بے چاری خواتین

شکیل فاروقی  پير 2 دسمبر 2013
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

اب سے چند روز قبل یہ روح فرسا خبر آپ کی نظروں سے بھی گزری ہوگی کہ کراچی صدر پولیس لائن میں رہائش پذیر ایک پولیس اہلکار نے مٹی کا تیل چھڑک کر اپنی بیٹی کو زندہ جلا دیا جو کچھ روز تک موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد آخر کار دم توڑ گئی۔ ابھی اس خبر کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ اندرون سندھ تلہار میں شوہر نے تشدد کرکے اپنی بیوی کو قتل کردیا جو سات بچوں کی ماں تھی۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ المناک اور سنگین واقعہ عین اس روز پیش آیا جب خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا تھا۔ اس واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ تلہار کے نواحی گاؤں دولت خان لغاری رام چند کولہی نامی شخص نے اپنی 26 سالہ بیوی شریمتی جیونی کو غصے میں آکر محض اس بنا پر قتل کردیا کہ اس بے چاری نے شوہر کو کھانا دینے میں دیر کردی تھی۔

بدقسمتی سے اس طرح کی اندوہناک خبریں اخبارات میں آئے دن شایع ہوتی رہتی ہیں جس سے انداز ہوتا ہے کہ بے چاری خواتین ظلم وستم کی چکی میں کس بری طرح پس رہی ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ معاشرے میں عورت کے استحصال کی کہانی صدیوں پرانی ہے۔ مشرق میں اس استحصال کے طریقے کچھ اور ہیں جب کہ مغرب میں اس کا انداز اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔آفاقی حقیقت یہ ہے کہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی سمیت ہر روپ میں عورت انتہائی عزت و احترام کی مستحق ہے کیونکہ شاعر کے بہ قول:

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہندو معاشرے میں عورت کے مقام کا اندازہ ہندی شاعر تلسی داس کے اس قول سے لگایا جاسکتا ہے کہ:

ڈھور‘ گنوار‘ شودر اور ناری
یہ سب تاڑن کے ادھیکاری

مندرجہ بالا شعر میں کولی تلسی داس نے عورت کو جانوروں، گنواروں اور شودروں کی صف میں کھڑا کردیا ہے جو تمام کے تمام ڈنڈے سے مارے پیٹے جانے کے مستحق ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ قدیم ہندوستان میں شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کو زندہ آگ میں جلا دیا جاتا تھا جسے ہندو روایت کے مطابق چتا میں جلائے جانے کی رسم ’’ستی‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ رسم ہندو معاشرے میں صوفیوں تک جاری رہی تا آنکہ راجا رام موہن رائے نامی مصلح قوم نے اس کے خلاف آواز بلند کی جس کے نتیجے میں اس ظالمانہ رسم کا خاتمہ ہوا۔ اسلام سے قبل عرب معاشرے میں بھی عورت کا مقام بہت پست تھا اور لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے۔

اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے نہ صرف عورت کو انسانی معاشرے میں اس کا جائز مقام دیا بلکہ اسے وہ حقوق بھی عطا کیے جن کا اس سے پہلے کوئی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ افسوس یہ ہے کہ ہم ان حقوق کا زبانی تذکرہ تو بہت کرتے ہیں لیکن انھیں عملی جامہ پہنانے کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں جس کا اندازہ اخبارات میں روز مرہ شایع ہونے والی خبروں اور عدالتوں میں چلنے والے مقدمات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ ہمارے ملک میں خواتین کے تحفظ کے سلسلے میں قوانین بھی موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کا حال بھی کم و بیش وہی ہے جو دیگر قوانین پر عملدرآمد کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں اور میڈیا میں وقتی طور پر اس کا چرچا بھی بہت ہوتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔

بھارت میں حوا کی بیٹیوں کی حالت زار خصوصاً توجہ طلب ہے جہاں جنسی زیادتی کے واقعات روز بروز شدت اختیار کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ ظلم وہاں اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر کی مسلم خواتین پر ڈھایا گیا جنھیں اپنے گھروں سے دور چادر اور چہار دیواری سے باہر کھیتوں اور کھلیانوں میں کھلے آسمان کے نیچے خیموں میں رہنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان میں سے بعض تو اتنی بدقسمت تھیں کہ انھیں خیمے بھی میسر نہیں آئے۔ شر پسند ہندوؤں نے نہ صرف ان بے چاریوں کی عفت و عصمت کو پامال کردیا بلکہ انھیں اپنے جگر گوشوں سے بھی محروم کردیا۔

ان کے شوہروں اور بھائیوں کو قتل اور زخمی کردیا۔ زندگی ان پر اس قدر تنگ کردی گئی کہ انھیں اپنے گھروں سے دور پناہ گاہوں کا رخ کرنا پڑا۔ ان میں وہ دکھیاریاں بھی شامل تھیں جن کے شکم میں ننھی ننھی جانیں پرورش پا رہی تھیں۔ انھیں ایک وقت کے لقمے اور ایک ایک گھونٹ پانے تک کے لیے تڑپنا پڑا۔ مظفر نگر میں ایسی خواتین کے درجن بھر کے قریب کیمپ قائم تھے جہاں یہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھیں۔ ان میں سے ہر کیمپ میں 15 سے 25 خواتین حاملہ تھیں جو اپنی بے کسی پر آنسو بہا رہی تھیں۔

ان میں سے بہت سی خواتین تن تنہا اور بے یار و مددگار تھیں کیونکہ ان کے مردوں کو یا تو مار دیا گیا تھا یا وہ لاپتہ تھے۔ یہ اس بھارت کی مسلم خواتین کی حالت زار ہے جس دیس میں گنگا بہتی ہے اور جو پوری دنیا میں اپنی جمہوریت اور سیکولرزم کا ڈھنڈورا پیٹتا رہتا ہے اور جس سے ہم امن کی آشا لگائے ہوئے ہیں۔ ان معصوم خواتین کا سب سے بڑا قصور یہی تھا کہ یہ مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ افسوس کہ ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزارنے والی ان خواتین کی صورت حال پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ ہائے ہائے!

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

خواتین کے حقوق کی چیمپئن مقامی اور عالمی تنظیموں اور لاکھوں این جی اوز کی بے حسی پر جتنا بھی ماتم کیا جائے وہ کم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان سب کو سانپ سونگھ گیا یا پھر انھیں زمین نگل گئی۔ ویمن پروٹیکشن کی دعوے دار ہزاروں تنظیمیں جو بظاہر خواتین کے حقوق کے تحفظ کے نام پر لاکھوں ڈالر کھاتی ہیں حوا کی ان مظلوم بیٹیوں کے مظالم پر چپ سادھے اور آنکھیں موندے ہوئے کیوں بیٹھی رہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سنگین ظلم کے خلاف دنیا بھر میں آواز کیوں نہ اٹھائی گئی؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان مظلوموں کے تاریک اور غیر یقینی مستقبل کے بارے میں بھارت اور دنیا کے دیگر ممالک میں کیا کیا جا رہا ہے اور اس کا عالمی سطح پر چرچا کیوں نہیں کیا جارہا؟

غنیمت ہے کہ وطن عزیز میں تحفظ نسواں کا کچھ نہ کچھ خیال ضرور کیا جارہا ہے جس کا تازہ ترین ثبوت وہ 16 روزہ مہم ہے جس کا آغاز گزشتہ دنوں EVAWG نامی انجمن کے زیر اہتمام کیا گیا اور جو 10 دسمبر کو منائے جانے والے انسانی حقوق کے عالمی دن تک جاری و ساری رہے گی۔ اس مہم کا بنیادی مقصد حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ہے کہ خواتین کی حیثیت سے متعلق قوانین پر موثر انداز میں عمل درآمد کرایا جائے اور تمام متعلقہ شعبوں کو اس سلسلے میں متحرک و فعال بتانے کی ترغیب دی جائے۔ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کی علمبردار انجمن EVAWG کی جانب سے اس موقعے پر خصوصی مجالس کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔

یہ امر باعث تشویش اور فوری توجہ کا مستحق ہے کہ وطن عزیز میں خواتین کی عصمت دری، انھیں ہراساں کرنے اور ان پر تشدد کے واقعات میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس صورت حال پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا۔ EVAWG کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک سے متعلق تمام فرسودہ قوانین کا خاتمہ کرے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ خواتین کی غالب اکثریت کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وطن عزیز کے قوانین کے تحت انھیں کیا تحفظات حاصل ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ قابل رحم ہمارے دیہی علاقوں کی خواتین ہیں جو ان تمام باتوں سے بالکل لاعلم اور قطعی بے خبر ہیں اور جو مسلسل ظلم کی چکی میں دن رات بری طرح پسے چلی جارہی ہیں۔ ہمارے میڈیا پر بہت بڑی ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار موثر انداز میں ادا کرے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق گھر سے باہر جانے والی 63 فیصد خواتین اپنے آپ کو بالکل غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں جب کہ ان میں سے 55 فیصد ہراساں کیے جانے والے واقعات کا شکار ہوچکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔