جہالت ‘ ہمارا بنیادی مسئلہ

ذوالقرنین زیدی  منگل 3 دسمبر 2013

یوں تو ہمارے مسائل ان گنت ہیں مگر بنیادی مسئلہ جہالت ہے، جہالت کو عام طور پر تو علم کے فقدان سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر حقیقی معنوں میں جہالت ایک ہٹ دھرمی کا نام ہے، اس کے لیے علم کا ہونا یا نہ ہونا اپنی جگہ مگر اصل مفہوم کسی حق بات کو تسلیم نہ کرنا ہے، اس تناظر میں عدل جہل کا متضاد ہے، عدل کو بھی عام طور پر انصاف سے تعبیر کیا جاتا ہے جب کہ انصاف کچھ اور چیز ہے عدل کچھ اور۔ انصاف نصف سے ہے جس کے معنی آدھے کے ہیں اور انصاف کا مطلب برابری یا برابر کی تقسیم کا عمل جب کہ عدل کا مطلب ہے حق کو تسلیم کیا جانا یا کسی بھی شے کو اس کے اصل مقام پر رکھنا، گویا جہاں عدل ہو وہاں جہالت کا وجود بعید القیاس ہے۔ عدل کا آغاز انسان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے جو خاندان کے افراد سے ہوتا ہوا تعلیم و تدریس، انتظامیہ، مقننہ، حکومت اور حکمرانوں کے بعد آخر میں عدلیہ تک اس وقت پہنچتا ہے جب اس کا اطلاق راستے میں کسی ایک یا تمام جگہوں پر نہ ہوا ہو اور یوں عدالت یہ فیصلہ کرتی ہے یعنی تعین کرتی ہے کہ کس شے کا درست مقام کیا ہے جہاں اس کو ہونا چاہیے تھا۔

عدل و انصاف کے ادارے کسی معاشرے کے اخلاقی، معاشی، معاشرتی اقدار اور اس کے نظام کو انصاف اور اعتدال پر قائم رکھنے کے بنیادی عنصر یا جزو ہوتے ہیں، عدلیہ کا ادارہ ظلم، زیادتی، نا انصافی اور معاشرتی زندگی کے ہر شعبے میں تمام جرائم کو ختم کرنے اور ہر قسم کے استحصال کو جڑ سے نکال پھینکنے کا اہم فریضہ ادا کرتا ہے، عدلیہ کے شعبے کے منصف معاشرے میں ہر قسم کی برائی اور جرائم کو قانون کی تلوار سے نیست و نابود کر کے ملک کو امن و سکون کا گہوارہ بناتے ہیں، جو قومیں عدل و انصاف پر قائم رہتی ہیں وہ ترقی کی منازل طے کر کے دنیا کی اقوام میں اعلیٰ مقام حاصل کرتی ہیں، جو قومیں اسے چھوڑ دیتی ہیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں، اللہ تبارک تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جو قومیں عدل و انصاف کو ترک کر دیتی ہیں تباہی اور بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف طریقے، مختلف اصول، مختلف ضوابط حیات، مختلف قانون، مختلف معاشی اور معاشرتی اقدار اپنے اپنے مخصوص طریقہ کار کے تحت عدل و انصاف کے مخصوص قوانین و ضوابط کی روشنی میں حکومتی کاروبار چلاتے ہیں، یعنی روس میں کیمونزم، چین میں سوشلزم، امریکا، برطانیہ اور تمام مغربی ممالک اور ایشیا میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کے وضع کردہ اصول و ضوابط کی روشنی میں حکومتیں بناتے اور عدل و انصاف قائم کرتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کا بھی ایک الہامی دستور مقدس ہے جس کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط کی روشنی میں معاشرے کی تشکیل اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں جس کی پیروی کرنا ان کا ایمان اور دین کا حصہ ہے۔ اقوام مغرب اور دنیائے عالم بھی ان حقائق کو تسلیم کرتی ہیں کہ جو ضابطہ حیات حضور نبی کریم کے ذریعے اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کو قرآن پاک کی شکل میں عطا کیا ہے وہ عدل و انصاف کا سرچشمہ اور رشد و ہدایت کا منبع ہے۔

اقوام عالم ان سچائیوں اور حقائق کے کچھ حصوں کو اپنی ضروریات کے مطابق اپنا کر فلاحی معاشرہ قائم کرنے اور ترقی کی راہ اختیار کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئیں لیکن ایک ایسا ملک یعنی پاکستان جس کے عوام نے اسے دینی نظریہ قرآن پاک کی روشنی کے تحت عظیم، بے شمار، جانی، مالی اور ہر قسم کی قربانیاں دے کر یہ وطن حاصل کیا، جس کی خاطر لاکھوں لوگوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے، جس کی بنیادوں میں معصوم، بے گناہ ماؤں، بیٹیوں کی عصمتوں اور بے حرمتیوں کے زخم بھی دفن ہیں۔ ہمارے ساتھ کیا ہوا، ہمارے ساتھ کیا بیت گئی، اتنی عظیم قربانیوں کا ہمیں کیا صلہ ملا؟ رہزن رہبر بن گئے اور رہبر رہزن، افسر شاہی، نوکر شاہی اور منصف شاہی غرض کہ سب نے ملکر شاہانہ زندگی اور لوٹ کھسوٹ کا کھیل جاری رکھا۔

کسی معاشرے میں اعتدال، مساوات اور عدل و انصاف کو قائم رکھنے کے لیے جن اصولوں، ضابطوں اور قوانین کی ضرورت ہوتی ہے انھیں مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا، بلکہ اصولوں کو اجداد کے ساتھ ہی دفنایا جاتا رہا۔ مغرب نے حکومت اور معاشرے کا نظام چلانے کے لیے جمہوریت کے طریقہ کار کو اپنا کر عوام کی رائے کی روشنی میں قوانین اور ضوابط تیار کیے، ہمیں جمہوریت کے نام پر شرعی قوانین سے نہ صرف دور کر دیا بلکہ ایسی معذور جمہوریت ہم پر مسلط کر دی کہ پہلے تو عوامی رائے سے انتخاب ہی مشکل ہو، پھر مخصوص سیٹوں اور سینیٹ کے ذریعے عوام میں غیر مقبول ترین لوگوں کو ایوان بالا تک پہنچانا اور غیر منتخب لوگوں کو وزارتیں دلوانا اور ایسا نظام کہ جس کے ذریعے اگر کوئی سیاسی جماعت اکثریت کے ساتھ بھی برسراقتدار آ جائے تو اس کے لیے نئے قانون بنانا ناممکن ہو اور اسے ہر گام پر پہلے سے موجود سینیٹ ارکان جن کا عوامی رائے سے براہ راست کوئی تعلق بھی نہیں، کی مزاحمت کا سامنا رہے اور اس دوران اگر حکومت کسی مثبت اقدام سے باز نہ آئے تو قانون بننے سے پہلے ہی کوئی آمر آ کر اس حکومت کا کام تمام کر دے۔ یہ سب اسی لیے کیا گیا کہ ملک کے تمام امور میں مداخلت آسان رہے۔

اعلیٰ سطح پر عدل پر عمل کا یہ حال دیکھ کر نچلی سطح پر جہالت کو پنپنے کا موقع ملا، ہر کوئی اپنے دائرہ کار سے باہر نکلنے لگا، جہاں جی چاہا تھوک دیا، جہاں جی کیا پیش آب کرنے بیٹھ گئے، جسے من نے برا جانا اسے برا کہنا شروع کر دیا، جو دل کو بھایا وہی اچھا ہو گیا، جہاں مفاد نظر آیا حلال کر دیا، جدھر سے نقصان پہنچا حرام کہہ دیا، یعنی جو اچھا لگا وہ اچھا ہے جو برا لگا وہ برا، اس سے قطع نظر کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ یا مقامی ریاستی قانون یا اخلاقی اعتبار سے کس حیثیت کا حامل ہے، اسی طرح اچھائی کر بھی ڈالی تو اچھا کہلوانے کے لیے نہ کہ اچھا بننے کے لیے۔ یوں عدل ہم سے رخصت ہوتا چلا گیا اور جہالت کے اندھیرے گھر کرتے چلے گئے، خود پسندی، مفاد پرستی رگوں میں سرایت کرتی چلی گئی اور ہم رفتہ رفتہ کسی ہیروئن کے عادی نشئی کی طرح اپنے نشے میں مست خود اپنے آپ کو ہی نوچنے لگے۔

حکومتیں آتی اور جاتی رہیں، حکمران پرانی پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح بڑھکیں مارتے رہے، نہ کوئی عمل کرنے والا تو نہ کوئی عمل کرانے والا، جنگل کا سماں ہے، بڑے پولیس والے کی بیٹی کی شادی کے لیے رقم چاہیے، چھوٹا افسر خود گشت پر نکلا، لوڈشیڈنگ کے ستائے لڑکے گھر کے باہر کھیل رہے تھے، اٹھا لیا، جوئے کی ایف آئی آر کاٹ کر پچاس ہزار طلب کیے، بتیس ہزار روپے میں اگلے روز جان چھوٹی، ہر سطح پر شکایتیں کی گئیں مگر سب ملے ہوئے ہوں تو کوئی کیا کر سکتا ہے، ہر جرائم پیشہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار ہے، اگر اس کی پارٹی برسراقتدار نہیں تو اس کا دوسرا بھائی کسی دوسری پارٹی میں ہے، یوں اقتدار میں رہنا مجرموں کا مقدر ٹھہرا۔

قومی اداروں کا یہ حال ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کو بھی چکمہ دینے میں شرم محسوس نہیں کرتے، حال ہی میں سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی اے نے غیر قانونی موبائل سموں کا استعمال روکنے کے لیے عدالت عظمیٰ کو مشورہ دیا کہ وہ محکمہ کسٹم کو بغیر آئی ایم ای آئی نمبر والے موبائل فونز کی درآمد روکنے کا پابند بنائے، حالانکہ چیئرمین پی ٹی اے موبائل فون کمپنیوں کو بھی حکم دے سکتے ہیں کہ وہ ایسی سمیں ایکٹو ہی نہ کریں جن کے ساتھ آئی ایم ای آئی نمبرز نہ ہوں، مگر مقصد بات کو گھمانا ہے نہ کہ ملک اور قوم کے مفاد کے تحت کوئی اقدامات کرنا۔ ایک موبائل صارف کے لیے زیادہ سے زیادہ پانچ سمیں استعمال کرنے کی پابندی اپنی جگہ درست ہے مگر کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ جعل سازی کے ذریعے کسی دوسرے نام سے نکلوائی گئی سمیں بند کرانا کیوں ناممکن ہے، جعلی سمیں بند کرانے کے لیے دو ماہ کا وقت کیوں درکار ہوتا ہے جو گزر جانے کے بعد بھی سمیں بند نہیں کی جاتیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔