آپ کی دنیا کیسی ہے؟

شیریں حیدر  اتوار 12 اپريل 2020
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

آپ کی دنیا کیسی ہے؟ عجیب سا سوال لگتا ہے ؟ سمجھ میں نہیں آیا تو میں آپ کو بتاتی ہوں کہ میری دنیا کیسی ہے۔

میری دنیا مستطیل شکل کی ہے، اس کا رنگ کاربن کی طرح کالا ہے، جسے جیٹ بلیک کہتے ہیں۔ اس کا وزن 184 گرام ہے اور اس کا سائز پونے تین بائی ساڑھے پانچ انچ ہے… یہ میری دنیا ہے اور میری دنیا ہر وقت میرے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اسی طرح آپ سب کی دنیا بھی آپ کے اپنے اپنے ہاتھ میں ہے۔

جی ہاں ، صحیح سمجھے، میری مراد آپ کے ہاتھ میں تھامے ہوئے ٹیلی فون سے ہی ہے۔ اب یہ ہمارا سب کچھ ہیں، اسی لیے میں نے اسے سب کو پوری دنیا کہہ رہی ہوں ، کیونکہ اس نے ہماری زندگیوں میں ہر پہلو سے اتنی اہمیت اختیار کر لی ہے کہ ہمارا اس کے بغیر ایک لمحہ بھی گزارا نہیں ہے۔ ہم اس پر اس قدر انحصار کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے دماغ کو استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے ۔

خود میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ پہلے جہاں کہیں دماغ الجھتا تھا کہ فلاں لفظ کو اردو میں یا انگریزی میں کیا کہتے ہیں، فلاں لفظ کا اور کیا متبادل ہو سکتا ہے یا متضاد کیا، جہاں لکھتے ہوئے ذہن ایسی کسی بات پر الجھتا تو کمپیوٹر کو چھوڑ کر، کتابوں والی الماری سے لغت نکال کر اس پر ریسرچ ہوتی اور پھر تسلی کر کے واپس کام ہوتا تھا۔ اب سارا نظام بدلا ہے تو آسانی، بلکہ سستی کی انتہا ہو گئی ہے۔ جہاں کچھ سمجھ میں نہ آرہا ہو، وہاں فون اٹھاؤ اور Google سے پوچھ لو، ورنہ ایک پیغام بھیج کر پوچھ لیتی ہوں ، جواد بھائی، اس شعر کا پہلا مصرعہ کیا ہے، یہ شعر کس کا ہے، کس بادشاہ نے شاہی قلعہ بنوایا تھا… وغیرہ۔جب یہ نہیں تھا تو میرے تھیلا نما پرس کا وزن لگ بھگ دو کلو ہوتا تھا، مجھے یقین ہوتا تھا کہ جہاں کسی کو کسی بھی چیزکی ضرورت پڑے گی، وہ میری زنبیل سے نکل آئے گی۔

اس میں سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کہ اب بھی ہوتی ہیں، مثلاً قینچی، نیل کٹر، ٹشو پیپر، پرفیوم، لوشن، دو ایک ٹافیاں اور میرا چھوٹا پرس جس میں میرا شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور کچھ رقم ہوتی ہے۔ اس سے قبل وہ چیزیں جو میرے بیگ میں ہوتی تھیں اور اب نہیں ہوتیں ، ڈائری، پین اور پنسل، کیلکولیٹر، کیمرہ، ٹیلی فون نمبروں کی چھوٹی ڈائریکٹری۔ یہ چیزیں میر ے پرس سے کم ہوئی ہیں اور اس ایک سو چوراسی گرام کے فون میں ہر چیز سمٹ کر آ گئی ہے۔ مجھے اے ٹی ایم سے رقم نکلوانا ہو تو اس کے لیے بھی مجھے اے ٹی ایم کارڈ کی ضرورت نہیں پڑتی۔

ہم سب کی زندگی سے کیلنڈر، جنتریاں، کیمرے، ڈکشنریاں ، البم، وی سی آر، میوزک سسٹم، اٹلس، ٹیلی فون ڈائریکٹری، گھڑیاں، کتابیں، ڈائریاں، جہازوں اور ریل گاڑیوں کے اوقات کی کتابیں، سحری اور افطاری کے اوقات کے کیلنڈر، اخبار، رسالے، اور ان کے علاوہ بھی جانے کتنا کچھ منہا ہو گیا ہے، بلکہ یہ سب کچھ سمٹ کر آپ کی ہتھیلی پر آ گیا ہے۔ اتنا سب ہوا ہے مگر نقصان یہ کہ فاصلے سمٹے بھی ہیں اور بڑھے بھی۔ اس کے فوائد ہیں ، ان کے لیے جو اسے کسی فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیں اور نقصانات بے شمار ہیں، اس کے زیادہ اور غلط استعمال کے باعث۔ میرے فون پر جو چیز سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے وہ ہے  Whatsapp یقینا آپ سب کے فون پر بھی ایسا ہی ہو گا۔

ون ٹو ون رابطوں کے علاوہ اس کے بے شمار گروپ ہیں جن میں میں بھی شامل ہوں، اس لیے دن بھر اس پر ’’ ٹرنگ ٹرنگ ‘‘ ہوتی رہتی ہے۔ ایک پورے خاندان کا گروپ ہے، ایک سسرالی خاندان کا علیحدہ، ننہیالی اور دودھیالی خاندان کے علیحدہ علیحدہ ( آخر کئی باتیں ہوتی ہیں جو بندہ ہر کسی کے سامنے نہیں کر سکتا) ، ایک گروپ ہماری کٹی پارٹی والی سہیلیوںکا ہے۔ ایک گروپ اپنے سکول کے زمانے کی سہیلیوں کا ہے اور دوسرا کالج کے زمانے کی۔ ایک گروپ وہ ہے جن سہیلیوں کے ساتھ سکول سے لے کر کالج کے زمانے تک بہت دوستی تھی اور وہ آج تک قائم ہے، (ان دوستو ں سے بندہ ہر قسم کی بات کر سکتا ہے، خواہ وہ دوسری سہیلوں کی شکایتیں ہوں، ان کی بے رخی کے قصے، ان کی زندگی کی مصروفیات یا ان کی کراری خبریں ، خاوندوں کی شکایتیں یا بچوں کی حکایتیں ، بچوں کے مسائل یا ساسوں اور نندوں کی بد خوئیاں )۔

ایک گروپ ایسا ہے جس میں ہمارے سارے بچے، ان کے جیون ساتھی اور ہم شامل ہیں۔ ایک گروپ ایسا بھی ہے جس میں صرف ہم اور ہمارے بچے ہیں، ( کئی باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو وہ اپنے جیون ساتھیوں کے سامنے نہیں کہہ سکتے ) اور ایک گروپ ایسا ہے جس میں صرف میں اور میری بیٹیاں ہیں۔ ایک گروپ میں ہم سارے بہن بھائی ہیں، اس گروہ میں ہمارے خاوند اور بھائیوں کی بیویاں شامل نہیں، اس کے علاوہ ایک گروپ ایسا ہے جس میں صرف ہم ساری بہنیں شامل ہیں، ( اس گروپ کو ہم بھائیوں اوربھابیوں کے خلاف باتیں کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ) اور ایک اور گروپ ہے جس میں ہم گھر کے چار لوگ ہیں ۔

میرے فون پرسب سے زیادہ استعمال ہونے والا گرو پ آخر الذکر گروپ ہی ہے اور یہ گروپ ہر گھر کی ضرورت ہے ۔ اس پر ہمارے پیغامات کا سلسلہ دن بھر چلتا رہتا ہے۔ ’’بچو، نیچے آ کر ناشتہ کر لو، ماما، موٹر چلا دیں ، بیوی تولیہ لانا بھول گیا ہوں ، ماما آج ڈنر میں کیا پکے گا، کوئی میرے کپڑے استری کر کے میرے غسل خانے کے دروازے کے باہر لٹکا دے، کسی نے گیٹ بند کیا کہ نہیں، ناصرہ بیٹا نیچے آ کر چائے بنا دیں، میں بازار جا رہا ہوں کسی کو کچھ چاہیے ہو تو بتائیں، کسی کے پاس اس وقت نقد دس ہزار ہیں تو دے دیں میں آن لائن ٹرانسفر کر دوں!‘‘

فون نے ہمارے درمیان جو خطرناک دوریاں پیدا کر دی ہیں، ان کی ایک مثال میں یہاں دیتی ہوں جس نے مجھے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔  No news is a good news کی مثال ہمیشہ درست نہیں ہوتی۔ ہمارے حلقے کی ایک دوست نے ایک ایسے ہی ادھیڑ عمر جوڑے کا واقعہ سنایا، وہ گھر کے نچلے اور ان کا بیٹا اور بہو اوپر کے پورشن میں رہتے تھے۔ چھٹی کا دن تھا، سویرے یعنی نو بجے کے قریب، صاحب خانہ کی طبیعت خراب ہوئی اور ان کی بیگم جو کہ سیڑھیاں چڑھنے کے قابل نہیں، انھوں نے بیٹے اور بہو کے فون پر پچاسوں کالیں کیں مگر جواب ندارد، مجبور ہو کر انھوں نے ٹیکسی کمپنی کو کال کر کے ٹیکسی منگوائی اور اسی ڈرائیور کے ساتھ مل کر صاحب کو ٹیکسی میں ڈال کر اسپتال لے کر گئیں ۔ ٹیکسی والا اچھا نوجوان تھا، اپنی ٹیکسی پارک کر کے وہ اسپتال میں بھی ان کے ساتھ بھاگتا رہا۔ بارہ بجے کے بعد، ان کا اپنا بیٹا جاگا اور اس نے اپنے فون پر ماں کی اتنی مسڈ کالیں دیکھیں کہ پریشان ہو گیا۔

گھر میں ماں باپ کو غیر موجود پا کر کال کی مگر اسپتال میں فون کی سروس نہ تھی۔ وہ قریبی پولیس اسٹیشن جا کر رپورٹ کروانے کے لیے گھر سے نکلا تو پڑوسیوں کے ڈرائیور نے اسے وہ سب بتایا جو اس نے دیکھا تھا۔ بار ہا کالیں کرتا رہا، یہاں تک کہ ماں اسپتال سے نکلیں اور انھوں نے اسے واپس کال کی۔ اس کے والد کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی تھی تو وہ گھر آ رہی تھیں۔ والد اسپتال میں داخل کر لیے گئے تھے۔

پچھتاوا جتنا بھی ہو اوربعد ازاں جتنی بھی معافی مانگیں ، ایسی کوتاہیوں کے نقصانات بسا اوقات ناقابل تلافی ہو جاتے ہیں ۔ اگر آپ کے پاس فون ہے تو اسے آن رکھیں ، بالخصوص ایسے حالات میں جب آپ کو علم ہے کہ کسی کو آپ کی مدد کی وقت بے وقت ضرورت ہو سکتی ہے۔ آپ بے مقصد پیغامات نہ بھیجیں تو آپ کو بھی پیغامات آنا اور آپ کی نیند میں مداخلت ہونا بند ہو جائے گی۔ اگر آپ فون کی گھنٹی بند کر کے سو جائیں گے … کسی کی انتہائی مجبوری کے وقت اگر آپ اپنے فون پر دستیاب نہ ہوئے تو ہو سکتا ہے کہ کوئی آپ کی بے حسی اور لاپروائی کے باعث ہمیشہ کی نیند سو جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔