسی کے تحت بھارت کے بجائے چین کے ساتھ مل کرامریکہ اور سویت یونین کے ساتھ معاملات طے کرتے اور دونوں قوتوں پر واضح کردیتے کہ وہ سرد جنگ میں کسی فریق کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ صرف عرب دنیا کے ساتھ ہیں تو ممکن تھا کہ وہ علاقے میں اسرائیل کی بڑھتی ہو ئی قوت کو بغیر جنگ کے روک لیتے، مگر انہوں نے اپنا پورا جھکاؤ  سویت یونین کی طرف کر دیا جس نے اُنہیں 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں بڑا دھوکہ دیا۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔