’لاک ڈاؤن‘ میں ایمبرائیڈی کی صنعت کو بچالیجیے!

عمیر جاوید  جمعرات 23 اپريل 2020
لاک ڈاؤن کے بعد حکومت نے کہا ہے کہ کسی کو نکالنا نہیں ہے، لیکن بازار بند ہونے سے ہماری ادھار ادائیگیاں روک لی گئی ہیں۔ فوٹو: فائل

لاک ڈاؤن کے بعد حکومت نے کہا ہے کہ کسی کو نکالنا نہیں ہے، لیکن بازار بند ہونے سے ہماری ادھار ادائیگیاں روک لی گئی ہیں۔ فوٹو: فائل

’ایمبرائیڈی‘ ہمارے ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ایک اہم حصہ ہے، لیکن بدقسمتی سے ’ایمبرائیڈی‘ کی صنعت سے وابستہ لوگوں کو ٹھیک طرح نمائندگی نہیں مل رہی۔

ایمبرائیڈی سے لاکھوں افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے، جس میں سے آدھے مزدور دیہاڑی دار ہیں، لاک ڈاؤن کے بعد حکومت نے کہا ہے کہ کسی کو نکالنا نہیں ہے، لیکن بازار بند ہونے سے ہماری ادھار ادائیگیاں روک لی گئی ہیں۔ ہم ملازمین اور مزدوروں کا خیال کر رہے ہیں، لیکن سرکاری طور پرہمارے ازالے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ جیسے ٹیکسٹائل اور ایمپورٹرز کو چھوٹ دی جا رہی ہے، ایمبرائیڈی والوں کے مسائل کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ ہم جیسی چھوٹی صنعتوں کو کیہں سنا ہی نہیں جا رہا۔

ہم حکومت سے پرزور گزارش کرتے ہیں کہ ہمیں ایک ماہ کے لیے اپنے کارخانے کھولنے کی اجازت دی جائے، ہم اس دوران مکمل طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کریں گے، چوں کہ لاک ڈاؤن کا اعلان اچانک کیا گیا، جس میں بندش کے باعث ہمارے بہت سے آرڈر رکے ہوئے ہیں۔ ہم نے خام مال لیا ہوا ہے، جو خراب ہونے کا اندیشہ ہے، یہ کام ادھورا رہا، تو نہ صرف اس صنعت کے لوگوں کا روزگار ختم ہوگا، بلکہ اس کام سے جو ازالے کی امید ہے، وہ بھی جاتی رہے گی۔

بڑی صنعتوں کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے قرضے دیے جا رہے ہیں، ان کی جو شرائط ہیں، وہ ہم چھوٹے صنعت کار پوری کر ہی نہیں سکتے، اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت ہمارے لیے خصوصی طور پر بلاسود قرضے جاری کرے، تاکہ ہم ملک  کی اس اہم صنعت کو زندہ رکھ سکیں۔

دوسری بات یہ کہ حکومت جس طرح تاجروں اور بڑے صنعت کاروں کو یہ کہہ رہی ہے کہ وہ ملازمین کی تنخواہ ادا کریں، تو وہ یہ پھر ہماری ادائیگیوں کے لیے بھی انہیں پابند بنائے، کیوں کہ ہم خود تو گزارا کر رہے ہیں، لیکن ہمارے ساتھ جو ہزاروں لاکھوں کاری گر ہیں، وہ بدترین فاقہ کشی کی سمت جا رہے ہیں، ہم ان کی داد رسی کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، لیکن ہم تنہا نہیں کرسکیں گے، حکومت اس معاملے میں ہمارا تھوڑا بہت ہاتھ پکڑے اور تاجروں کی طرح ایمبرائیڈی جیسے چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والوں کو بھی رعایتیں اور چھوٹ فراہم کرے۔

شہر میں دو سے ڈھائی ہزار ایمبرائیڈی کی فیکٹریاں ہیں، ہم سروس انڈسٹری میں شمار کیے جاتے ہیں، ہمارے کام میں بعض اوقات چھے چھے ماہ کے ادھار پر کام ہوتا ہے، یعنی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جو کام ہم ایک سے چھے ماہ پہلے دے چکے ہیں، اب ہمیں اس کی وصولی کا انتظار ہے، جس میں ’لاک ڈاؤن‘ کے سبب رخنہ پڑ گیا ہے، دکان داروں نے لاک ڈاؤن کو جواز بنا کر ہاتھ کھینچ لیا ہے، ہمارے چیک باؤنس ہو رہے ہیں، لیکن اگر ہمیں ایک ماہ کے لیے کام کی اجازت مل جائے، تو ہم اپنے ادھورے کام پورے کرکے کسی قدر آنسو پونچھ سکتے ہیں اور ہم اپنی وصولیاں کر سکتے ہیں۔

بہت سی جگہوں پر جب ایمبرائیڈی والوں نے کام شروع کیا گیا، تو ان کے کارخانے سیل کر دیے گئے، یوں ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہوئے ہیں، آگے رمضان کی بھی آمد ہے، اس لیے اگر ایک ماہ کے لیے کام کھولنے دیا جائے تو ہم کچھ نہ کچھ کر ہی لیں گے،  ورنہ ایمبرائیڈی کے کام سے وابستہ لوگ پہلے ہی جون 2019 ء سے سیلز ٹیکس میں اضافے کے سبب خسارے سے دوچار  تھے وہ بد دل ہو کر اس کام سے کنارا کش ہو جائیں گے، بعد میں صنعت کار تو شاید کہیں اور اپنا روزگار بنا لیں، لیکن ایمبرائیڈی کے لاکھوں کاری گروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔

پچھلے ہفتے ’ایکسپریس‘ کے اسی صفحے پر رضوان طاہر مبین کی رپورٹ میں بہت احسن طریقے سے لوگوں کو گھروں میں کام دینے کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ ایمبرائیڈی کی بڑی مشینیں ہوتی ہیں، اس لیے ہم یہ کام گھر پر نہیں دے سکتے، دوسری طرف ہمارے کام کی نوعیت یہ ہے کہ اس میں ہم بہ آسانی احتیاطی تدابیر کا خیال رکھ سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔