بقائے شہر اب شہرکے اجڑنے میں ہے

شاہد سردار  اتوار 12 اپريل 2020

عالمی ادارہ صحت کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق اگرکورونا وائرس کا بروقت علاج دریافت نہ کیا گیا تو 2020 میں 4 کروڑ انسانوں کی ہلاکت کا خطرہ ہے اور اس وائرس سے 7 ارب انسان متاثر ہوں گے۔ گمان غالب ہے کہ ہم اور آپ بھی ان چارکروڑ افراد میں شامل ہوں جنھوں نے اس سال کورونا وائرس کا شکار ہونا ہے۔ کیونکہ موت کبھی بھی کسی کو کسی لمحے آسکتی ہے۔

کورونا سے کون بچے گا اورکون نہیں بچے گا کسی کو علم نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ جو مریں گے وہ تو سکھی ہوجائیں گے اور جو بچیں گے ان کے لیے زندگی گزارنا بہت بڑا چیلنج بن جائے گا، دنیا مشکل ترین معاشی حالات سے گزرے گی، خوراک اور اشیائے ضروریہ مہنگی ہوں گی، ایسے میں نئی دنیا کو اپنا سب کچھ بدلنا پڑے گا۔

کورونا نے دنیا کو ایک نیا چیلنج دیا ہے کہ انسان کو اپنی بقا کے لیے صرف ہتھیاروں ، جنگوں، غربت ، پسماندگی اور پرانی بیماریوں کے خلاف جنگ نہیں لڑنی بلکہ کورونا جیسی وباؤں سے نمٹنے کا بندوبست بھی کرنا ہے۔ پچھلے سو سال میں انسان کو یہ زعم ہوگیا تھا کہ اس نے بیماریوں اور وباؤں پرکافی حد تک قابو پالیا ہے مگر کورونا نے یہ تھیوری غلط ثابت کردی ہے۔ ہم بھی عجیب قوم ہیں قرض بھی باہر سے لیتے ہیں اور مرض بھی۔ یہ دنیا واقعی مکڑی کا جالا ثابت ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ دنیا 187 ملکوں کے لیے امتحان گاہ بن گئی۔کورونا وائرس پوری دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا چکا اور تقریباً 2 ارب انسان گھروں میں قید ہوگئے، معیشت تباہ، معاشرت برباد، کاروبار ٹھپ، میل ملاپ، سیر و تفریح، سارے منصوبے ختم،7 براعظموں میں نفسانفسی، افراتفری، خوف اور موت سے بچنے کی تدبیروں میں لوگ غلطاں۔

دنیا میں 20 ہزار سے زائد افراد ان ممالک میں مختلف بیماریوں سے ہلاک ہوئے جو دنیا کے محفوظ ترین اور صحت کی سہولتوں کے حوالے سے مثالی ملک رہے ہیں۔ ہمارے تو جسموں میں پتا نہیں کتنے وائرس ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو چور، ڈاکو، دہشتگرد بھی کبھی کبھی ماسک پہنتے ہیں کیونکہ انھیں پتا ہوتا ہے کہ ان کا کچھ نہیں ہوگا۔کورونا کے پھیلاؤ نے ہمارے ہاں گرد وپیش ہر دوسرے شخص حد تو بچوں تک کو ماسک اور دستانے پہنا دیے اور جو صرف کھانا کھاتے ہوئے ہاتھ دھوتے تھے وہ تک دن میں کئی کئی بار صابن سے ہاتھ دھوتے پائے گئے۔ حالانکہ صفائی نصف ایمان ہے مگر مسلمانوں نے اس پر عمل نہیں کیا ورنہ جہاں کی آبادی 95 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہو وہاں گندگی اور غلاظت کی انتہائیں کیا معنی رکھتی ہیں؟مگر یہی ہمارا کلچر ہے۔

لیکن برا ہو کورونا کا جس نے صابن کی طرز کا سینی ٹائزر متعارف کرا کے اس کی ڈیمانڈ بڑھا دی۔ دن میں کئی کئی بار سینی ٹائزر اور صابن سے ہاتھ ملتے ہر بشر دکھائی پڑے، انتہائی محنتی اورکام والے کام چوروں کی طرح گھر پر فرنیچر اور بستر توڑتے نظر آئے۔ خود ہم گزشتہ پانچ سالوں سے ریٹائر ہوکر گھر اور گھر والوں کے ساتھ اس کے درودیوار کو مسلسل تکتے جا رہے ہیں اورکورونا کی وبا سے تو اس تکنے میں روز افزوں اضافہ ہی ہوا ہے اور نتیجے میں ہمارے گھر کے درودیوار کو بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہوئے ہمیں یہ کہنا پڑ گیا کہ ’’یہ کیا تم ہر وقت ہمیں گھورتے رہتے ہو؟‘‘

اٹھتے بیٹھتے گھر میں بیگم صاحبہ کی آواز کانوں میں گونجتی رہتی ہے ’’ صابن سے ہاتھ دھویا یا نہیں؟‘‘ کیونکہ سننے اور پڑھنے میں آیا کہ بازار سے سودا سلف لینے میں بھی اس وائرس کے لگنے کا خطرہ درپیش ہے۔ ’’کورونا یافتہ کسی دکاندار‘‘ کا ہاتھ لگنے کی صورت میں اس کے جراثیم بارہ گھنٹے تک زندہ سلامت رہتے اور شاید حسرت بھری نظروں سے دیکھتے بھی ہوں کہ کوئی ان پر اپنا ’’ دست شفقت‘‘ رکھ دے۔ جہاں تک ہمارا معاملہ ہے ہم تو خود نہیں چاہتے تھے کہ کورونا کی درد بھری داستان کو طول دیتے لیکن کیا ہے کہ ہمیں کئی بار بتایا جاتا رہا کہ ’’تمہاری عمرکے لوگ کورونا کا آسان ترین ٹارگٹ ہیں، ایسے میں اگر ہم جیسے لوگ بچے ہوئے ہیں تو یہ کورونا کی ہم سے خاص مہربانی ہے یا پھر اس کے کسی منصوبے کا حصہ ہے؟

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کورونا نے پوری دنیا کی دنیا ہی بدل کے رکھ دی کیونکہ کورونا نے ایک ایسی دنیا متعارف کرا دی ہے جس نے انسان کو انسان سے دور رہنے پر مجبور کر دیا، جون ایلیا کے دور میں تو کورونا نہیں تھا لیکن پھر بھی انھوں نے کب کہہ دیا تھا:

اب نہیں کوئی بات خطرے کی

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

اس وبا نے فاصلے رکھنے کی ایک نئی جہت متعارف کرائی، ہاتھ نہ ملانے پر لوگ خوش ہوتے دیکھے جاتے پائے گئے جو لوگ اپنے رشتے داروں سے تنگ تھے اور ان کا گاہے بگاہے اپنے گھروں میں آنا پسند نہیں کرتے تھے، ان کی تو لگتا ہے اللہ نے سن لی۔ اب کسی اپنے پیاروں سے یہ شکایت بھی باقی نہیں بچی کہ وہ ملتا جلتا نہیں، بلکہ آنکھوں آنکھوں میں یہ پیغام دیا جاتا رہا اور بعض تو بلاتکلف کہتے پائے گئے کہ ’’ادھر ہم خوش ادھر تم۔‘‘ سیل فون پر بالخصوص ’’ویڈیو کالز‘‘ پر ہی ساری الفت امڈتی نظر آتی رہی۔ سنا تھا کہ رفاقتوں سے محروم انسان بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

رفاقتوں سے محرومی کا پہلا نتیجہ تنہائی ہوتی ہے۔ تنہائی کو بھی ایک بیماری کہا جاتا ہے اور غم تنہائی بہت سی دیگر بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔ کورونا نے بھی میل ملاپ سے دور کردیا، شاعر پہلے وصالِ یارکی آرزو کرتے اور ترکِ تعلق کو وبا قرار دیتے تھے۔ اعتبار ساجد کا یہ شعر دیکھیں:

چلی ہے شہر میں اب کے ہوا ترکِ تعلق کی

کہیں ہم سے بھی نہ ہوجائے خطا ترکِ تعلق کی

قسمت دیکھیں ہم سبھی کو اپنی اس زندگی میں ایسا دور دیکھنے کو مل گیا جب دنیا بھر کے ڈاکٹر تنہائی اور ترکِ تعلق کو کورونا جیسی خطرناک وبا کا علاج قرار دیتے پائے گئے ہیں۔ اسی لیے ممتاز احمد شیخ نے یہ پیش گوئی بھی شاید کردی ہے کہ:

پہلے تو ترکِ تعلق کی وبا پھیلے گی

پھر محبت کا بھی انکارکیا جائے گا

پہلے ہم جیسے اکلوتے اپنے اکلوتے پن کی وجہ سے ہجوم سے بہت گھبراتے تھے، مگر اب تنہائی میں ہجوم یاد آتا ہے۔ پہلے دوستوں، عزیزوں، رشتے داروں کے لیے وقت نہیں تھا اب وقت تو ہے لیکن درمیان میں فاصلے آگئے ہیں۔ کورونا وائرس نے مسجدیں، مندر، چرچ، گرجا گھر، سینما ہال، پارک، ریسٹورنٹ اور محفلوں کو ویران کرکے رکھ دیا۔ روزگار یا کاروبار، انسان کی بھوک کی حس، ضرورتوں سبھی کو کورونا نے چاٹ لیا، سب کو اپنے اپنے گھر میں سب جیل قرار دے کر رہنے پر مجبورکردیا جس سے پوری دنیا کو اربوں روپے کا خسارہ ہوا اور روزکی روزی لانے لے جانے والے زندہ لاش بن کر رہ گئے ایسے حال میں محمود شام نے کیا خوب کہا ہے:

عجب مرض ہے جس کی دوا ہے تنہائی

بقائے شہر اب شہر کے اجڑنے میں ہے

بہرکیف تنہائی کسی کی بھی ہو اور اس کی تنہائی خود سے کتنی بات کرسکتی ہے؟ اس بار موسمِ بہار بھی عجیب رنگ میں آیا ہے ہم اپنی اور اپنے پیاروں کی سانسوں سے خوفزدہ اور ان کے وجود سے بچتے رہے، اپنے دوستوں اپنے پیاروں سے ملنے سے گھبراتے رہے۔ بہرکیف یہ ترکِ تعلق کچھ عرصے کے لیے دوا سہی لیکن یہ دوا زیادہ عرصہ نہیں چلے گی، کیونکہ ہر مشکل وقت آخر کار گزر ہی جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔