قندھاری طالبان اور حقانی طالبان

نصرت جاوید  منگل 3 دسمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

برطانیہ کے دو شہری ہیں جن کے نام ہیں۔ Alex Strick Van Linschoten اور Felix Kuehn یہ دونوں سن 2006سے افغانستان کے شہر قندھار میں مستقل بنیادوں پر رہائش پذیر ہیں۔ ان کا تعلق کسی حکومتی ادارے سے نہیں۔ نہ ہی وہ کسی NGO کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ دونوں صرف محقق ہیں جن کی تحقیق اور جستجو کا واحد مقصد یہ جاننا ہے کہ وہ کون سے سیاسی اور ثقافتی حوالے تھے جو اس صدی کے آغاز کے ساتھ افغانستان میں تحریک طالبان کے نمودار ہونے کا باعث بنے۔ دونوں حضرات نے ہزارہا لوگوں کے باقاعدہ انٹرویوز لیے ہیں جو ایک باقاعدہ ریکارڈ کی صورت ان کے پاس موجود ہیں۔ تحقیق کے حوالے سے اپنی شناخت بنانے کی وجہ سے وہ ملا عبدالسلام ضعیف کے قریب آئے اور اس کی یادداشتوں کو آج سے تین سال پہلے “My Life with the Taliban” کی صورت میں مرتب کیا۔

اس کتاب کو غور سے پڑھے بغیر ہم ہرگز یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اگر 2014 کے بعد طالبان کسی صورت افغانستان میں دوبارہ برسرِ اقتدار آگئے تو ان کے حکومتِ پاکستان کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات دیکھنے کو ملیں گے۔ حال ہی میں ان دونوں محققین نے برسوں کے فیلڈ ورک کے بعد ایک اور کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے “An Enemy we Created”۔ بے تحاشا حوالہ جات کے ساتھ لکھی گئی یہ کتاب میرے جیسے شوقیہ قاری کے لیے بہت ہی زیادہ ’’علمی‘‘ ہے۔ اس کی زبان تو آسان ہے اور بیانیہ بھی کافی سہل۔ مگر لکھنے کا انداز بہت منطقی ہے۔ ذرا غور کریں تو محسوس یوں ہوتا ہے جیسے یہ ایک کتاب نہیں کسی مستند وکیل کا تیار کردہ ایک بھاری بھرکم مقدمہ ہے جس میں اپنے کیس کو ثابت کرنے کے ٹھوس دلائل اور شواہد کو ’’ضمنیوں‘‘ کے طور پر اکٹھا کر دیا گیا ہے۔

ان دو مصنفین کی اس کتاب کا بنیادی مقصد بقول ان کے ’’اس کہانی‘‘ کو غلط ثابت کرنا ہے جس کے مطابق القاعدہ اور طالبان دو جدا جدا اور کئی حوالوں سے ایک دوسرے کی نظریاتی مخالف قوتیں نہیں بلکہ ایک سالم اکائی جانی جاتی ہیں جن کا مقصد مسلح جدوجہد اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے پوری دُنیا پر ’’غلبہ اسلام‘‘ کی راہ ہموار کرنا ہے۔ سیکڑوں دیہاتوں میں موجود مدرسوں اور آئمہ مساجد سے طویل ملاقاتوں اور عام شہریوں سے سوالات کرنے کے بعد یہ دونوں محقق اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ’’طالبان‘‘ اپنی سرشت میں درحقیقت ایک خالصتاََ مقامی تحریک ہے۔ قندھار کی تاریخی روایات اور مذہبی ثقافتی حوالے سوویت یونین کی شکست کے بعد بنی ’’مجاہدین کی حکومت‘‘ کے بہت سارے قابلِ نفرت اقدامات طالبان کی نمو اور عروج کا باعث بنے۔ اسامہ بن لادن اور اس کی ’’القاعدہ‘‘ کا اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بہت سارے قابلِ اعتماد گواہان کی بات سننے کے بعد یہ محقق بلکہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسامہ بن لادن کو سوڈان سے افغانستان لا کر بسانے میں پروفیسر برہان الدین ربانی نے سب سے اہم کردار ادا کیا تھا۔

احمد شاہ مسعود نے اس ضمن میں ربانی کی بھرپور حمایت کی۔ ربانی اور مسعود کا خیال تھا کہ افغانستان آ جانے کے بعد اسامہ اپنی مفروضہ دولت کے انبار اس ملک میں سڑکیں وغیرہ بنانے پر صرف کرنا شروع کر دے گا۔ اسامہ سے مالی مدد حاصل کرنے کے ساتھ ہی ساتھ ربانی اور مسعود کو یہ امید بھی تھی کہ اپنی ’’مجاہدانہ شہرت‘‘ کی وجہ سے سعودی عرب کا یہ شہری ان کے اور طالبان کے درمیان ایک غیر جانبدار ثالث بن کر کوئی دوستانہ معاہدہ بھی کروا دے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ افغانستان لوٹنے کے چند ہی ماہ بعد اسامہ کے شاطر ذہن نے دریافت کر لیا کہ طالبان اور ان کے مخالفین کے درمیان کسی صلح کے ہرگز کوئی امکان نہیں۔ وہ بڑی خاموشی سے طالبان اور ان کے مخالفین کے درمیان جاری کش مکش سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہوا جلال الدین حقانی اور اس کے گروہ کے قریب ہوتا چلا گیا۔ ’’عظیم ترپاکتیہ‘‘ کا حقانی بھی ان دنوں طالبان یا ان کے مخالفین میں سے کسی کا ساتھی نہیں بنا تھا اور اپنے زیر نگین علاقوں میں ایک خود مختار نظام چلا رہا تھا۔

ان برطانوی محققین کی یہ کتاب پڑھنے کے بعد کم از کم مجھے یہ دریافت کرنے میں بڑی مدد ملی کہ ان دنوں امریکی حکومت ’’طالبان‘‘ اور ’’القاعدہ‘‘ کو دو جدا حیثیتوں میں کیوں دیکھ رہی ہے۔ امریکا اور نام نہاد ’’وار آن ٹیرر‘‘ میں اس کے اتحادی  بالآخر اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ ’’عظیم تر قندھار‘‘ میں مضبوط جڑیں رکھنے والے طالبان کو فوج کشی کے ذریعے شکست نہیں دی جا سکتی۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ ان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جو ان دو فریقین کے لیے ان کے اپنے اپنے حوالوں سے Win-Win نوعیت کا بندوبست کر دے۔ تاریخی حوالوں سے یہ وہی سوچ ہے جو برطانوی سامراج کے رابرٹ سینڈیمن جیسے ’’مفکر افسروں‘‘ نے 1850 کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے بارے میں اختیار کی تھی۔

میں جس کتاب کا ذکر کر رہا ہوں اس کا موضوع جلال الدین حقانی ہرگز نہیں ہے۔ اس کی ذات اور گروپ کے حوالے صرف قندھار سے ابھرنے والے طالبان کے تناظر میں دیے گئے ہیں۔ مگر اس کتاب کو غور سے پڑھنے کے بعد کچھ امریکی سفارتکاروں اور غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ طویل بات چیت کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ 2014 کو ذہن میں رکھتے ہوئے امریکا یہ سوچ رہا ہے کہ افغانستان میں ان کی ذلت آمیز مشکلات کا ا صل سبب جلال الدین حقانی اور اس کا گروپ ہے۔ ’’حقانی گروپ‘‘ کو ’’قندھاری طالبان‘‘ سے بالکل مختلف سمجھا جا رہا ہے۔

ایڈمرل مولن نے اپنا عہدہ چھوڑتے ہوئے پاکستان کی عسکری قیادت کو اس گروپ کا اصل پشت پناہ ٹھہرایا تھا۔ مگر امریکی حکام یہ سمجھتے ہیں کہ ’’حقانی گروپ‘‘ سب سے زیادہ ’’خطرناک‘‘ اس لیے بھی ہے کہ اسے مختلف عرب ممالک کے ’’جہاد اسلام‘‘ کے حامی سرمایہ داروں سے کثیر تعداد میں رقوم ملتی ہیں۔ افغانستان میں ’’القاعدہ‘‘ کی اصل شناخت اور پشت بان یہی ’’حقانی گروپ‘‘ ہے۔ 2014سے پہلے اس گروپ کو ہر حوالے سے کمزور کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ کابل اور اس کے گرد و نواح میں ان دنوں جو بڑی جہادی کارروائیاں ہوئیں وہ اس گروپ کے لوگوں کے ہاتھوں برپا ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں کو جاری رکھنے کی وجہ بھی اسی گروپ کی قوت ہے۔ فیصلہ تو اب ہمیں کرنا ہے کہ ہم ’’قندھاری طالبان‘‘ کے ساتھ کھڑے ہیں یا ’’حقانی گروپ‘‘ کے ساتھ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔