صدر کرزئی کا سیکیورٹی معاہدے پر دستخط سے انکار

ایڈیٹوریل  منگل 3 دسمبر 2013
افغانستان میں اگلے برس اپریل کے اوائل میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں. فوٹو: فائل

افغانستان میں اگلے برس اپریل کے اوائل میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں. فوٹو: فائل

گزشتہ دنوں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں گرینڈ لویہ جرگہ ہوا تھا‘ اس جرگے میں ڈھائی ہزار افغان سرداروں اور عمائدین نے شرکت کی تھی‘ اس گرینڈ لویہ جرگہ نے امریکا کے ساتھ ایک طویل المدتی سیکیورٹی معاہدے کی منظوری دی تھی۔ اس طویل المدتی سیکیورٹی معاہدے کے تحت امریکا 2014 میں اپنے فوجی انخلا کے بعد افغانستان میں فوجی اڈے برقرار رکھے گا۔ لویہ جرگہ کے بعد اس معاہدے کی حتمی منظوری صدر کرزئی نے دینی ہے لیکن انھوں نے اس معاہدے پر دستخط سے انکار کر رکھا ہے۔ اس صورتحال سے امریکا اور نیٹو حکام الجھن میں پڑ گئے ہیں‘ وہ صدر حامد کرزئی پر زور دے رہے ہیں کہ وہ سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کر دیں۔ نیٹو نے اس پر زیادہ شدید ردعمل ظاہر کیا ہے‘ نیٹو کے حکام نے خبر دار کیا ہے کہ صدر حامد کرزئی کو سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کر دینے چاہئیں ورنہ امداد کی فراہمی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ نیٹو ممالک افغان فوج کے لیے سالانہ 4.1 ارب ڈالر اور ترقیاتی اسکیموں کے لیے سالانہ 4 ارب ڈالر امداد دے رہے ہیں‘ یوں کل ملا کر یہ 8 ارب ڈالر سے زاید کی امداد بنتی ہے۔ ادھر افغان طالبان نے سیکیورٹی معاہدے پر دستخط نہ کرنے پر حامد کرزئی کی حمایت کی ہے۔

افغانستان میں اگلے برس اپریل کے اوائل میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں‘ صدر کرزئی نے شدید موسم اور برفباری کی وجہ سے ملک میں آیندہ صدارتی انتخابات اپریل میں نہ کرانے کی تجویز دے دی ہے۔ بعض مبصرین کی رائے ہے کہ صدر حامد کرزئی طویل المدتی سیکیورٹی معاہدے پر دستخط سے انکار کر کے امریکا اور نیٹو سے زیادہ مراعات حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ وہ افغان آئین کے تحت تیسری بار صدارتی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے‘ یوں اگلی مدت کے لیے ان کا صدر بننا ممکن نہیں ہے‘ حالات کو دیکھا جائے تو ان کی کوشش یہ ہے کہ وہ کچھ مدت کے لیے صدارتی الیکشن ملتوی کر دیں‘ اس مقصد کے لیے انھیں امریکا اور نیٹو کی حمایت درکار ہو گی کیونکہ افغان آئین کے تحت انھیں ایسا کرنے کا اختیار نہیں۔ وہ اس حمایت کو طویل المدتی سیکیورٹی معاہدے پر دستخط سے مشروط کر سکتے ہیں‘ اس طرح وہ کچھ مدت کے لیے مزید صدر رہ سکتے ہیں۔ ان کی دوسری کوشش یہ ہے کہ وہ اگلے صدارتی امیدوار کے لیے اپنے بڑے بھائی قیوم  کرزئی کو نامزد کر دیں‘ اس مقصد کے لیے بھی امریکا اور نیٹو کی حمایت چاہیے‘ یہ وہ معاملات ہیں‘ جن کی وجہ سے صدر کرزئی اپنے پتے پھینک رہے ہیں۔

افغانستان میں حامد کرزئی اور ان کے ساتھی جو کچھ کر رہے ہیں‘ اس پر پاکستان کو گہری نظر رکھنی چاہیے۔ افغانستان میں اقتدار کا کھیل جاری ہے۔ اس کھیل میں طالبان کا وہ گروپ بھی شامل ہے‘ جو امریکا کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات میں شریک کار ہے۔ امریکا کے ساتھ درپردہ مذاکرات میں شریک طالبان کا یہ گروپ بھی اگلے الیکشن میں اقتدار کا امید وار ہے۔ ادھر سخت گیر طالبان چاہتے ہیں کہ حامد کرزئی صدارتی الیکشن کا کھیل خراب کر دیں۔ حامد کرزئی اگر اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں تو نیٹو اور امریکی فوج سے برسرپیکار طالبان کا گروپ ان کی حمایت کر سکتا ہے۔ اس طریقے سے افغانستان کے حالات نئی کروٹ لے سکتے ہیں۔ اگر معاملہ بگڑتا ہے اور نیٹو اور امریکا افغانستان کی امداد بند کرتے ہیں یا اس میں کمی کرتے ہیں تو افغانستان میں بدامنی کا دور واپس لوٹ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں امریکا کے لیے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ سخت گیر طالبان کی ایسی ہی کوشش ہو گی۔

اس صورت حال میں افغانستان میں جاری جنگ طویل ہو سکتی ہے۔ اس صورت حال پر پاکستان کو اس لیے زیادہ توجہ دینی چاہیے کہ اگر افغانستان میں حالات مزید خراب ہوتے ہیں تو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی صورت حال خراب ہو سکتی ہے۔ افغان طالبان کے تعاقب میں نیٹو اور امریکی فوج قبائلی علاقوں میں دراندازی کر سکتی ہے۔ ڈرون حملوں میں بھی شدت پیدا ہو سکتی ہے۔ افغانستان سے مہاجرین کا نیا ریلا پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے۔ حامد کرزئی اور ان کے ساتھی جو کھیل کھیل رہے ہیں‘ اس میں پاکستان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ حامد کرزئی کے دور میں پاکستان مخالف لوگوں کو افغانستان میں پناہ دے دی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مولوی فضل اللہ افغانستان میں مقیم ہے۔ امریکا کے لیے یہ صورت حال خاصی مشکل ہے۔ امریکی انتظامیہ نے حامد کرزئی کی مسلسل حمایت کی ہے۔

امریکی حمایت کے بل بوتے پر ہی وہ دو بار افغانستان کے صدر منتخب ہوئے۔ حامد کرزئی کی حکومت پر بدعنوانی کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ اگر امریکی انتظامیہ حالات کا درست تجزیہ کرتی اور پاکستان کے ساتھ تعاون کر کے افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتی تو شاید افغانستان میں اب تک امن قائم ہو چکا ہوتا۔ اس وقت افغان انتظامیہ میں حامد کرزئی گروپ کے ساتھ ساتھ شمالی اتحاد بھی ایک طاقتور عنصر ہے۔ آنے والے افغان سیٹ اپ میں یہ دونوں گروپ اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا افغان اسٹیبلشمنٹ میں افغان پشتون عنصر کو مزید طاقتور بنانا چاہتا‘ اس مقصد کے لیے وہ طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے لیکن امریکی انتظامیہ کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل اس وقت ہی کامیاب ہو سکتا ہے جب پاکستان کا تعاون موجود ہو۔ بہر حال افغانستان میں آنے والے دنوں میں بہت سی تبدیلیاں آنے والی ہیں۔ پاکستان کو ان پر نظر رکھنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔