آئیڈیل معاشرہ

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 2 دسمبر 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

لندن ایئرپورٹ پر ایک پاکستانی خاندان طیارے میں سوار ہونے کا منتظر تھا کہ اچانک اس خاندان کی لڑکی تیزی سے بھاگتی ہوئی ایئرپورٹ سے باہر آگئی، والدین بھی اس کے پیچھے بھاگے کہ کسی طرح اس کو واپس لایا جائے مگر لڑکی نے سیکیورٹی آفیسر سے تحفظ کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ اس کے والدین زبردستی اسے پاکستان لے جانا چاہتے ہیں۔ سیکیورٹی کے حرکت میں آتے ہی والدین بے بس ہوگئے کیونکہ وہاں کا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ والدین اپنی بیٹی کے ساتھ زبردستی کریں۔ سیکیورٹی افسر کے پوچھنے پر لڑکی نے بتایا کہ اس کے والدین اسے پاکستان لا کر اس کی شادی زبردستی کسی پاکستانی سے کرانا چاہتے ہیں اس کو اس بات کا علم اس وقت ایئرپورٹ پر ہوا جب کاغذات سے پتہ چلا کہ والدین کے تو واپسی کے ٹکٹ ہیں لیکن اس (لڑکی) کے نہیں ہیں۔

مذکورہ واقعے میں لڑکی کے والدین مغربی ماحول کو لڑکی کے لیے درست نہیں سمجھتے تھے اور پاکستان ہی میں کسی لڑکے سے بیٹی کی شادی کرانا چاہتے تھے جب کہ لڑکی جو مغربی ماحول میں پرورش پا چکی تھی وہ اپنی زندگی کے مزید ایام بھی اسی مغربی دنیا میں گزارنا چاہتی تھی اور پسند کی شادی کرنا چاہتی تھی۔ کچھ اسی قسم کے حالات کے حوالے سے گزشتہ روز ایک اخبار میں لاہور ہائیکورٹ کا تبصرہ پڑھنے کو ملا جس میں کہا گیا کہ گھر سے بھاگ کر ہونے والی شادیوں نے معاشرے کو تباہ کردیا ہے۔ زیادہ تر لو میرج کا انجام لڑائی جھگڑے اور طلاق کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نہ تو مشرقی روایات کی پاسداری پوری طرح کرتے ہیں اور نہ ہی مغرب کی تقلید کرتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ کھچڑی بن گیا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ بعض قارئین اس سے اتفاق نہ کریں لیکن جو قارئین باقاعدگی سے اخبارات کی تمام تر خبریں پڑھتے ہیں انھیں ضرور اندازہ ہوگا کہ اس حوالے سے ہمارے معاشرے کی صورت حال کس قدر گمبھیر ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں آخر ’’کورٹ میرج‘‘ تک بات کیسے پہنچتی ہے؟ ظاہر ہے کہ جب لڑکا اور لڑکی اپنے والدین کو باقاعدہ شادی کے لیے راضی نہ کرسکیں تو پھر مجبوراً دوسرا راستہ کورٹ میرج کا رہ جاتا ہے اور اگر والدین دباؤ میں آکر شادی پر راضی ہوجائیں تو پھر عموماً غیر روایتی انداز میں سادگی کے ساتھ نکاح پڑھا دیا جاتا ہے۔

لیکن اس سے بھی اہم ترین اور بنیادی سوال ہے اور وہ یہ کہ پاکستان جیسے معاشرے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی لڑکے اور لڑکی کے آپس میں روابط، بات چیت کا سلسلہ قائم ہوجائے خاص کر ایسے حالات میں کہ جب لڑکی اسکول، کالج یا یونیورسٹی جائے یا کہ پڑوس میں کچھ دور جائے اسے والد یا بھائی منزل تک چھوڑتا بھی ہے اور واپسی لے کر بھی آتا ہے۔

اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے کہ مخلوط تعلیمی یا ملازمت کا ماحول اور موبائل فون یا نیٹ کی سہولت۔ یہ وہ راستے ہیں کہ جہاں سے کسی لڑکے یا لڑکی کا بات چیت کا راستہ کھل جاتا ہے پھر جس طرح اب بیشتر گھرانوں میں فلمیں یا ٹی وی چینلز دیکھنے کے لیے دستیاب ہوتے ہیں وہ سونے پر سہاگہ کا کام انجام دیتے ہیں۔ بالغ ہونے کے بعد جب نکاح جیسی ضرورت کو والدین مجبوری یا کسی اور وجہ سے نظرانداز کردیں تو پھر مخلوط ماحول وہ سب کچھ مہیا کردیتا ہے جس کی جانب لاہور ہائیکورٹ نے اشارہ کیا ہے۔

بات واضح ہے، سیدھی ہے کہ یا تو ہم مغرب کی طرح مخلوط ماحول اور آزادی کو قبول کرلیں مکمل طور پر یعنی اپنی اولاد کو رات بھر کیبل، نیٹ کی سہولت دیں اور پھر صبح کو مخلوط ماحول میں تعلیم یا ملازمت کے لیے مکمل آزادی بھی دیں تو پھر اگلے مرحلے میں مرضی کے نکاح کی بھی آزادی دیں اور اولاد کے فیصلے کو قبول کریں اور اگر ایسا نہیں کرتے اور اپنا روایتی کلچر نکاح کے معاملے میں بھی چاہتے ہیں تو پھر اس مخلوط ماحول کو بھی جڑ سے کاٹ پھینکیں۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ بالغ اولاد رات بھر لو اسٹوری پر مبنی فلمیں بھی دیکھیں، صبح تعلیمی اداروں میں مخالف جنس سے دوستیاں بھی کریں مگر نکاح کے معاملے میں اسی پرانے روایتی مشرقی کلچر کے تحت والدین کی مرضی پر سر جھکا دیں۔

آج کل تفریحی پارکس ہی نہیں محلوں کے پارکس حتیٰ کہ قائد اعظم کے مزار پر بھی جائیں تو معلوم ہوگا کہ رشتے آسمانوں پر نہیں یہاں بنتے ہیں، جب تک یہ مناظر پارکس میں ملتے رہیں گے، اولاد گھر سے بھاگ کر پسند کی شادی اور دیگر حرکات بھی کرتی رہیں گی ۔ اگر اس ماحول اور کلچر کو بدلنا ہے تو پھر مخلوط ماحول کے فروغ پر یا اس کو اپنانے پر بھی غور کرنا ہوگا۔ کراچی کے ایک بڑے معروف اسکول نے جہاں امرا کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں محض اس وجہ سے مخلوط تعلیم کا نظام ختم کردیا کہ وہ اسکول کے بچوں کو غلط کاموں سے روک نہیں سکتے تھے اور یہ غلط کام والدین اور اسکول دونوں کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔

جب تک ہمارے معاشرے میں گھر گھر کیبل ٹی وی چینلز، موبائل فون کی سہولت نہیں تھی اور مخلوط تعلیمی ادارے اور ملازمتوں کے ماحول بھی مخلوط نہیں تھے اس قسم کے مسائل بھی نہیں تھے۔ موبائل اور نیٹ کی سہولت نے تو گھر بیٹھے ہی مخلوط ماحول مہیا کردیا ہے کہ ایک مڈل کلاس علاقے کا لڑکا غیر ملکی لڑکی کو پاکستان بلاکر بھی شادی کرسکتا ہے پھر بھلا ایک ہی شہر اور محلے میں اس مخلوط ماحول کے اثرات کیوں نہ نظر آئیں۔

بات واضح ہے اور سمجھ میں آنے والی ہے کہ اگر آپ اپنی اولاد کو اس قسم کے حادثات وحالات سے بچاکر رکھنا چاہتے ہیں تو پھر انتہائی مضبوط مشرقی کلچر والی تربیت کریں کہ اولاد خود ہی اس ماحول سے اپنے آپ کو بچا کر رکھے یا پھر آپ مخلوط ماحول کے مندرجہ بالا بیان کردہ مواقعے ہی ختم کردیں کہ آپ کی اولاد قطعی طور پر محفوظ اور آپ کے کلچر کے مطابق آپ کی تابعدار اور فرمانبردار ہوں۔

اگر یہ نہیں تو پھر ان حالات یا اس انجام سے سامنا کرنے کے لیے بھی تیار رہیں جہاں مغرب میں اولاد وہ گل کھلاتی ہے کہ جس کو دیکھ کر ہمارے معاشرے کے والدین مرنا زیادہ بہتر تصور کرتے ہیں۔ مغرب کے بارے میں وہ والدین زیادہ بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں جو خود اپنے خاندان کے ساتھ اپنی زندگی کا طویل حصہ وطن سے باہر مغربی معاشرے میں گزارتے ہیں مگر جب ان کی اولاد جوان ہوتی ہے تو پھر وہ سیدھا اپنے وطن کا رخ کرتے ہیں جہاں ان کا اپنا کلچر ہوتا ہے یعنی وہ مغرب میں محض معاشی لحاظ سے رہتے ہیں عملاً وہ سمجھتے ہیں کہ رہنے کے لیے مغربی معاشرہ آئیڈیل نہیں بلکہ ان کا اپنا وطن ہے حیرت ان پر ہے جو مغرب کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔