تنگ آچکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم

شاہد سردار  اتوار 19 اپريل 2020

تاریخ انسانی میں جب کوئی بڑا بحران پیدا ہوا ہے، تب ہی اکثر بڑے لوگ پیدا ہوئے ہیں، جو دنیا کی قیادت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ یہ بڑے لوگ اپنی قوموں، ملکوں، خطوں یا دنیا کو نہ صرف بحران سے نکالتے ہیں بلکہ بحران کے مایوس کن اثرات سے نجات دلا کر جینے کی نئی امید دیتے ہیں۔

ستم ظریفی کہہ لیں ہماری قوم کی کہ ہمارا کوئی بڑا آدمی وطنِ عزیز کی سرزمین پر موجود نہیں، ہمارا قائد اعظم کے بعد کوئی رہبر کوئی لیڈر نہیں رہا، یوں پاکستان ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف رواں دواں ہے۔ خود احتسابی سے فرار اور احساس تفاخر کے دیرینہ مرض کی وجہ سے جسدِ وطن سے کھلواڑ کا کھیل گزشتہ سات عشروں سے اسی لیے جاری ہے۔

کورونا وائرس کی وبا نے عالمی سطح پر بہت بڑا معاشی بحران پیدا کردیا ہے۔ اس بحران نے پوری دنیا میں سیاسی قیادتوں اور حکمرانوں کو آزمائش سے دوچار کردیا ہے۔ یہ بحران نئی قیادت کو جنم دینے کا موقع بھی ثابت ہو سکتا ہے، ویسے بھی تاریخ میں ہر بحران نئے مواقع کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ مکمل لاک ڈاؤن سے ملک کی 25 فیصد آبادی بھوکی مرجائے گی جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ انھیں یہ اندازہ نہیں کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنیوالی آبادی 25 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔

عمران خان اور ان کے مشیران حکومت شاید اس بات سے لاعلم ہیں کہ گزشتہ دو سالوں میں 22 لاکھ لوگوں کا بے روزگار ہوجانا، اس ملک کی خستہ حال تقدیر کا نوحہ ہی کہلا سکتا ہے۔ واضح رہے یہ 22 لاکھ وہ لوگ ہیں جو کورونا وائرس سے پہلے سامنے آئے اور اب کورونا وائرس سے جتنے اور جس قدر لوگ متاثر ہو رہے ہیں وہ 55 لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔ بلاشبہ کورونا وائرس نے پاکستان سمیت ہر ملک کی قیادت کو آزمائش کی کسوٹی پر منتقل کردیا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ملک کی تاریخ اس بات کی ہمیشہ سے گواہ رہی ہے کہ کسی بھی حکومت کے ثمرات اعلان، وعدوں اور دعوؤں کے باوجود آج تک عوام تک نہیں پہنچے۔

کورونا وائرس کے حوالے سے جو رقوم، جو سامان یا جو امداد غیر ممالک سے ملکی خزانے تک پہنچیں اور حکومت نے لوگوں بالخصوص عام یا نادار لوگوں کے لیے جن مراعات، راشن، سودے یا نقد رقوم فراہم کیں وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہ سکا۔ مٹھی بھر لوگوں کو یہ سب ملنے کے سوا کسی کو کچھ نہ ملا۔ انتہائی معمولی روزگار، مزدور، روز کے روز کام کرکے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ بھرنیوالوں کی انتڑیاں کٹ گئیں۔ کسی کو کچھ نہ ملا وہ کورونا سے تو بچ گئے لیکن بھوک، افلاس و کسمپرسی نے انھیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ بیشتر لوگ خودکشیاں کرچکے اور اکثریت جیتے جی جاں سے گزرتی رہی اور غالب اکثریت آگے چل کر افلاس کی فصل کاٹے گی۔

دنیا کے چند امیر ملکوں نے ڈیڑھ سو غریب یا متوسط ملکوں کو اپنے مالیاتی شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ اس گھٹے ہوئے ماحول میں ہمارے اپنے زور آور ہیں جو بچی کچھی روٹی بھی عوام کے ہاتھوں سے چھین رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ ہماری موجودہ حکومت کے اہم ترین لوگوں نے جس طرح آٹا، چینی، دالیں، مرچوں، کھجوروں، کیلے اور بیکری اشیا جس طرح من مانے ریٹوں پر فروخت کرکے مجموعی طور پر اربوں روپے کمائے یا بنائے وہ بھی سب پر آشکار ہوچکا ہے۔

تحریک انصاف کا یہ اچھا انصاف ہے عوام کے ساتھ؟کاش ہمارے وزیر اعظم سامنے کی حقیقت جان لیتے کہ دوسروں کی رائے پر بھی غور کرلینا چاہیے۔ ویسے بھی آسانیاں اگر تقسیم نہ کی جائیں تو مشکلات جمع ہو جاتی ہیں۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ بابائے قوم کے بعد ہم پر زیادہ تر ایسے لوگ ہی مسلط رہے جو قوم کو باشعور، تعلیم یافتہ، مہذب، متوازن، منظم، منطقی اور حقیقت پسندانہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے اور اس کی وجہ یہ رہی کہ اگر قوم باشعور ہوجاتی تو پھر یہ خود نہ ہوتے۔ ہماری ہر حکومت انسان سازی میں بری طرح ناکام رہی کیونکہ انھیں آدمی چاہیے انسان نہیں، انھیں صرف روبوٹ پسند ہیں۔ جیتے جاگتے غور و فکر کرنیوالے زندہ ذہن اور ضمیر ان کے لیے خطرہ 4400 واٹ کا نشان رہے ہیں۔ اس لیے بھی کہ آئینے میں اپنا آپ دیکھنے کا فن بہت کم لوگوں کو آتا ہے۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مردے کبھی بھی انصاف یا اپنے حقوق کی دہائی نہیں دے سکتے۔ یہ ہمیشہ سے زندہ انسانوں کی ذمے داری ہے کہ ان کے لیے آواز اٹھائی جائے۔ جب سب سرفروش ہی روح فروش اور سارے اہل سیاست اہل مصلحت بن جائیں تو پھر معاشرہ آگے کیسے بڑھے گا۔ عام انسانوں کی حق تلفی اور ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کی داستانیں ہمارے ہاں اتنی ہی پرانی ہو چکی ہیں جتنی کہ اس ملک کی تاریخ۔ ناانصافی کے کینسر نے پورے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کردیا ہے اور اس کا علاج کسی بھی اسپتال میں ممکن نہیں ہاں عدالتوں سے ہی شفا مل سکتی ہے۔ ناانصافی کا یہ کینسر نجانے کتنے لوگوں کو نگل چکا ہے اور اس کی تباہ کاریوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ سیالکوٹ کی ایک ماں نے اپنے بیٹے کے قاتل کو عدالت سے رہا ہونے پر مار دیا۔ یہ بہت ہی تشویش ناک امر ہے۔ اگر لوگ عدالتوں سے مایوس ہوکر خود انصاف کرنے لگ گئے تو ملکی منظرنامہ بڑا ہولناک ہو جائے گا۔

ہمارے نظام انصاف کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ملک کی جیلوں میں 55 ہزار 634 قیدیوں کی گنجائش ہے مگر 77 ہزار سے زائد قیدی وہاں موجود ہیں جب کہ ان میں سے 60 فیصد قیدی مجرم نہیں بلکہ وہ ملزم ہیں جن کے مقدمات کی سماعت عدالتوں میں جاری ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اعلیٰ عدالت نے اس کا نوٹس لیا اور وفاقی حکومت کو غریب قیدیوں کی مفت قانونی معاونت کے لیے ٔٔاقدامات کی ہدایت کرکے نظام انصاف میں ایک اور ناگزیر اصلاح کی ضرورت واضح کی گئی ہے۔

حصول انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن عدالتی اخراجات کا بندوبست اور لائق وکیلوں کی خدمات کا حصول دولت مند ملزمان ہی کے لیے ممکن ہوتا ہے جب کہ غریب قیدی اکثر کسی جرم کے بغیر بھی عشروں جیلوں میں پڑے رہتے ہیں اور پھر عدالتوں سے باعزت بری قرار پا بھی جائیں تو اس مدت میں ان کا سب کچھ تباہ و برباد ہو چکا ہوتا ہے۔

ایک این جی او کے تازہ ترین سروے کے مطابق خواتین و بچوں کی کراچی جیل میں قید 2216 خواتین میں سے 42 مائیں بن چکی ہیں جب کہ دو درجن سے زائد خواتین حاملہ ہیں۔۔یہ سب کچھ ہمارے معاشرے ہمارے ملک میں اس لیے بھی برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے کہ زندگی کی قدر و قیمت جاننے کے لیے آج تک وطن عزیز میں کوئی کرنسی متعارف نہیں کرائی گئی۔ نتیجے میں زندگی اور اس کی توہین چہار سو جاری ہے اور بقول ساحر لدھیانوی کے:

تنگ آچکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم

ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔