ہمارے جعلی اور اصلی مسائل

وسعت اللہ خان  پير 2 دسمبر 2013

کوئی چار پانچ برس پہلے ایک اردو اخبار کے اندرونی کونے میں یہ خبر شایع ہوئی کہ خیبرپختون خوا کے علاقے تخت بائی میں دو جعل ساز سیاحوں کو جعلی زمرد بیچنے کے جرم میں پکڑے گئے۔یہ زمرد سیون اپ کی بوتلوں کے شیشے والے موٹے پیندے کی کٹنگ سے تخلیق کیے جاتے تھے۔اور جب تک جعل سازوں تک قانون کا ہاتھ پہنچا تب تک وہ چار سے پانچ لاکھ روپے مالیت کے زمرد فروخت کرچکے تھے۔

میں بذاتِ خود انیس سو اٹھانوے میں ٹیکسلا میوزیم  کے اطراف ایک ’’ فن کار ‘‘سے مل چکا ہوں جو اپنے ہی تراشے مجسمے خاص طرح کے تیزابی کیمیکلز سے اس طرح پروسس کرتا تھا  کہ مجسمہ دیکھنے میں ڈھائی ہزار سال پرانا لگے اور کوئی غیر ماہر آسانی سے نا پہچان سکے۔اب ہر کوئی تو مجسموں کی اصلیت جاننے کے لیے کاربن ڈیٹنگ نہیں کرواتا پھرتا نا !!!۔

کینیا سے دو ہزار سات کے دوران ایک خبر آئی تھی کہ نوسربازوں نے مغربی سیاحوں کے ایک گروہ کو زیبرے کے بچے بیچ دیے۔وہ تو اگلے دن بارش نے راز فاش کردیا کہ زیبرے کی کالی سفید دھاریوں کے نیچے گدھے کے بچے پوشیدہ ہیں۔ تب تک گدھے کو زیبرا بنا کے گاہکوں کو گدھا بنانے والا  چمپت ہوچکا تھا۔

شائد آپ کو یاد ہو کہ سن دو ہزار دس میں پاکستان میں جو سیلابِ عظیم آیا،اس کے دوران وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو میانوالی میں ایک اسکول میں قائم جعلی اسپتال کا دورہ کرایا گیا۔ان کی آمد سے ایک رات پہلے اسکول کے کمروں میں ایک میڈیکل وارڈ تخلیق کیا گیا۔گیٹ پر اسپتالی بینر لگایا گیا۔مریضوں کا کردار ادا کرنے والوں کو لوہے کے پلنگوں پر سفید چادریں تکیے لگا کے لٹا دیا گیا۔وزیرِ اعظم نے کراہتے مریضوں کی خیریت بھی دریافت کی اور پھول اور پیسے ویسے بھی دیے۔ان کے جاتے ہی ہر مریض نے آہنی منجی سر پے رکھی اور خود ہی اسپتال سے ڈسچارج ہوگیا۔اسی طرح وزیرِ اعظم کو ڈیرہ اسماعیل خان اور بلوچستان کے علاقے صحبت پور میں راتوں رات کھڑے کیے جانے والے دو ریلیف کیمپوں کا دورہ بھی کرایا گیا اور پھر چند گھنٹے میں ہی یہ فلمی سیٹ اکھاڑ لیا گیا۔

یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ لیکن جب جعلسازی انسانی زندگیوں اور ان کے مستقبل سے کھیلنے لگے اور سماج میں دیمک کی طرح گھر بنا لے اور اسے سنجیدگی سے ایک سنگین مسئلہ سمجھنے اور اس سے نمٹنے کی سوچ دم توڑنے لگے تو پھر دلی لگی المناک مذاق میں بدل جاتی ہے۔

مثلاً یہی خبر کہ پاکستان میں جتنی بھی ادویات فروخت ہورہی ہیں ان میں سے تیس سے پچاس فیصد کے درمیان جعلی ہیں۔اور عالمی ادارہِ صحت کی جعلی ادویات کی فروخت سے متاثر ممالک کی فہرست میں پاکستان تیرہویں نمبر پر ہے۔ مزید مار یہ پڑ رہی ہے کہ سرکاری سیکٹر میں جو ڈاکٹر ملازم ہیں، ان میں سے بہت سے نوکری پر یا تو بہت کم توجہ دیتے ہیں یا بالکل ہی نہیں پہنچتے۔صوبہِ سندھ کے محکمہ صحت کے کچھ ذمے داروں کے بقول سرکاری سیکٹر میں جتنے بھی ڈاکٹر کام کررہے ہیں ان میں سے پچیس فیصد بھوت ڈاکٹر ہیں۔ان بھوت ڈاکٹروں کو تنخواہوں کی مد میں ماہانہ کم ازکم ڈیڑھ کروڑ روپے ادا کیے جا رہے ہیں۔اگر باقی صوبوں کے اعداد و شمار کو بھی جوڑ لیا جائے تو سوچئے کہ صورتِ حال کیا بنتی ہے۔ اور یہ کام اس ملک میں ہورہا ہے جہاں صحت پر کل قومی آمدنی کا محض ڈھائی فیصد خرچ ہوتا ہے جو سارک ممالک میں سب سے کم ہے۔

صحت سے بھی بڑی دو نمبری سرکاری شعبہِ تعلیم میں ہورہی ہے بلکہ شعبہ کیا بھوتوں کا راجواڑہ ہے۔جسے کہیں اور نہیں کھپایا جاسکتا اسے محکمہ تعلیم کی پرچی دے کر کھپا دیا جاتا ہے۔پاکستان خواندگی کے عالمی چارٹ میں اس وقت ایک سو ساٹھویں نمبر پر ہے۔عالمی معیار کے مطابق قومی آمدنی کا چار فیصد تعلیم کے شعبے پر خرچ ہونا چاہیے۔مگر پاکستان میں اس وقت تعلیم کا بجٹ قومی آمدنی کے دو فیصد سے بھی کم ہے۔اور اس مختص بجٹ میں سے بھی گذشتہ مالی سال کے دوران چاروں صوبے محض آدھا پیسہ استعمال کرسکے۔اور اس آدھے بجٹ کے استعمال میں بھی یاروں نے کئی چاند چڑھا دیے گئے۔

مثلاً سندھ ہائی کورٹ کی تحقیقات کے مطابق صوبہ سندھ کے ستائیس اضلاع میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق قائم اڑتالیس ہزار دو سو ستائیس اسکولوں میں سے ساڑھے چار ہزار اسکول غیر فعال جب کہ دو ہزار ایک سو اکیاسی بھوت اسکول ہیں جن میں تنخواہ پانے والے اسٹاف تو زمینی ہے لیکن اسکول زمین کے بجائے کاغذ پر قائم ہے۔جب کہ پانچ سو چوبیس اسکول ایسے ہیں جن پر بااثر افراد قابض ہیں۔کچھ میں تو تھانے بھی قائم ہیں۔سندھ میں سب سے زیادہ بھوت اسکول ضلع بے نظیر آباد ( نواب شاہ ) میں بتائے جاتے ہیں جب کہ ضلع میں ایک سو بارہ اسکولوں پر بااثر افراد کا قبضہ الگ ہے۔اس کے بعد سابق وزیرِ تعلیم پیر مظہر الحق کا ضلع دادو آتا ہے۔جہاں کے صرف ایک تعلقے جوہی میں گذشتہ برس تک ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بھوت اسکول سر چڑھ کے بول رہے تھے۔

اگرچہ سندھ میں قانوناً پانچ تا سولہ برس تک کے بچوں کی تعلیم لازمی اور مفت ہے لیکن آدھے بچوں اور ان کے والدین تک شائد یہ اطلاع نہیں پہنچی۔اس کی ایک مثال مٹیاری ہے جو سندھ کا ایک نسبتاً نیا اور چھوٹا سا ضلع اور ہالا کے مخدوموں کا روحانی و سیاسی مرکز ہے۔مگر مقامی ذرایع کا دعوی ہے کہ اس چھوٹے سے ضلع میں ساٹھ ہزار کے لگ بھگ بچے ایسے ہیں جو اسکول نہیں جاتے۔

اور علاقوں کو کیا روئیں جب عین وفاقی ناک کے نیچے گریٹر اسلام آباد میں اس سال کے وسط میں شایع ہونے والی ایک سروے رپورٹ کے مطابق ستاون بھوت اسکولوں کا سراغ ملا۔  دانش اسکول یافتہ ’’پڑھے لکھے پنجاب‘‘کے ایک پسماندہ ضلع راجن پور میں گذشتہ برس تک ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بھوت اسکول بتائے جاتے ہیں۔اب جانے کیا حال ہے۔ان اعداد و شمار سے آپ شہبازی گورننس کی دیگ کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں۔

بھارت میں دس برس پہلے سن دو ہزار تین تک لگ بھگ ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر تھے۔چنانچہ وہاں جہالت کے خلاف اعلانِ جہاد کردیاگیا۔آج سوا ارب آبادی کے بھارت میں صرف چار ملین بچے اسکول سے باہر بتائے جاتے ہیں جب کہ اٹھارہ کروڑ آبادی والے پاکستان میں چھ اعشاریہ چار ملین بچے اسکول نہیں جا پا رہے۔اور ان میں سے بھی نصف سے زائد سندھ اور بلوچستان میں ہیں۔

مگر جو اسکول فعال ہیں وہ کس قدر فعال ہیں ؟ اس کا اندازہ یوں ہوسکتا ہے کہ خیبر پختون خوا میں اس وقت ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچے بچیاں ایسے ڈھائی ہزار اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہے جہاں صرف ایک ٹیچر ہے اور وہی پہلی سے چھٹی جماعت کے سب پیریڈ لیتا ہے۔اور جب یہ ٹیچر بیمار ہو جائے ، کسی سبب غیر حاضر ہوجائے یا محکمہ جاتی پھٹیک پڑ جائے یا اس ٹیچر کا کوئی آم کھانے والا افسر اسے پیڑ گننے پے لگادے تو گاؤں کا اسکول بھی اس کے ساتھ چھٹی پے چلا جاتا ہے۔

سرکاری فائلوں میں ملک کے طول و عرض میں پرائمری تا سیکنڈری ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ چھوٹے بڑے اسکول ہیں۔اندازہ ہے کہ ان میں لگ بھگ پچیس ہزار غیر فعال اور بھوت اسکول ہیں۔مگر حوصلہ نا ہارنے والی حکومت نے بھی تہیہ کر رکھا ہے کہ دو ہزار پندرہ تک وہ اقوامِ متحدہ کے طے شدہ سو فیصد خواندگی کے ہدف کو حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کرے گی ( ہوسکتا ہے جس نے یہ وعدہ کیا ہو اسے سرتوڑ کا پورا مطلب معلوم نا ہو)۔

لیکن بھوت صرف صحت اور تعلیم تک ہی محدود نہیں۔ سندھ کے وزیرِ بلدیات شرجیل میمن کہتے ہیں کہ ان کے محکمے میں تیس سے چالیس فیصد ملازم بھوت ہیں جو ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو کرنسی کی خوشبو سونگھتے سونگھتے دفتر چلے آتے ہیں۔ محکمہ بلدیات کا دسترخوانِ روزگار ماشااللہ اتنا وسیع ہے کہ جس کام کے لیے محض تین چار سو ملازم کافی ہوں وہاں تین سے چار ہزار ملازمین ٹانگ پر ٹانگ رکھے مستعد ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی صوبوں کے باقی محکمے بھوت فری ہیں۔مگر کسی سرکاری ملازم کو موجودہ قواعد و ضوابط کے تحت فارغ کرنا ڈرون گرانے سے زیادہ مشکل کام ہے۔کہنے کو پاکستان میں بے روزگاری کی سرکاری شرح دس فیصد ہے اور ایم اے پاس لوئر کلرکی کے لیے بھی جوتیاں چٹخاتے چٹخاتے خود چٹخ جاتے ہیں۔

بات جعلی پن کی ہورہی تھی کہ کہاں سے کہاں نکل گئی۔ جعلی ڈگریوں کی بات میں اس لیے نہیں کروں گا کہ اس سے کئی ’’ بچہ جمہوروں ’’ کا عوامی استحقاق مجروح ہوسکتا ہے۔جعلی پیروں ، جعلی سرمایہ کار کمپنیوں ، جعلی خوراک اور جعلی دانشوری سے تو آپ ہوش سنبھالتے ہی واقف ہو جاتے ہیں لہذا ان کی تفصیل میں کیا جانا۔

لیکن کبھی آپ نے سنا کہ جعلی مجرم اور قیدی بھی تیار کیے جاتے ہیں۔گذشتہ ہفتے جب وزیرِ اعظم نواز شریف کراچی تشریف لائے تو انھیں امن و امان کے آپریشن سے متعلق بریفنگ میں بتایا گیا کہ سندھ کی مختلف جیلوں میں اکتالیس قیدی ایسے ہیں جو جعلی ہیں۔انھیں اوریجنل ملزم کا نام اور ولدیت دے کر ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا یا حراست میں لیا گیا۔جب کہ اصلی وارداتی باہر دندنا رہے ہیں۔ان جعلی ملزموں کا پتہ نادرا کی مدد سے لگایا گیا۔اب حکام یہ سراغ لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ کن کن پولیس والوں نے ان  جعلی قیدیوں کی ایف آئی آر کاٹی اور کس لالچ میں کاٹی اور وہ اصل ملزم جسے اپنے ان جعلی ہمزادوں کی جگہ جیل میں ہونا چاہیے کہاں ہیں ؟ ہائے رے یہ خرانٹ معصومیت ؟

مگر یہ ہمارے اصل نہیںبلکہ جعلی مسائل ہیں۔ ہمارے اصل مسائل تو ڈرون ، ناٹو سپلائی ، بھارت کو قریبی اقتصادی ساجھے دار قرار دینے نا دینے کی ڈبیٹ ، شہید و غیر شہید کا تعین ، یو ٹیوب کا سنگین خطرہ ، نیا سپاہ سالار کیا کرے گا کیا نا کرے گا کی بحث ، سامنے کا ہاتھ چھپا کر خفیہ ہاتھ کی تلاش ، وینا ملک کی تازہ بیہودگی ، غیرت و بے غیرتی کا مناظرہ اور اغیار کی ثقافتی یلغار ، ریپ بمقابلہ ڈی این اے وغیرہ وغیرہ ہیں۔ اسی لیے تو سب کے سب ان اصلی باتصویر جینئن مسائل کا حل ڈھونڈنے میں تندہی سے لگے پڑے ہیں گے۔۔۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔