حددرجہ احتیاط

ایم جے گوہر  پير 2 دسمبر 2013

اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ یوم عاشور کے موقعے پر راولپنڈی میں ہونیوالے افسوس ناک سانحے کے حوالے سے ہمارے ریٹنگ کے شوقین تیز رفتار الیکٹرانک میڈیا نے حالات کی سنگینی اور وقت کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے اپنی روایتی انداز یعنی لمحہ بہ لمحہ ’’لائیو کوریج‘‘ سے گریز کی پالیسی اختیار کر کے انتہائی ذمے داری اور دور اندیشی کا ثبوت دیا اور اشتعال انگیز ’’بریکنگ نیوز‘‘ سے کسی نئے فتنے اور جذباتی ماحول پیدا کرنے سے حد درجہ احتیاط کا مثالی مظاہرہ کیا جس کی ہر جانب سے تحسین کی جارہی ہے اور یہ توقع بھی کہ آیندہ بھی یہ پالیسی جاری رہے گی۔

الیکٹرانک میڈیا کے اسی ذمے دارانہ رویے کے باعث ابتدا میں سانحہ راولپنڈی کی شدت اور سنگینی کا درست اندازہ نہ ہوسکا تاہم حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ نے جب راولپنڈی میں کرفیو نافذ کیا تو شکوک و شبہات جنم لینے لگے خدشات و تحفظات کا اظہار سامنے آیا پھر انٹرنیٹ پر سانحہ پنڈی کے حوالے سے جو مواد اپ لوڈ کیا گیا اس نے دلخراش سانحے کی شدت میں مزید اضافہ کردیا اور فرقہ وارانہ تعصب و مذہبی منافرت کی پہلے سے موجود فضا مزید آلودہ ہوتی نظر آنے لگی جیساکہ ملتان، جھنگ، بہاولپور اور دیگر علاقوں میں سانحہ راولپنڈی کے ردعمل میں احتجاج اور ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی۔ نہ صرف 10 قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہوا بلکہ مسجد راجہ بازار کی مدینہ مارکیٹ کی متعدد دکانوں کو شر پسند عناصر نے نذر آتش کردیا مسجد کی حرمت پامال ہوئی اور تاجروں کو لاکھوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیارشہر کی حفاظت کا فول پروف انتظام نہ کرسکے جو یوم عاشور جیسے حساس دن کی مناسبت سے راولپنڈی میں کیے جانے چاہیے تھے۔ حکمران جن کی ’’گڈ گورننس‘‘ کا اہل اقدار ’’ڈنکا‘‘ بجاتے نہیں تھکتے تھے وہ بھی محل وقوع کی نزاکت کو سمجھنے اور منظم سیکیورٹی انتظام کرنے میں ناکام رہے نتیجتاً ایسا دلسوز واقعہ رونما ہوا کہ جس نے اہل پاکستان کو ہلا کے رکھ دیا۔ بعض مبصرین اور تجزیہ نگار سانحہ راولپنڈی کو خالصتاً سیکیورٹی لیپس قرار دے رہے ہیں تو کچھ غلط بھی نہیں کیونکہ یہ فول پروف انتظامات ہی کا نتیجہ ہے کہ کراچی اور کوئٹہ جیسے حساس شہروں میں یوم عاشور پر دہشتگردی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا بالخصوص کراچی میں مکمل سکون رہا سندھ حکومت، رینجرز اور پولیس نے عاشورہ کے جلسوں و مجالس کی کڑی نگرانی کی۔

اگر کراچی میں ڈی جی رینجرز اور ایڈیشنل آئی جی پولیس شاہد حیات کی کارکردگی کو سراہا جاتا ہے تو وہ بجا طور پر اس کے مستحق ہیں کہ وہ کراچی میں قیام امن کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں اس کے کچھ نہ کچھ ثمرات بہرحال نظر آرہے ہیں لیکن سانحہ راولپنڈی نے تو وہاں کی انتظامیہ اور پولیس کی کارکردگی کے ڈھول کا پول کھول دیا ہے۔ ارباب اختیار کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ پولیس میں اعلیٰ سطح پر تبادلوں کا ’’جمع بازار‘‘ لگا دینے سے نااہلیوں کو چھپایا نہیں جاسکتا جیساکہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ اور درست کہا ہے کہ تبادلے کافی نہیں غفلت برتنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے سانحہ راولپنڈی پر بحث کے لیے پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ صحیح صورتحال سامنے آئے۔

سانحہ راولپنڈی کے خلاف اور متاثرین واقعہ سے اظہار ہمدردی کے لیے وفاق المدارس اور دینی و مذہبی جماعتوں کی اپیل پر جمعے کو ملک بھر میں یوم احتجاج منایا گیا ۔ احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے سانحے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ یوم احتجاج پر کراچی میں ہونیوالے دو بم دھماکوں میں 7 افراد لقمہ اجل بن گئے اس افسوسناک واقعے نے ماحول کو ایک مرتبہ پھر سوگوار کردیا۔ ادھر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سانحہ راولپنڈی پر ایک کیس کی سماعت کے دوران حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے بالکل درست کہا کہ پولیس اگر قابل ہوتی تو راولپنڈی جیسے واقعات رونما نہ ہوتے، آر پی او پنڈی جیمز بانڈ کی طرح ہیلی کاپٹر میں گھومتے رہے اور دوسرا پولیس افسر ایمبولینس میں چھپ کر فرار ہوگیا۔

چیف جسٹس کے بقول صرف پھرتیاں دکھائی جارہی ہیں، تبادلے کرکے معاملے کو ختم کردیا گیا جو معاملہ حل نہ کرنا ہو اسے کمیٹیوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کراچی پولیس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ مشکل حالات میں بھی کام کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کے یہ ریمارکس ارباب اقتدار کی کارکردگی کے آگے سوالیہ نشان کے مترادف ہیں اور ان میں حکمرانوں کے لیے ایک پیغام بھی پوشیدہ ہے اگر وہ اسے سمجھنا چاہیں تو وگرنہ۔۔۔۔بین بجانے کا فائدہ کیا؟

حکومت نے سانحہ راولپنڈی کی تحقیقات کے لیے جسٹس مامون الرشید شیخ کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن تشکیل دے دیا ہے جو اس دلخراش سانحے کا ہر پہلو سے جائزہ لے کر اپنی رپورٹ پیش کریگا۔ آپ تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں کہ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے نزدیک کسی بھی واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیشنوں اور کمیٹیوں کی تشکیل کا بظاہر یہی مطلب لیا جاتا رہا ہے کہ وقتی طور پر سانحے کی شدت و اثرات کو کم اور متاثرین کو مطمئن کیا جاسکے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمیشن یا کمیٹی کی رپورٹس کو تاریخ کے اوراق میں گم کردیا جائے یہی ہماری روایت بنتی جارہی ہے۔ شاذ ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ کسی عدالتی کمیشن یا کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کسی سانحے کے ذمے داروں کے چہرے بے نقاب ہوتے ہوں اور انھیں کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس کو بھی یہ کہنا پڑا کہ جو معاملہ حل نہ کرنا ہو اسے کمیٹی کے حوالے کردیا جاتا ہے تاہم یہ امر خوش آیند ہے کہ سانحہ راولپنڈی کی تحقیقات کے لیے قائم عدالتی کمیشن کے سربراہ جسٹس مامون نے ایک تقریب میں کہا ہے کہ سانحے کی شفاف انکوائری ہوگی اور کمیشن تحقیقات کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت کا مستقل حل اور ایسے واقعات کے بچاؤ کا حل بھی تجویز کریگا۔ ہمیں جسٹس مامون کی قابلیت، صلاحیت، نیک نیتی اور جذبے پر قطعاً کوئی شبہ نہیں ہے اور ہم دعا گو بھی ہیں کہ وہ ایسا کوئی نسخہ کیمیا دریافت کرلیں جو ملک میں فرقہ واریت کے خاتمے کی بنیاد بن سکے اور ہر مسلک کے لیے قابل قبول بھی وگرنہ زمینی حقائق تو بڑے تلخ ہیں اور اس تفرقے کی شدت تاریخ میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہے اور ماضی میں اس حوالے سے جتنی بھی کوششیں ہوئی ہیں سب رائیگاں ہی گئیں اس حوالے سے ملی یکجہتی کونسل کی مثال آج بھی دی جاتی ہے۔ کاش کہ جسٹس مامون فرقہ واریت کے جن کو بوتل میں بند کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔