نیوکلیئر ڈیل ، ایران کی جیت

عرفان علی  پير 2 دسمبر 2013

ای تھری /ای یو تھری پلس تھری (E3/EU3+3) میں ای تھری یا ای یو تھری کا مطلب یورپی یونین کے تین ممالک اور پلس تھری یعنی جمع تین سے مراد امریکا، روس اور چین ہیں۔ یہ اصطلاح جرمنی کے وزیر خارجہ نے وضع کی کیونکہ اس گروپ کے لیے دوسری اصطلاح یعنی پانچ جمع ایک میں جرمنی کی حیثیت ثانوی نظر آتی تھی۔پاورز (یا گروپ) پانچ جمع ایک کا مطلب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاورز کے حامل پانچ ممالک امریکا ، روس، برطانیہ ، فرانس اورچین تھے اورجمع ایک میں جرمنی آتا تھا۔

ان ممالک نے صدر روحانی کی حکومت کے دور میں سوئٹزر لینڈ کے عالمی شہرت یافتہ شہر جنیوا میں تین مرحلوں میں طویل گفت و شنید کے بعد ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میںایک عبوری معاہدے پر اتفاق کرلیا ہے۔ جنیوا راؤنڈ تین میں چاردن کے تھکادینے والے مذاکرات کے بعد بالآخر پانچویں روز یہ عبوری معاہدہ طے پایا ۔ دنیا بھر کے ذرایع ابلاغ کی شہ سرخی اور پوری دنیا میں ایک بہت بڑی اوراہم خبر کے طور پر سنا ، دیکھا اور پڑھا گیا۔چار صفحات پر مشتمل اس عبوری معاہدے کو ایران کی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔

یہ معاہدہ جسے جوائنٹ ایکشن پلان (مشترکہ منصوبہ عمل ) کا عنوان دیا گیا ہے چھ ماہ کے لیے نافذالعمل رہے گا۔ اور اس میں زیادہ سے زیادہ مزید چھ ماہ کی توسیع کی جاسکتی ہے لیکن درمیانی عرصے میں فریقین کو ایک جامع حل پر مبنی طویل المدت معاہدہ کرنا پڑے گا۔عبوری معاہدے میں فریقین نے رضاکارانہ طور پر کچھ کام کرنے پر اتفاق ظاہر کیا ہے۔آٹھ عنوانات کے تحت ایران اور نو عنوانات کے تحت ای تھری پلس تھری ممالک کو چھ ماہ تک کچھ کام کرنے ہیں۔ ایران کو کیا کیا کرنا ہے یہ امریکی حکومت نے بڑے فخر سے تفصیلی طور پر نشر کردیا ہے لیکن ای تھری پلس تھری نے کیا کرنا ہے اس کی تفصیلات کو تفصیل سے بیان نہیں کیا جارہا ۔

اس لیے پہلے یہ بیان کردیں کہ ایران نے اس عبوری معاہدے سے ایسی کون سی چیز حاصل کرلی جسے امام خامنہ ای ، صدر روحانی اور وزیر خارجہ جواد ظریف نے ایران کی کامیابی قرار دیا۔ پہلی مرتبہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے یورینیم کو پانچ فیصد تک افزودہ کرنے کے ایرانی حق کوچھ ماہ کے لیے ہی سہی لیکن تسلیم کیا ہے اور ایران سے تقاضا کیا ہے کہ یورینیم کی جتنی مقدار اس نے بیس فیصد تک افزودہ کرلی ہے اس کے نصف کو پانچ فیصد تک افزودگی میں تبدیل کرے۔

اس عبوری معاہدے کے فقط ایک گھنٹے بعد امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ ایران کے حق افزودگی کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ ایک دن بعد برطانوی وزیر خارجہ نے ٹوئٹر پر اسی نوعیت کا بیان جاری کیا ۔ان بیانات کو بنیاد بنا کر ایران میں صدر روحانی کی حکومت پر تنقید بھی کی گئی ہے کہ یہ معاہدہ تو متنازعہ بیان کی وجہ سے ایک گھنٹے بھی نہیں چل پایا ۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس معاہدے پرصہیونی وزیر اعظم نیتن یاہوکے ردعمل کے پیش نظرامریکی و برطانوی وزرائے خارجہ کو ایسے بیانات دینے پڑے۔

اس عبوری معاہدے میں ای تھری پلس تھری نے یقین دلایا ہے کہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کی وجہ سے اقوام متحدہ ، امریکا اور یورپی یونین مزید پابندیاں عائد نہیں کریں گے۔ایران کے خام تیل کی فروخت کو مزید کم کرنے کی کوششیں روک دیں گے جس سے خریدار موجودہ اوسط مقدار تک ایرانی تیل خریدسکیں گے۔وہ رقوم جو اس مد میں دیگر ممالک میں روک دی گئی تھیں اس کی ایران کو ادائیگی کردی جائے گی۔اس نوعیت کے سودوں اور انشورنس اور ٹرانسپورٹیشن پر امریکی اور یورپی یونین کی پابندیاں معطل کردی جائیں گی۔

ایران کی پیٹرو کیمیکل برآمدات اور اس سے متعلق سروسز پر اور سونے اور دیگر دھاتوں کی فروخت پر عائد امریکی و یورپی یونین پابندیاں معطل کردی جائیں گی۔ایران کی آٹو انڈسٹری اور اس سے متعلق سروسز پر امریکی پابندیاں معطل کردی جائیں گی۔ ایران کی سول ایوی ایشن کی پروازوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے متعلقہ سروسز کے لیے فاضل پرزہ جات کی اجازت، فراہمی اور تنصیب اور بعد ازاں معائنوں اور مرمت وغیرہ کے لیے سیفٹی لائسنس بھی جاری کردیے جائیں گے۔

اس عبوری معاہدے کے تحت ایسا مالیاتی چینل قائم کیا جائے گا جس سے انسانی بنیادوں پر ایران سے تجارت کی جاسکے گی۔اس سے ایران کے فروخت شدہ تیل کی آمدنی کو ایران کی غذائی، زرعی ، طبی شعبے کی داخلی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرنے دیا جائے گا ۔اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کو فنڈز اور دیگر ممالک کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ایرانی طلبا وطالبات کی فیسوں کی ادائیگی کو بھی اسی مالیاتی چینل کے تحت یقینی بنایا جائے گا۔

جن شعبو ں میں ایران پر پابندیاں عائد نہیں کی گئی ہیں، ان شعبوں میں مخصوص مالیت تک کے سودوں پر مبنی تجارت میں یورپی یونین اضافہ کرے گی۔ملاحظہ فرمائیے کہ ایران پر غیر قانونی طور پر عائد کی گئی پابندیوں میں کمی سے ایران کووقتی طور پر جو سہولیات میسر ہوں گی وہ ایران کے بعض اہم مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ایران کا پروگرام پہلے سے ہی توانائی کے بین الاقوامی ادارے آئی اے ای اے کی زیر نگرانی ہے۔ لہٰذا وقتی طور پر صرف پانچ فیصد تک یورینیم کی افزودگی پر ایران کی رضامندی ایک سال کے اندر ایک جامع اور طویل المدت معاہدے کے لیے ای تھری پلس تھری کو دی گئی ایک وقتی رعایت ہونی چاہیے۔ نیوکلیئر ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی کے آرٹیکل چارکے تحت ایران سویلین مقاصد کے لیے اس سے بھی زیادہ مقدار تک یورینیم افزودہ کرنے کا حق رکھتا ہے، ایران کی حکومت ہر گز اس حق سے دست بردار نہ ہو۔

عبوری معاہدے میں کہاگیا ہے کہ یورینیم کی افزودگی کے لیے کوئی نئی تنصیبات نہیں ہوں گی، یا نئے سینٹری فیوجز نصب نہیں کیے جائیں گے ، کوئی ری پروسیسنگ نہیں ہوگی یا نئی تنصیبات برائے ری پروسیسنگ نہیں قائم کی جائے گی، اسے جامع حل پر مبنی طویل المدت معاہدے کا حصہ نہ بننے دیا جائے۔ بلکہ این پی ٹی کے تحت اسے جو بھی حق ایران کو حاصل ہیں ، ان سے دست برداری پر مبنی ہر شرط کو مسترد کردیا جائے۔ جامع و طویل المدت معاہدے میں این پی ٹی ہی کو معیار بنایا جائے۔ یہ بات قابل اطمینان ہے کہ عبوری معاہدے یا جوائنٹ ایکشن پلان میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جو جامع اور طویل المدت معاہدے طے پائے اس میںنان ۔پرولی فیریشن۔ ٹریٹی ( این پی ٹی) انٹر نیشنل ایٹمی انرجی ایجنسی کے رکن ممالک کی حیثیت سے فریقین کے جو حقوق اور فرائض بنتے ہیں ، وہ اس میں تسلیم شدہ ہوں۔

جامع معاہدے کا مطلب ایران پر عائد پابندیاںمکمل طور پر ختم کردی جائیں گی اور تجارت، ٹیکنالوجی ، فائنانس اور انرجی کے شعبوں میں ایران کو بین الاقوامی سطح کی رسائی حاصل ہوجائے گی۔ ایران کا نیوکلیئر پرگرام این پی ٹی میں تسلیم شدہ ناقابل تنسیخ حقوق کے تحت آج تک مکمل طور پر قانونی اور پر امن ہے لہٰذا ایران پرپابندیاں غیر قانونی ہیں ۔دراصل ایران کو قومی غیرت اور خودمختاری و آزادی پر عمل پیرا رہنے کی سزا دی گئی ہے ۔

امریکی صدر کا یہ بیان کہ پابندیوں کی وجہ سے ایران مذاکرات پر آمادہ ہوا، سراسر غلط بیانی ہے کیونکہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے عبوری معاہدے کے بعد گفتگو میں خود کہا کہ جب پابندیاں لگیں تب ایک سو چونسٹھ سینٹری فیوجز تھے اور آج ایران کے پاس انیس ہزار سینٹری فیوجز ہیں۔امریکی صدر سمیت پوری دنیا دیکھ لے کہ پابندیوں کے باوجود محمود احمدی نژاد کی صدارت میں ایران کی حکومت نے یورینیم کو اس حد تک افزودہ کرکے دکھایا کہ جتنی حد تک بین الاقوامی قوانین اجازت دیتے ہیں۔یعنی پابندیوں کوقدموں تلے روند کر ایرانی حکومت اور ملت نے ثابت قدمی سے خود انحصاری کو کامیابی کی کنجی ثابت کردکھایا۔اس کے ساتھ ہی ایران نے عالمی سطح پر ایک ذمے دار ریاست کے طور پر بھی خود کو منوالیا کیونکہ اگر ایران چاہتا تو نیو کلیئر اسلحے کی تیاری میں کام آنے والی سطح تک بھی یورینیم کو افزودہ کرسکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ ثابت ہوا کہ ایران کا مقصد ایٹم بم کی تیاری نہیں تھا بلکہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام مکمل طور پر امن تھا اور ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔