آزادی صحافت پر ایک اور حملہ

ایڈیٹوریل  منگل 3 دسمبر 2013
ایکسپریس میڈیا گروپ کر یہ 5 ماہ کے دوران دوسرا حملہ ہے۔ فوٹو؛ جلال قریشی

ایکسپریس میڈیا گروپ کر یہ 5 ماہ کے دوران دوسرا حملہ ہے۔ فوٹو؛ جلال قریشی

آزادی صحافت پر ایک بار پھر دہشت گردوں نے شب خون مار دیا۔ سچ کی علم برداری اور شہریوں کے جاننے کے حق کی جستجو سے خائف سرکش اور گمراہ عناصر کی جارحیت میں شدت آ رہی ہے، پیر کو ایکسپریس میڈیا گروپ کو بعض انتہا پسند اور مفاد پرست قوتوں نے اپنے ہدف پر لے لیا، بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ وہ آزادی اظہار کو ناپسند کرتی ہیں اور فسطائیت کے خلاف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیم سے وابستہ ایکسپریس کارکنوں کی استقامت، بے خوفی اور دلیرانہ کوریج ان کے عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ شہر قائد میں گزشتہ روز شام 7 بج کر15 منٹ پر ایکسپریس میڈیا گروپ کے دفاتر پر ’’نامعلوم ‘‘ و بے چہرہ دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ یاد رہے ایکسپریس نیوز، روزنامہ ایکسپریس اور ڈیلی ایکسپریس ٹریبیون کو 16 اگست2012 کو بھی بہیمانہ طریقے سے ٹارگٹ کیا گیا تھا۔

دریں اثنا وزیر اعظم نواز شریف اور ملک بھر میں مختلف سماجی، سیاسی، مذہبی قائدین اور صحافتی تنظیموں نے کراچی میں ایکسپریس میڈیا گروپ کے دفاتر پر حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ہے، پنجاب اسمبلی نے اس واقعے کے خلاف قرارداد مذمت منظور کی جب کہ اے پی این ایس، سی پی این ای، پی ایف یو جے، اقلیتی برادریوں، چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والی صحافتی تنظیموں اور پریس کلبوں کے عہدیداروں، دانشوروں، سیاسی رہنمائوں، این جی اوز نے میڈیا گروپ سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ورکرز کو مکمل تحفظ اور مجرموں کو جلد سے جلد گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔ اس بار فلائی اوور کو استعمال کیا گیا جو دفتر کے سامنے ہے، دستی بم پھینکے گئے اور اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس سے گارڈ سمیت 2 افراد زخمی ہوگئے اور کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔

خدا کا شکر ہے کہ دفتر کے سامنے والی اسٹریٹ میں خلاف توقع کارکنوں کی بھیڑ نہ تھی ورنہ ہلاکتوں کا کوئی شمار نہ ہوتا۔ افسوس کہ غارت گران امن کو ان کی سرکشی کی بروقت سزا دینے میں پولیس اور رینجرز بے بسی کی تصویر بنی نظر آئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برائے نام جو پولیس موبائل دفتر کے قریب کھڑی تھی اسے کس کے کہنے پر واپس بلا لیا گیا۔ ادھر پولیس اور رینجرز کا جاری ٹارگیٹڈ آپریشن بھی معمہ بن گیا ہے، شہر میں قتل و غارت جاری ہے، اس کا نکتہ عروج لیاری کی ہمہ جہتی اور مجموعی تباہی کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں گینگ وار کا کوئی بڑا ملزم پکڑا نہیں جاتا۔ صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے یقین دلایا کہ ملزمان کو جلد گرفتار کر لیں گے، جب کہ بقول شاعر ’’ تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ رواداری اور تحمل و برداشت کا جنازہ معاشرے سے اٹھ چکا ہے، مافیائوں کو حاصل سرپرستی کے باعث ریاستی اداروں کی شکست و ریخت، بے محابہ کرپشن، انصاف میں تاخیر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ملی بھگت نے ایک عظیم سیاسی اور سماجی دراڑ پیدا کی ہے، تنگ نظری، شدت پسندی اور فکری انتشار کا ہولناک گرداب جمہوری عمل کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے جس کا خاتمہ روپ بہروپ رکھنے والی بے رحم مافیائوں کے خاتمہ سے مشروط ہے۔ آج کا میڈیا پینڈورا بکس کھولے ہوئے ہے، ایکسپریس میڈیا کی سچ سے مسلمہ کمٹمنٹ ہے جس نے نیوز و ویوز کی معروضیت اور غیر جانبدارانہ پالیسی کے تحت سچ پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

ملک میں اطلاعات کا سیل رواں ہے، ایکسپریس میڈیا گروپ نے کرپٹ لوگوں کی نیندیں حرام کی ہیں، صنم کدہ سیاست کے کئی بت گرے ہیں۔ ایکسپریس کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے وکی لیکس کی روایت کو بڑھاوا دیا ہے۔ بلاشبہ کراچی سمیت ملک بھر کے سیاسی، سماجی، مذہبی اور صحافتی حلقوں میں اس وحشیانہ بربریت سے عدم تحفظ کی جو لہر دوڑ گئی ہے، وہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ کراچی کی مخدوش صورتحال کے باعث پر تشدد کلچر اور مافیائوں کی متوازی حکومتیں تہس نہس ہونی چاہئیں۔ دو کروڑ کی آبادی کا تہذیب یافتہ منی پاکستان زخموں سے چور چور ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ میڈیا پر وار کرنے والوں کے سر کچلے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔