کورونا کے فوائد

شیریں حیدر  اتوار 19 اپريل 2020
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کالم کا نام پڑھتے ہی آپ کے ذہن میں چند لمحوں کے لیے منفی سوچ آئی ہو گی اور آپ نے میرے دماغی خلل کا سوچ کر، میرے لیے کوئی نہ کوئی ’’ خوبصورت‘‘ القاب بھی سوچے ہوں گے۔ لیکن ممکن ہے کہ کالم کے اختتام تک آپ کو اندازہ ہو کہ کورونا کے اتنے فوائد ہیں کہ ان میں سے شاید کچھ میرے ذہن میں بھی نہ آئے ہوں ۔

ظاہر ہے کہ یہ ایک وبا ہے جو کہ ایک ننھے سے وائرس سے پھیلی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس وائرس کے اوصاف کھل کر سامنے آ رہے ہیں اور اس کے آغاز میں لوگوں نے جو اندازے قائم کیے تھے، وہ وقت کے ساتھ غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک وبا ہے تو اس میں مبتلا ہو جانے کے نقصانات تو ہیں ہی جو کہ انسانی جان کے زیاں کی حد تک مہلک ہیں ، لیکن ہمیں ان نقصانات کا بھی اندازہ ہے جو کہ مبتلا نہ ہونے والوں کے لیے ہیں ۔ اس وائرس نے دنیا کی بڑی طاقتوں کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے اور بتا دیا ہے کہ انسان کی تدابیر اسی وقت تک کامیاب ہو سکتی ہیں جب تک کہ ان کے ساتھ اللہ کی رضا شامل ہو۔

اس وائرس کی ہولناکی سے بچنے کے لیے جو چیز سب سے اہم ہے، وہ احتیاطی تدابیر ہیں۔ ان تدابیر میں سب سے اہم ہے خود کو اپنے گھر تک محدود کر لینا، آپ اپنے گھر پر ہیں تو سب سے زیادہ محفوظ ہیں اوراگر آپ کو کسی کام یا مجبوری سے باہر جانا پڑتا ہے تو ماسک اور دستانوں کا استعمال کرنا، لوگوں سے فاصلے پر رہنا، مختلف سطحوں اور چیزوں کو چھونے سے گریزکرنا اور کام کر کے گھر لوٹتے ہی اپنے ہاتھوں کی صفائی کے ساتھ ساتھ اپنی گاڑی یا بائیک کی چابی کی صفائی اور ان تمام چیزوں کی دھلائی جو کہ آپ گھر پر لے کر آئے ہیں ۔ اب تک تو اس بارے میں اتنا کہا اور لکھا جا چکا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ سب لوگ اس پر عمل پیرا ہوں گے۔

اس وبا کی وجہ سے ہر ملک کی معیشت متاثر ہوئی ہے، اس کا سامنا بھی سب کو ایک جیسا ہے، ہر حکومت اس کوشش میں ہے کہ اس گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا جا سکے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ اس وائرس نے زندگی کا پہیہ جام کر دیا ہے اور بھوک اور افلاس میںمبتلا لوگ، مزید ابتر حالات کا شکار ہو گئے ہیں ۔ اسی وجہ سے ہمارے ملک میں بھی تجرباتی طور پر احتیاطی تدابیر کو ملحوظ رکھتے ہوئے کچھ صنعتوں کو کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

اللہ کرے کہ اس سے ہمارے ملک میں حالات خراب نہ ہوں اور غریبوں کے گھر کا چولہا جلنے کے ساتھ ساتھ سفید پوشوں کا بھی بھرم رہ جائے ۔ اگر آپ ایسی حیثیت میں ہیں کہ آپ ایسے لوگوں کی تربیت کر سکیں کہ انھیں کس طرح احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہیں تو اس سے بہتوں کا بھلا ہو گا۔

دنیابھر میں اس وقت جو شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے وہ تعلیم کا ہے… تمام تر تعلیمی ادارے بند ہیں اور ان کے کھلنے کی کوئی مدت متعین نہیں کی جا سکتی۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی اندازہ ہے کہ بچوں کا ایک پورا تعلیمی سال متاثر ہو گا۔ باقی ملکوں کی طرح ہمارے ہاںبھی آن لائن کلاسز کی کوشش کی جا رہی ہے مگر کوئی بھی طریقہ تعلیمی اداروں کا متبادل نہیں ہو سکتا ۔ تعلیمی ادارے بند ہونے سے تعلیم کا متاثر ہونا ایک طرف، اس سے منسلک کتنے ہی کاروبار ہیں جو ان لوگوں کے رزق کا ذریعہ ہیں جو کما کر ہر روز اپنے گھر شام کا چولہا جلانے کا سامان کرتے ہیں۔

یہ آفت اللہ کی طرف سے ہے تو اس کا حل بھی اس کی ذات با صفات کے سوا کسی اور کے پاس نہیں ۔کہتے ہیں کہ تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں، ہم عموماً اس کا ایک رخ ہی دیکھتے ہیں لیکن ہم اگر کورونا کو صرف ایک پہلو سے نہ دیکھیں تو ہمیں اس میں کچھ نہ کچھ ایسا سمجھ میں آئے گا کہ ہمیں اس میں مضمر اللہ کی حکمت نظر آ جائے گی۔ گزشتہ چند سالوں سے دنیا بھر کا سب سے اہم مسئلہ فضائی آلودگی بنا ہوا تھا اور اس مسئلے کے حل کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ دھند اوردھوئیں نے مل کر smog نام کی جس آلودگی کو جنم دیا تھا اس کا کوئی حل نہیں تھا، نہ زندگی کا پہیہ جام کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی اسے کم کیا جا سکتا تھا ۔ نہ صرف ٹریفک بلکہ ہر طرف دن رات چلنے والی فیکٹریوں نے اس میں اضافہ کر رکھا تھا۔

دنیا کے بڑے شہروں میں اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے نجی گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ان پر بھاری پارکنگ کے نرخ عائد کر دئے گئے تھے مگر اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہوا تھا۔ پہلا فائدہ جو ہمیں کورونا کا نظر آتا ہے وہ اس تمام آلودگی کا ختم ہو جانا ہے۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اللہ کا  cleansing کا نظام ہے جو کہ کام کر رہا ہے، کوئی انسانی قوت اس کی اہل نہیں ۔

زندگی کی تیز رفتاری میں ہم سب نہ صرف اپنے خالق سے دور تھے بلکہ اپنے اہم فرائض کو بھولے ہوئے تھے اور غفلت کی دوڑ میں بگٹٹ بھاگ رہے تھے، جس دن سے کورونا کے خوف میں مبتلا ہوئے ہیں، اس دن سے ہم اس سے قریب ہیں جو کہ ہماری شہ رگ سے قریب ہے مگر ہم اسے محسوس نہیں کرتے ۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ہم اپنی دعاؤں کو خود اپنے آپ کے بعد، اپنے پیاروں ، اپنے خاندان، اپنے دوست احباب، ملک کے ساتھ ساتھ دنیا کے ہر مذہب کے ماننے والوں اور ہر خطے سے تعلق رکھنے والوں کو شامل کر رہے ہیں ۔

اس وائرس نے انسانوں کو ایک ایسے رشتے میں منسلک کر دیا ہے کہ جہاں نہ رنگ کی تمیز رہی ہے نہ زبان کی، نہ سرحدوں کی اور نہ مذاہب کی۔ ہم اپنی دعاؤں میں سب کے لیے خلوص شامل کیے ہوئے ہیں، عام معمول میں تو ہم اپنے دشمن کے لیے ہدایت کی دعا بھی نہیں کرتے مگر اب سب کے لیے صحت اور اس وائرس سے تحفظ کی دعا کر رہے ہیں۔ہم نے جو زندگی اپنے بچپن میں دیکھی تھی، جب ہم اپنے بچوں کو بتاتے تھے کہ ہم زیادہ وقت گھر پر گزارتے تھے، باہر ہوٹلوں میں کھانے کا کوئی تصور نہ تھا اور نہ ہی اس طرح خریداری کا جنون تھا کہ ہر برانڈ ہر ہفتے سیل لگا کر گاہکوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، چھوٹے چھوٹے بچے بھی اتنے چالاک ہیں کہ وہ برانڈڈ کپڑوں کے علاوہ کوئی کپڑا نہیں پہنتے۔

ہمیں ایک ماہ سے زیاد وقت ہو گیا ہے کہ ہم انتہائی ضرورت کے علاوہ اپنے گھروں میں محدود ہیں، بلا کسی انتہائی ضرورت کے باہر نہیں جاتے، ماسک پہننا ہوتا ہے اس لیے میک اپ بھی کوئی نہیں کرتا ، نہ زیور ، نہ یہ پروا ہے کہ کپڑے کس برانڈ کے ہیں، نہ کوئی باہر کھانا کھانے جا رہا ہے، نہ عید کی فکر ہے نہ کسی شادی کی ۔ ہمیں اندازہ ہو گیا ہے کہ سادگی میں ہی آسانی ہے، نہ ہم برانڈڈ کپڑوں اور جوتوں کی دوڑ میں بھاگیں اور نہ ہی اپنی زندگیوں کو عذاب بنائیں ۔

ہاتھ دھونے کا صابن اس وقت ضروریات میں سب سے اہم ضرورت ہے اور مغربی ممالک میں غالبا ٹائیلٹ رول۔ اگر چہ کاروباری لوگوں کے کاروبار متاثر ہوئے ہیں اور ہمیں دکانوں والے اب بھی پیغامات بھیج رہے ہیں کہ ہم سے نصف قیمت پر آن لائن کپڑے منگوا لیں مگر ہم سب محتاط ہیں کہ کسی ایسی بے احتیاطی سے وائرس ہمارے گھر نہ آجائے ۔ یوں بھی وقت ملا ہے تو اپنی الماریوں کو سیدھا کرنے سے علم ہوا ہے کہ اگلے کئی برس تک بھی کپڑے جوتے نہ خریدو تو بہت بہترین گزارا ہو سکتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔