کراچی یاد آ رہی ہے

عبدالقادر حسن  منگل 3 دسمبر 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

لاہور سے دُور بہت دُور کراچی شہر میں جو اپنی بدامنی کی وجہ سے لاہور سے اور زیادہ دور ہو گیا ہے ہمارے اخبار کے مرکزی دفتر اور اس کے ٹی وی چینل پر کچھ لوگوں نے اپنی گندی ذہنیت اور بدنیتی سے حملہ کیا۔ انسانی جانیں تو بچ گئیں لیکن ہمارے دفتر کی توہین ہو گئی اور مجھ جیسے دیہاتی کے لیے دشمنوں کی یہ جسارت کسی جانی نقصان سے کم نہیں، اس کا بدلہ تو ہم لیتے رہیں گے فی الحال میں بالکل محفوظ ہوں کیونکہ میں بہت دُور لاہور میں ہوں اور مجھے تو اس کا پتہ بھی بعد میں چلا البتہ پھر بھی کراچی کی پولیس سے پہلے چل گیا۔ شنید یہ ہے اور پکی شنید ہے کہ کراچی پولیس موقع واردات پر ڈیڑھ دو گھنٹے لیٹ پہنچی لیکن ہمارے پاس اس سے بڑھیا ایک ایسی پولیس بھی ہے جو سرے سے پہنچتی ہی نہیں۔ وارداتی جب آئیں چلے جائیں ان کی مرضی اور سہولت جس میں ہو۔ ایسی پولیس ہمارے وفاقی دارالحکومت میں آرام کرتی ہے یہاں ایک اکیلا مجرم دن کے پانچ گھنٹے اسلام آباد میں ٹہلتا رہا اور شہر کو اپنا یرغمال بنائے رکھا۔ لوگ تفریحاً آتے اور چلے جاتے کہ ایسا تماشا انھیں زندگی میں پھر نہیں ملے گا۔

وہ بچوں کو بھی ساتھ لے کر آتے جو بڑے ہو کر اپنے چھوٹوں کو اس تماشے کے بارے میں بتایا کریں گے۔ اس پوری واردات کے دوران اگر کوئی موقع واردات پر نہیں آیا تو وہ چند قدم دور اس شہر کی پولیس تھی۔ یہ وردی پہن کر اور بوٹ چڑھا کر چائے پیتی رہی یا سگریٹ پھونکتی رہی اور اس طرح پولیس اپنی اور پاکستان کی تاریخ میں ایک نئی تاریخ بناتی رہی تا آنکہ ایک غیر پلسیے نے اس کی جان چھڑائی یعنی اس کو وردی اور بوٹ اتار کر آرام کرنے کا وقت دے دیا۔ پولیس کے محرر نے اس تاریخی واقعے کی ضمنی لکھی اور دستخط کے لیے جناب ایس ایچ او کے سامنے رکھ دی جنہوں نے اسے دیکھے بغیر دستخط کر دیے اور شرمندہ شرمندہ گھر چلے گئے۔ یہ سب بیان کرنے کا مطلب یہ تھا کہ کراچی والے پولیس کی تاخیر یا تاخیری حربوں سے پریشان نہ ہوں بلکہ شکر کریں کہ ان کے ہاں دیر سے ہی سہی پولیس آ تو جاتی ہے جب کہ اسی ملک کے سب سے اہم شہر میں وہ اس کا تکلف بھی نہیں کرتی۔ اپنے آئی جی سمیت وارداتوں کو اپنی جوتیوں کی نوک پر لکھتی ہے اور ٹریفک کے چالانوں میں مصروف ہو جاتی ہے۔ ٹریفک کے چالان بہت مفید ثابت ہوتے ہیں۔

پولیس کا ذکر آیا تو بات لمبی ہو گئی جو اب بڑی مشکل سے ختم کی ورنہ پولیس کے قصے تو بہت ہیں۔ آپ کو ان میں سے جو واقعات یاد ہیں وہ ان میں خود ہی شامل کر لیں، ایکسپریس پر حملہ آوروں نے اخبار نویسوں کو ڈرانے کی کوشش کی ہے۔ یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔ ’پریس پاور‘ اتنی کمزور نہیں کہ ایسے چوروں لفنگوں سے ڈر جائے۔ ہماری نصف صدی سے زیادہ عمر اسی کیفیت میں گزر گئی ہے، ڈرانے والے آتے رہے اور ڈرنے والے اپنا کام کرتے رہے۔ ان لوگوں کی وجہ سے آج تک کوئی اشاعتی ادارہ بند نہیں ہوا بلکہ ’بڑھتا ہے ذوقِ جرم یاں ہر اک سزا کے بعد‘ والا مضمون رہا۔ کراچی میں ایکسپریس کا ادارہ حالت جنگ میں رہتا ہے کیونکہ یہ سارا شہر ہی حالت جنگ میں ہے، اس شہر کو کسی کی نظر نہیں لگی اسے خود یہاں کے شہری لگے ہیں جنہوں نے یہاں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے بدامنی کا آغاز کیا۔

کراچی پاکستان تھا، ملک کے ہر حصے کے لوگ اس با روزگار پر امن اور مہمان نواز شہر میں جاتے اور روٹی کماتے۔ اس شہر کے امن کا یہ حال تھا کہ ہماری بہت ساری صنعت ہی اس شہر میں اپنا پہیہ چلا رہی تھی۔ امن عامہ اور غریب پروری کے اس شہر میں آنے جانے اور وہاں قیام کو جی کرتا تھا لیکن اب میرا بیٹا اپنی ملازمت کے سلسلے میں اگر وہاں ایک آدھ دن کے لیے جاتا ہے تو میں ٹیلی فون سے لگ کر بیٹھ جاتا ہوں کل تک جو شہر ملک بھر کی پناہ گاہ تھا آج لوگ اس سے بھاگتے ہیں۔ یہانتک کہ ملک تک چھوڑ جاتے ہیں۔ ہمارا ادارہ جس کا اخبار ملک کے گیارہ شہروں سے نکلتا ہے اور جس کا ٹی وی چینل ملک بھر میں دیکھا جاتا ہے اسے چلانے والے کراچی کے باسی ہیں۔ ان کا گھر بار اور کاروبار زیادہ تر اسی شہر میں ہے کیونکہ یہ شہر امن کا گہوارہ تھا۔

یہاں بڑا سکون اور کاروباری ماحول تھا۔ اس شہر میں بدامنی جب بھی شروع ہوئی اب وہ انتہائوں تک جا پہنچی ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ چھوٹے بڑے بدمعاش ملک بھر میں غنڈہ ٹیکس لیا کرتے تھے جو بعض بازاروں تک محدود رہتا لیکن کراچی میں تو بھتہ گیری اس شہر کی ایک نئی صنعت بن گئی ہے اس شہر میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ میں نئے منتخب حکمرانوں سے عرض کروں گا کہ وہ اس پر توجہ دیں۔ بے نظیر نے اپنی حکومت میں اگر کراچی کو پر امن بنا دیا تھا تو آپ ایسا کیوں نہیں کر سکتے لیکن اس کے لیے کسی اسلحے سے زیادہ خلوص نیت اور پختہ ارادے کی ضرورت ہے۔ اس شہر کو بھی ایک انڈسٹری ہی سمجھ لیں تا کہ ہم امن کے ماحول میں اپنا قلم اور زبان چلا سکیں لیکن ہم کسی بھی صورت میں اس سے باز تو نہیں آئیں گے بس ذرا سہولت درکار ہے وہ بھی مل جائے تو بہتر ورنہ اللہ مالک ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔