قبائلی جرگہ طالبان سے مذاکرات میں کردار ادا کرنے کے لئے تیار

شاہد حمید  منگل 3 دسمبر 2013
عام انتخابات سے قبل مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے قبائلی جرگہ پر اعتماد کا اظہار کیا تھا وہ ہی خواہش مند ہیں کہ اب موجودہ حالات میں قبائلی جرگہ ہی معاملات کو آگے بڑھائے۔  فوٹو : فائل

عام انتخابات سے قبل مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے قبائلی جرگہ پر اعتماد کا اظہار کیا تھا وہ ہی خواہش مند ہیں کہ اب موجودہ حالات میں قبائلی جرگہ ہی معاملات کو آگے بڑھائے۔ فوٹو : فائل

پشاور: مولانا فضل الرحمٰن کے قبائلی جرگہ کے حوالے سے انہی سطور میں ذکر کیا گیا تھا کہ کئی ماہ تک کوما کی حالت میں رہنے کے بعد جب اس قبائلی جرگہ کو دوبارہ فعال کیا جا رہا ہے تو اس کا بڑا واضح مطلب ہے کہ کہیں سے اشارے مل رہے ہیں جب ہی یہ جرگہ فعال بھی کیا جا رہا ہے اور اس جرگہ کے ذریعے اب قیام امن کے حوالے سے کام بھی لیا جائے گا۔

گو کہ مولانا فضل الرحمٰن نے پشاور میں جرگہ کے اختتام پر میڈیا سے بات چیت میں یہ مطالبہ کیا کہ ’’مرکز اپنی سمت کا تعین کرے ، جرگہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے‘‘ تاہم یہ بھی واضح رہے کہ اگر جرگہ نے صرف یہی مطالبہ کرنا ہوتا تو مئی کے عام انتخابات کے بعد نہ تو انتظار کیا جاتا اور نہ ہی حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے منظر نامے میں تبدیلی ہونے تک کسی دوسرے کو مذاکراتی کام سونپنے پر خاموشی اختیار کی جاتی بلکہ یہ مطالبہ بہت پہلے کردیا گیا ہوتا تاہم اس وقت بوجوہ جرگہ اور جرگہ کے سرپرست اعلیٰ خاموش تھے لیکن اب جب کہ جرگہ کو اشارہ ملا ہے اور اسی جرگہ کے ذریعے مرکز طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا خواہش مند ہے تو نہ صرف یہ کہ مذکورہ جرگہ فعال کردیا گیا ہے بلکہ جرگہ کے انعقاد کے اگلے ہی روز مولانا فضل الرحمٰن نے وزیراعظم سے ملاقات کرتے ہوئے انھیں یہ خوشخبری بھی سنادی ہے کہ ان کی سرپرستی میں کام کرنے والا قبائلی جرگہ مذاکرات عمل کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

اگر مرکز یا دیگر قوتوں کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کو گرین سگنل نہ ملا ہوتا تو مولانا کی صدارت میں منعقد ہونے والے قبائلی جرگہ میں جب چند ارکان کی جانب سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ ’’قبائلی جرگہ کے ذریعے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے سے قبل تمام سیاسی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کا دوبارہ انعقاد اور اس اے پی سی سے قبائلی جرگہ کے لیے دوبارہ مینڈیٹ حاصل کیا جانا ضروری ہے‘‘، تو اس تجویز کی مخالفت نہ کی جاتی کیونکہ اگر جرگہ اپنے طور پر دوبارہ قیام امن کے حوالے سے کام کرنے کا خواہش مند ہوتا تو اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ عام انتخابات کے بعد بدلے ہوئے ماحول میں سیاسی جماعتوں سے دوبارہ اپنے لیے مینڈیٹ لینا بھی ضروری سمجھتا۔

تاہم جنہوں نے عام انتخابات سے قبل مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے قبائلی جرگہ پر اعتماد کا اظہار کیا تھا وہ ہی خواہش مند ہیں کہ اب موجودہ حالات میں قبائلی جرگہ ہی معاملات کو آگے بڑھائے اس لیے اس تجویز کو مسترد کردیا گیا اور مئی کے عام انتخابات سے قبل قبائلی جرگہ کو ملنے والے مینڈیٹ کو ’’کافی‘‘ قرار دیتے ہوئے اسی مینڈیٹ کے تحت معاملات کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا اور اس بات کی بھی توقع کی جارہی ہے کہ چند دنوں کے اندر وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں جس روڈ میپ یا طریقہ کا رکا اعلان ہونے جارہا ہے اس میں کلیدی کردار اسی قبائلی جرگہ کا ہوگا جو مئی میں عام انتخابات کے انعقاد سے قبل بھی طالبان اور دیگر قبائلیوں کے ساتھ رابطوں میں تھا اوراب بھی کسی نہ کسی سطح پر جرگہ کے ارکان کے طالبان کے ساتھ رابطے موجود ہیں جس کے تحت ہی معاملات کو آگے بڑھایا جائے گا۔

علماء کرام کے رابطوں کے نتیجے میں امن کا قیام ممکن ہوتا تب بھی سب اس کے ساتھ اتفاق کرتے اور اب اگر مولانا فضل الرحمن اور ان کے قبائلی جرگہ کے ذریعے امن کے قیام کی راہ ہموار ہوتی ہے تو تب بھی کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔ تاہم اس حوالے سے اصل سوال یہ ہے کہ اگر ڈرون حملے ہوتے رہے تو کیا ان کی چھاؤں میں ہونے والے مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ پہلے بھی ’’کشتئی امید‘‘ کنارے پر پہنچ ہی رہی تھی کہ ایک ڈرون نے سارے راستے بند کردیئے اس لیے اب کے اگر مولانا فضل الرحمن کا قبائلی جرگہ مذاکرات شروع کرتا ہے اور دوسری جانب سے ڈرون ہوتے رہے تو کیسے امید رکھی جاسکتی ہے کہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔

ڈرون حملوں کے خلاف نیٹو سپلائی کی بندش کے لیے تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے کارکن سڑکوں پر بیٹھے ہوئے ہیں جس پر تاحال تو مرکز کھل کر سامنے نہیں آیا تاہم یہ جمود بہرکیف ٹوٹنا ہی ہے کیونکہ نہ تو تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد کے ورکر مہینوں، سالوں تک نیٹو سپلائی کے راستے میں دھرنے دے کر بیٹھ سکتے ہیں اور نہ ہی ایسا ہوسکتا ہے کہ مرکز نے جس سختی سے اپنے لب سیئے ہوئے ہیں وہ لب یونہی سلے رہیں کیونکہ اب معاملہ پشاور اورخیبرپختونخوا کے مختلف مقامات پر سڑکوں پر دھرنوں سے نکل کر اسلام آباد تک پہنچنے ہی والا ہے کیونکہ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتیں 5 دسمبر کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے جا رہی ہیں اور یہ دھرنا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی قیادت میں ہو رہا ہے گویا کہ خیبرپختونخوا حکومت جو اب تک نیٹو سپلائی کی بندش اور اس احتجاج میں براہ راست شریک نہیں تھی وہ اب اس میں بلاواسطہ طور پر شریک ہونے جارہی ہے اور جب صوبہ ، مرکز سے ’’بغاوت ‘‘ کریگا تو مرکز بھی ری ایکشن کریگا جس کا نتیجہ کچھ اچھا نہیں نکلے گا۔

خیبرپختونخوا میں اپوزیشن جماعتوں کی صورت حال یہ ہے کہ قومی وطن پارٹی، اپوزیشن کا حصہ تو بن چکی ہے لیکن جس طرح حکومت میں رہتے ہوئے قومی وطن پارٹی نے معاملات پر اپنی گرفت کو مضبوط نہیں کیا اور ڈھیلے، ڈھالے انداز میں صورت حال کو ڈیل کیاجاتا رہا جس کے نتیجہ میں قومی وطن پارٹی کو حکمران اتحاد سے نکال باہر کیا گیا اسی طرح اب اپوزیشن میں بھی قومی وطن پارٹی یہی طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہے حالانکہ جب قومی وطن پارٹی اور حکومت کی راہیں جدا ہوگئیں تو اس کی قیادت کو چاہیے تھا کہ فوری طور پر اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی میزبانی کرتے ہوئے انھیں اپنے ساتھ ایک میزپر اکھٹی کرتی اور اپوزیشن کو ہر معاملہ پر مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی راہ پر ڈالتی جس کے لیے خلا بھی موجود تھا کیونکہ مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر سردار مہتاب احمد خان ، جو گورنر ی اور اپوزیشن لیڈری کے درمیان معلق ہیں ، ان کی اسمبلی معاملات میں عدم دلچسپی عیاں ہے اوران کی اسی عدم دلچسپی کو قومی وطن پارٹی بخوبی کیش کر سکتی تھی لیکن قومی وطن پارٹی کی پالیسی کو دیکھتے ہوئے لگ یہ رہا ہے کہ وہ ’’تیل دیکھو اور تیل کی دھاردیکھو‘‘کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور اس بات کی منتظر ہے کہ کوئی ’’معجزہ‘‘ہوتو تب وہ اپنا کردار ادا کرے۔

اعظم ہوتی کے کئی الزامات کے ساتھ میدان میں اترنے کے بعد بھی اس صورت حال کو ’’اعظم ہوتی بمقابلہ اسفند یارولی‘‘ کے طور پر دیکھا جا رہا تھا اور اب جبکہ بھائی کے بعد بہن بیگم نسیم ولی خان میدان میں آئی ہیں تو اب بھی یہی توقع کی جارہی تھی تاہم اسفندیارولی خان کو تاحال میدان میں آنے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ پارٹی کی پوری قیادت ،موجودہ وسابقہ اراکین پارلیمنٹ وصوبائی اسمبلی اور جانے پہچانے تمام چہرے، اسفند یار ولی خان کا دفاع کرنے اور ان کی جنگ لڑنے کے لیے میدان میں موجود ہیں جنہوں نے ماضی میں پارٹی کے اندر اٹھنے والے طوفانوں کے بعد اب کے ہواؤں کے ساتھ بھی بھرپور انداز میں لڑنے اور ان کا مقابلہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پارٹی کے اندر جاری رکنیت سازی مہم کو جاری رکھتے ہوئے پارٹی انتخابات کے عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے کی بات کی ہے۔ تاہم بیگم نسیم ولی خان جس طریقہ سے میدان میں نکلی ہیں اس سے ایک اندازہ ضرور ہو رہا ہے کہ ان ہواؤں میں بھی کہیں کوئی ’’طوفان‘‘ ضرور چھپا ہوا ہے جس کے نتیجہ میں اگر اسفندیارولی خان والی اے این پی محفوظ بھی رہی تو شاید ایک نئی اے این پی بھی وجود میں آجائے جس کی بھاگ دوڑ بیگم نسیم ولی خان اور ان کے پوتے لونگین خان کے ہاتھوں میں ہوگی اور اس کی پشت پر کہیں نہ کہیں اعظم ہوتی بھی ضرور موجود ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔