سانحے کا ملبہ دوسروں پر نہ ڈالیں

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 12 اپريل 2020
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

مقام تبدیل ہوتے رہتے ہیں، تبدیلی کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ آپ خود ہوتے ہیں۔ آپ ایسے حالات و واقعات کو جنم دیتے رہتے ہیں کہ پھر مقام کی تبدیلی یقینی ہو جاتی ہے اور جب ایک دفعہ مقام تبدیل ہو جاتے ہیں تو پھر اسے دوبارہ حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے پھر آپ اپنے علاوہ سب کو قصور وار اور ذمے دار ثابت کرنے میں اپنی ہر چیز کو حتیٰ کہ اپنے آپ کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں اس لیے کہ آپ کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مقام کی تبدیلی کی وجہ سے سلب ہوچکی ہوتی ہے۔

مقام کی تبدیلی میں تین قوتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ (1)خواہشات اور جذبات (2) غروروتکبر(3) آرزو و تمنا۔

آئیں! باری باری ان تینوں قوتوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ کس طرح سے آپ کے خلاف کام کرتی ہیں۔ خواہشات اور جذبات۔ ہم سب لوگ اکثر خواہشات اور جذبات کے بھنور میں آکر پھنس ہی جاتے ہیں پھر وہ بھنورروز بروز بڑے سے بڑے ہوتے جاتے ہیں اور ہم بونے سے بونے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہم سے اکثر لوگ اپنے معدے کے غلام ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی عادات کے بھی غلام ہوتے ہیں۔

ان کا معدہ ان کے ذہن اور جسم کوکنٹرول کرتا ہے، جب ہمیں اپنی فکر زیادہ لاحق ہوجاتی ہے تب ہم دوسروں کی ضروریات کو فراموش کردیتے ہیں۔ ہم اپنے آپ پر ناراض ہوتے ہیں، غصے ہوتے ہیں لیکن یہ ناراضگی اور غصہ دوسروں پر نکالتے ہیں ہم بہت جلد مشتعل ہوجاتے ہیں۔

لہٰذا جب ہماری خواہشات وجذبات ہمیں کنٹرول کرتے ہیں تب ہم رشتے، ناتے، تعلقات، فراموش اور ذمے داریوں کے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں پھر آپ خود اپنے آپ کے علاوہ اورکچھ نہیں سوچتے ہیں ، ایسے لوگوں کو پہچاننے کے لیے آپ کا بس تھوڑی دیرکے لیے مختلف ٹی وی چینلزکا دیکھنا ہی کافی ہوگا اور آپ کی ملاقات شناسائی اور پہچان، خواہشات اور جذبات کے غلاموں سے ہوچکی ہوگی۔ اس کے لیے آپ کوکافی تگ ودوکی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آج کل یہ حضرات فراوانی سے سارا وقت ٹی وی چینلز پر نظر آرہے ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ سب کے سب اپنے آپ کو برا بھلا کہنے کے بجائے مخصوص لوگوں کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہوتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ انھیں دیکھنے اور سننے والے ان سے زیادہ ذہین، سمجھدار اور عقل مند ہیں اور وہ ان کے کرتوتوں سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔

غروروتکبر۔ جب ہم اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کرتے جب ہم اپنی صلاحیتوں اور قابلیت سے زیادہ حاصل کرلیتے ہیں اور اس ’’ زیادہ حاصل‘‘ کو حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ، ہرطریقہ استعمال کرتے ہیں ہم اسی قدر زیادہ عدم تحفظ کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہم جتنا عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں ہم اتنا غرور و تکبر کا کھیل کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔ اسی کھیل کھیلنے میں ہم اپنے آپ کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں یہ دھوکہ دراصل ہم اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ ہم اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ ’’زیادہ حاصل‘‘ شدہ چیزیں ہم سے چھین نہ لی جائیں۔ اس لیے ہم مکمل بہروپیے بن جاتے ہیں۔

ایسے لوگوں کو دیکھنے اور پہچاننے کے لیے بھی آپ کو کافی بھاگ دوڑکی کوئی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ ایسے لوگ ٹی وی، اخبارات کے ساتھ ساتھ آپ کو سڑکوں پر عظیم الشان گاڑیوں میں طویل پروٹوکول کے ہمراہ باآسانی دیکھنے کو مل جائیں گے اور اگر آپ کو انھیں بہت ہی قریب سے دیکھنے کی خواہش ہو تو پھر اس کے لیے آپ کو کافی جدوجہدکرنے کی ضرورت پیش آئے گی کیونکہ ان کے بڑے بڑے عالی شان دفاتر اورگھروں تک رسائی عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے لیکن اگر آپ جن یا بھوت ہوتے تو پھر الگ بات تھی۔ اس لیے آپ کو پہلے ان کی چمچہ گیری یا ان کی خوشامد کرنے والوں کی چمچہ گیری یا خوشامد کرنے کی قربانی دینا لازمی ہوگی لیکن آپ کو اپنا دل چھوٹا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ قربانی بہت ہی پسندیدہ عمل ہے جب آپ یہ قربانی دے چکے ہوں گے تو پھر آپ ایسے لوگوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کرچکے ہوں گے۔ انشا اللہ ملاقات کے بعد آپ طویل عرصے تک اپنے آپ کو برا بھلا اور کوستے رہیں گے۔

آرزو و تمنا۔ جب ہم آرزو وتمنا کے ہاتھوں عقل کے اندھے بن جاتے ہیں اور اپنی بینائی گنوا بیٹھتے ہیں تو ہماری اولین کوشش اس بات کی ہوتی ہے کہ شان وشوکت، عہدہ ، اختیار اور ترقی جلد ازجلد حاصل کرلیں، بجائے وقت کا انتظار کرنے اور اپنی ذہانتوں کو بروئے کار لانے کے، اس وقت آپ ہر چیز کی تشریح اس حوالے سے کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ میرے لیے کیا کرے گی۔

اس سے مجھے کیا فائدہ حاصل ہوگا ایسے لوگوں کا ہر کوئی رقیب ہوتا ہے ان کے رشتے، ناتے، ساتھی اور تعلقات خواہ کس قدر قریبی ہی کیوں نہ ہوں وہ بھی ان کے لیے رقیب بن جاتے ہیں وہ اپنی آرزووتمنا پوری کرنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے بعد اپنی بقیہ زندگی جیل یا جلاوطنی میں گزارتے ہیں لیکن عقل کی بینائی پھر بھی حاصل نہیں کرپاتے ہیں اور قصوروار دوسروں کو ہی ٹھہرا رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم میں سے کسی کے ساتھ مقام کی تبدیلی کا سانحہ پیش آجائے تو اس سے درخواست ہے کہ وہ اس سانحے کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی غلطی ہرگز، ہرگز نہ دہرائے اس لیے کہ وہ ملبہ واپس اسی کی طرف ڈالا جائے گا اور پھر وہ اس ملبے کے تلے اتنا دب جائے گا کہ اس سے باہر نکلنے کی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہوجائیں گی اور آخر میں ہم ان کے ساتھ ساتھ ان کی آواز سننے سے بھی محروم ہوچکے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔