موذی وائرسوں کے اڑتے پھرتے مسکن

جنید علی شاہ  اتوار 19 اپريل 2020
بنی نوع انسان کی صحت وبقا خطرے میں ڈالنے والے کورونا وائرس کی سبھی اقسام ایک اڑن ممالیہ میں ملتی ہیں۔ فوٹو: فائل

بنی نوع انسان کی صحت وبقا خطرے میں ڈالنے والے کورونا وائرس کی سبھی اقسام ایک اڑن ممالیہ میں ملتی ہیں۔ فوٹو: فائل

دنیا بھر میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا دینے والی وبا،کوویڈ 19نے سارس کوو  2 وائرس سے جنم لیا۔یہ وائرس ہارس شو نامی ایک چمگادڑ سے انسان میں منتقل ہوا۔

اس سے قبل سارس،مرس،ایبولا،مربرگ وائرس بھی انسانوں کو نشانہ بنا چکے اور یہ سبھی چمگادڑوں سے انسانوں میں آئے۔سارس کوو 2،سارس اور مرس وائرسوں کے ’’کورونا وائرس‘‘خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔اس خاندان میں کورونا وائرسوں کی ’’چالیس اقسام‘‘ شامل ہیں۔اور یہ سبھی چمگادڑوں میں پائے جاتے ہیں۔

زمانہ قدیم سے جانوروں کے اجسام میں پلتے وائرس اور جراثیم وغیرہ انسانوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔پچھلی صدی میں ایڈز کا وائرس بندروں سے انسان میں آیا۔مگر پچھلے دو عشروں سے چمگادڑوں کے ذریعے آنے والے وائرسوں نے بنی نوع انسان پر دھاوا بول رکھا ہے۔آخر اس انہونی کی کیا وجہ ہے؟حالیہ ماہ مارچ میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا،برکلے(امریکا)سے منسلک ماہر حیاتیات،پروفیسر کلارا بروک نے اپنی ٹیم کے ساتھ اسی سوال ہر تحقیق کی اور جواب پا لیا۔

اس تحقیق کے مطابق چمگادڑ فضا میں پرواز کرنے والا دنیا کا واحد ممالیہ ہے۔اڑتے ہوئے ہر جاندار کی بہت زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے۔پرندوں کا جسمانی نظام مگر قدرتاً اڑنے کے لیے بنا ہوتا ہے،اس لیے انھیں پرواز کرتے ہوئے زیادہ دقت پیش نہیں آتی۔لیکن چمگادڑوں کو زمین سے فضا میں ہجرت کرتے ہوئے خصوصی جسمانی نظام تشکیل دینا پڑا تاکہ وہ پرواز کے قابل ہو سکیں۔اسی نظام کو بناتے ہوئے ان کے چاروں بازوؤں اور ٹانگوں نے پروں کی شکل اختیار کر لی۔

جب اس انوکھے جسمانی نظام کا ارتقا جاری تھا تو اسی دوران چمگادڑوں کا مدافعتی نظام (immune system)بھی زیادہ طاقتور ہو گیا۔اس بڑھتی قوت مدافعت سے چمگادڑوں کو اڑنے میں مدد ملی۔دوسرا بڑا فائدہ یہ ملا کہ وائرسوں اور جراثیم کے لیے انھیں نشانہ بنانا کٹھن مرحلہ بن گیا۔یہ قباحت بھی مگر سامنے آئی کہ بعض ہٹ دھرم اور ضدی وائرس چمگادڑوں کے بدن میں داخل ہونے کی خاطر اپنی جینیاتی ہیئت میں تبدیلیاں لانے لگے۔ سائنسی اصطلاح میں یہ تبدیلیاں ’’تغیر‘‘(mutation)کہلاتی ہیں۔مقصد یہ ہے کہ وائرس کسی نہ کسی طرح چمگادڑ یا دوسرے حیوانیات کے جسم میں داخل ہو کر اپنی بقا کا سامان پیدا کر لیں۔یوں رفتہ رفتہ وائرسوں کی نئی اقسام سامنے آ گئیں ۔یہ ماضی کی نسبت زیادہ طاقتور اور خطرناک وائرس تھے۔

یہ نئے وائرس عمل تغیر کی مدد سے چمگادڑوں کے جسم میں داخل ہونے میںتو کامیاب ہو گئے مگر انھیں زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکے۔وجہ یہ ہے کہ ان کا مضبوط مدافعتی نظام انھیں بے لگام نہیں ہونے دیتا۔بس جو چمگادڑ کسی وجہ سے کمزور قوت مدافعت رکھے،وہ اسے اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔لیکن جب یہی وائرس کسی طرح انسانوں کے بدن میں داخل ہوئے تو ایک خوفناک بلا کا روپ دھار گئے۔وجہ یہ کہ انسان کا مدافعتی نظام چمگادڑ کے سسٹم کی نسبت کمزور ہے۔اسی لیے خصوصاً نئے کورونا وائرس، سارس کوو  2سے جنم لینے والی وبا نے انسانیت میں تباہی پھیلا دی اور لاکھوں لوگ اس کا ترنوالہ بن گئے۔جب تک کوویڈ 19کی ویکسین ایجاد نہیں ہوتی،وہ وبا خاص طور پہ کمزور مدافعتی نظام رکھنے والوں انسانوں کو دبوچتی رہے گی۔

نرالے حقائق

دنیا میں چمگادڑوں کی بارہ سو زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔یہ مختلف شکل وصورت اور جسامت میں ملتی ہیں۔سب سے چھوٹی  Kitti’s hog-nosed bat ہے جو 29  تا 34 سینٹی میٹر قد رکھتی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی چمگادڑیں ’’اڑن لومڑیاں‘‘کہلاتی ہیں۔ ایک ایسی ہی اڑن لومڑی،  giant golden-crowned flying fox کے پر ساڑھے پانچ فٹ سے زیادہ پھیلے ہوتے ہیں۔تمام چمگادڑوں کو ایک درجے،Chiroptera میں جمع کیا گیا ہے۔ یہ ممالیہ کا دوسرا بڑا درجہ (order)ہے۔زیادہ تر کیڑے مکوڑے یا پھل کھاتی ہیں۔البتہ تین اقسام خون بھی پیتی ہیں۔انہی کو دیکھ کر مغربی ادب میں ’’ویمپائر‘‘کا تصور تخلیق ہوا۔

دوسرے ممالیہ کی طرح چمگادڑ کے بچے ماں کا دودھ پیتے ہیں۔جیسا کہ بتایا گیا، یہ پروا زکی صلاحیت رکھنے والا واحد ممالیہ ہے۔ بعض گلہریاں اور ان سے ملتے جلتے ممالیہ بڑی چھلانگیں لگا سکتے ہیں جو اڑان معلوم ہوتی ہیں لیکن اسے صحیح معنوں میں اڑنا نہیں کہا جا سکتا۔ اڑنے کو ممکن بنانے کے لیے چمگادڑیں اپنی خوراک بہت تیزی سے ہضم کرتی ہیں۔بعض اوقات وہ 30 سے 60 منٹ میں خوراک مکمل ہضم کر لیتی ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کا وزن کم رہتا ہے۔ چمگادڑ کے بارے میں حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ یہ پرندہ کھاتا پیتا بھی منہ سے اور فاصل مادوں کا اخراج بھی منہ ہی سے کرتا ہے۔

چمگادڑوں سے خارج ہونے والے فضلے میں پوٹاشیم نائٹریٹ (قلمی شورے) کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور اسے بطور کھاد بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس میں سے قلمی شورہ نکال کر بارود اور دھماکا خیز مواد تیار کیا جاتا ہے۔ امریکی خانہ جنگی میں چمگادڑوں کے فضلے کو اس مقصد کے لیے بہت زیادہ استعمال کیا گیا۔چمگادڑوں کی تقریباً تمام اقسام درختوں یا دیواروں پہ الٹی لٹکتی ہیں۔دراصل ان کے پاؤں کچھ اس نوعیتکے ہیں کہ وہ الٹی حالت میں آرام محسوس کرتی ہیں۔ جب وہ اڑنے کے لیے تیار ہوں تو خود کو نیچے پھینک دیتی ہیں۔ گرنے سے پیدا ہونے والی رفتار انہیں اڑان بھرنے میں مدد دیتی ہے۔ عام پرندوں کی ٹانگیں چمگادڑوں کے برعکس لمبی اور مضبوط ہوتی ہیں، اس لیے وہ دوڑ کر اڑان بھر سکتے ہیں۔ تاہم چمگادڑوں کی چھ اقسام الٹا نہیں لٹکتیں۔

ماحول دوست خاصیتیں

چمگادڑ کو ویسے ماحول دوست اور کسان دوست مانا جاتا ہے۔وہ فصلیں تباہ کرنے والے کیڑے مکوڑے کھا کے کسانوں سے دوستی نبھاتی ہیں۔ پودوں کی پولی نیشن میں تعاون کرکے ماحول دوستی کا ثبوت دیتی ہیں۔ چمگادڑیں غذائی زنجیر برقرار رکھنے کے سلسلے میں بھی اہم ہیں۔

قابل افسوس امر یہ کہ شہری علاقوں میں ان کی آبادی دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔ جنگلات کا کٹاؤ، شہروں میں درختوں کی جگہ لیتی فلک بوس عمارتیں، رات بھر دمکتی چکا چوند روشنیاں، فصلوں کو کیڑے مکوڑوں سے بچانے کے لیے کیڑے مار ادویہ کے استعمال اور پھل دار درختوں کی کمی نے چمگادڑوں کو ناراض کر دیا ہے۔ پُرسکون مسکن کی تلاش میں وہ پاکستان کے بڑے شہروں سے ہجرت پر مجبور ہو چکیں۔کنبوں کی صورت میں رہنے والی چمگادڑوں کا ایک کنبہ سینکڑوں سے ہزاروں ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔ لاہور میں چمگادڑیں کم ہوتی ہوتی اب صرف باغ جناح اور گورنر ہاؤس کے چند گھنے درختوں تک محدود ہوگئی ہیں

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ چمگادڑوں کی تعداد میں کمی سے قدرتی ایکو سسٹم (ecosystem)توازن کھو دی گا۔ مچھر، مکھیوں اور دیگر کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں اضافے سے انسان بیماریوں میں مبتلا ہوگا۔ فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کی تعداد بڑھنے سے غذائی قلت بھی ہوسکتی ہے۔ماہرین جنگلی حیات بتاتے ہیں کہ چمگادڑیں پرندوں کی نسبت پولی نیشن میں زیادہ متحرک ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان کی تعداد میں کمی سے پودوں، پھولوں اور پھلوں کی پیداوار متاثر ہو گی۔ چمگادڑیں سات سو سے زائد اقسام کے پودوں کی پولی نیشن کرتی ہیں، جن میں کیلے، آم، آڑو، اور انجیر کے پودے شامل ہیں۔پھل کھانے والی چمگادڑیں گودے کی ساتھ بیج بھی کھاتی ہیں۔ پھر فضلے کے ذریعے پھلوں کے بیج دوسری جگہوں پر پہنچا کر پھلدار درخت اگانے میں تعاون کرتی ہیں۔

سوپ نما سالن

انڈونیشیا کے بعض علاقوں میں چمگادڑ کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ جزیرے سولاویسی کے شمالی علاقے میں آباد میناہاسا قبیلے میں چمگادڑ کا سوپ نما سالن ’پانیکی‘ روایتی طور پر مشہور ہے۔پانیکی کی تیاری میں پوری چمگادڑ استعمال ہوتی ہے۔ اس کا سر اور پر بھی جسم سے جڑے ہوتے ہیں۔شمالی سولاویسی کے شہر تموھون میں قائم مارکیٹ میں چمگادڑ فروخت کرنے والے دکان داروں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی خبریں سامنے آنے کے باوجود ان کے کاروبار پر اثر نہیں پڑا ۔اس مارکیٹ میں چمگادڑ فروخت کرنے والے عام دنوں میں 50 سے 60 چمگادڑ یومیہ فروخت کرتے ہیں۔

البتہ جب کوئی تہوار آئے تو اس کی فروخت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔تب یومیہ 500 سے 600 تک چمگادڑیں فروخت ہوتی ہیں۔پانیکی کی تیاری میں چمگادڑ کے جسم کے کچھ حصے نکال دیے جاتے ہیں۔ یہ حصے شدید بدبودار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا استعمال نہیں کیا جاتا۔اس کو پکانے سے قبل آگ پر سینکا جاتا ہے تاکہ اس کے جسم پر موجود بال وغیرہ جل جائیں۔یاد رہے،کئی ماہرین کا دعوی ہے کہ چین کے شہر ووہان کی ایک مارکیٹ سے کرونا وائرس پھیلا جہاں غیر قانونی طور پر مختلف جنگلی جانور بھی فروخت ہوتے تھے ۔ان کو کھانے کے لیے خریدا جاتا تھا۔

’’بازگشت‘‘ کا عمل

عام تاثر کے برخلاف چمگادڑوں کی صرف چھوٹی اقسام صوتی لہروں سے مقام اور رخ کا تعین کرتی ہیں کیونکہ وہ دیکھ نہیں سکتیں۔ بڑی چمگادڑوں کی نظر انسانوں سے بھی بہتر ہوتی ہے۔صوتی لہروں سے راستہ تلاش کرنے کا عمل ’’بازگشت‘‘(echolocation)کہلاتا ہے۔تب چھوٹی چمگادڑ اڑتے ہوئے مسلسل آوازیں نکالتی ہے۔ جب آوازیں کسی شے سے ٹکرا کر واپس آئے،تو وہ جانتی ہے کہ شے کیا ہے،کیسی جسامت رکھتی ہے اور کتنی دور ہے۔ مگر یہ صلاحیت فاصلے کے اعتبار سے کافی محدود ہوتی ہے۔ کچھ اقسام میں یہ دس میٹر یا تیس فٹ کی حد تک رہتی ہے۔

تاہم ایک حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ چمگاڈریں بھی اپنی اس محدود صلاحیت سے واقف ہیں۔ اسی لیے وہ اکثر گروہوں کی شکل میں شکار کرتے ہوئے ایک دوسرے کی آوازوں کو استعمال کرتی اور اپنی حد کو 160 میٹر تک بڑھا دیتی ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح کا کمال ہے جیسا وائی فائی ہاٹ اسپاٹس کا نیٹ ورک انجام دیتا ہے۔

چمگاڈریں خفیہ سن گن لینے کی بھی موثر صلاحیت رکھتی ہیں ۔وہ خوراک حاصل کرنے والی دیگر چمگاڈروں کی باتیں سن کر انہیں اپنی غذا کے حصول کے لیے بطور گائیڈ استعمال کرتی ہیں۔تاہم چمگاڈریں اپنی رینج بہت زیادہ بڑھانے میں ناکام رہتی ہیں۔ وجہ یہ کہ شکاری پارٹی کی تعداد محدود رکھنا پڑتی ہے ورنہ فضا میں آپس میں ٹکرانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔چناں چہ گروہ میں شامل سبھی چمگاڈروں کو  اپنی آوازوں کی حد بڑھانے کے لیے قریب رہنا پڑتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔