اچھی حکمرانی

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 3 دسمبر 2013

دوسر ی جنگ عظیم میں جب چرچل نے یہ اعلان کیا کہ اسے انگریزوں کا خون، پسینہ اور آنسو درکار ہیں تو اس کے اس اعلان کی مزاحمت نہیں ہوئی بلکہ اسے دل و جان سے قبول کیا گیا کیونکہ اس نے ان کے دل کی گہرائیوں میں چھپی قربانی کی خواہش کو زندہ کیا، جرمنوں اور روسیوں کا ردعمل بھی ایسا ہی تھا لوگوں پر بم گرائے جا رہے تھے اور بل گرانٹ کے مطابق جب مشکلات عام ہوں تو لوگوں کے حوصلے اور جذبے میں شگاف نہیں پڑتا بلکہ مشکلات ان کے حوصلے کو مضبوط بناتی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہوئی ہو تو کیا خوشگوار تبدیلی ممکن ہے اگر ممکن ہے تو پھر تبدیلی کیسے لائی جا سکتی ہے۔

دنیا کے نامور ماہر نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ درج ذیل شرائط تبدیلی کے لیے پوری کرنا لازمی ہیں (1) ہم تکالیف میں مبتلا ہیں تو ہمیں اس سے واقف ہونا چاہیے (2) ہمیں اپنی بیماری (برائی ) کی اصل وجوہات سے آگا ہ ہونا چاہیے اس بیماری کے ماخذ کی پہچان ہو (3) اس بیماری (برائی) پر قابو پانے کا کوئی نہ کوئی راستہ ہونا چاہیے (4) اس سے نجات کے لیے ہمیں کچھ زندگی کے قواعد کو قبول کرنا ہو گا اور تبدیلی کے لیے موجودہ طرز زندگی کو تر ک کر نا ہو گا۔ یہ چار نکات چار عظیم سچائیاں ہیں جو مہاتما بدھ کی تعلیمات سے اخذ کی گئی ہیں جب وہ زندگی کے شدائد سے نبرد آزما ہوئے۔

فرائیڈ کا زخم خوردہ انسانیت کی بحالی کا طریقہ بھی اسی جیسا تھا مریض فرائیڈ سے رابطہ کرتے تھے مگر و ہ جانتے تھے کہ ہم بیمار ہیں مگر وہ اس بیماری کی وجوہات سے آگاہ نہ تھے ۔فرائیڈ کہتا ہے کہ سب سے تسلی بخش تشخیص وہ ہے جو مریض خود اپنے بارے میں قائم کرتا ہے اس طرح نفسیاتی تجزیے کے عمل کے ذریعے سے مریض کی بیماری کی اصل وجوہات کا پتہ لگایا جا سکتا ہے یہ بات یقینی ہے کہ تمام تکالیف ختم ہو سکتی ہیں اگر ان کی وجوہات کو ختم کر دیا جائے۔ پاکستان دنیا کا ایسا ملک ہے جس کی ابھی تک کوئی قوم نہیں بن سکی۔ انبوہ کثیر ہے، جہاں وطن والے بے وطن ہیں اور بے وطن اہل وطن ہیں پاکستان اپنی بیماریوں (خرابیوں) کی وجہ سے تڑپ رہا ہے لیکن اسے معلوم ہی نہیں کہ اسے بیماری کیا ہے۔ کرپشن، انتہا پسندی، ملاوٹ، اقرباپروری، رشو ت خوری، دہشتگردی، ذخیرہ اندوزی، قبضے، اسمگلنگ، دھوکا دہی میں ہم دنیا بھر میں اونچے نمبروں پر ہیں 66 سال بعد بھی ہم سیاسی استحکام کی تلاش میں ہیں۔

بانیٔ پاکستان نے ہم کو جو نظریاتی اساس دی تھی ہم نے اس کے پر خچے اڑا کے رکھ دیے۔ ہمارے حکمرانوں اور اکثر سیاستدانوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ریاست کی ناکامی کیا ہے ظلم کیا ہوتا ہے۔ بھوک، افلاس کس بلا کا نام ہے تڑپنا، بٍلکنا اور سسکنا کسے کہتے ہیں فاقوں کی اذیتیں کیا ہوتی ہیں 66 سال سے ہم نے سب اچھا ہے کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ ہمارے کرتا دھرتا لوگ نہ مسائل کاحل چاہتے ہیں اور نہ ہی ان کی وجوہات کا کھو ج لگا نے کی کسی کو اجازت دیتے ہیں ۔جن لوگوں کے پاس اقتدار رہا انھوں نے دنیا بھر کے برعکس اخلاقیات، مذہب، تعلیم، آزادی اظہار اور جمہوریت کی اپنے انداز میں تفسیریں کیں عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ وہ انھیں عقل کل سمجھیں ان کے اشاروں پر ناچیں اور اپنے تمام اختیارات ان کے حوالے کر دیں ہم ساری عمر قومی شناخت کی تلاش میں سر گرداں رہے اور اب تک بنیادی سوالوں کا جواب تلاش نہ کر سکے ہیں۔

نظریاتی صحرا میں بھٹکتے پھر رہے ہیں ہمارے تاریخی حقائق اس قدر پیچید ہ اور الجھے ہوئے ہیں کہ جس نے ریاست کی اہلیت پر قدغن لگا رکھی ہے ہم ایک دوسر ے سے خوفزدہ ہیں۔ ہماری خوشی اور خو شحالی کا سارا دارومدار اس بات پر ہوتاہے کہ ہمیں وراثت میں کیا ملا ہمارا کردار کیا ہے ہمیں رشتے میں کیسے لوگ ملے ہیں ہم کہاں اورکن حالات میں پیدا ہوئے ہیں اور پھر یہ بھی کہ ہمارا نصیب کیسا ہے دور جدید میں انسان کو خوشی اور خوشحالی کاسارا دارومدار ریاست کی اہلیت پر منحصر ہے حال ہی میں دنیا کے 50 ملکوں سے اعدادوشمار حاصل کر کے ایک تجزیہ مرتب کیا گیا جس میں مختلف علاقوں و معاشروں میں پائے جانے والے خوشی و مسرت کے مختلف درجوں اور ان کے تعین میں اہم کردار ادا کرنیوالے عوامل کا جائز ہ لیا گیا اس تجزیے جسے ہم اب تک کیا جانے والابہترین تجزیہ قرار دے سکتے ہیں کہ مطابق عوام کی خوشی و خوشحالی پر اچھی حکومت جس قدر زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے وہ ان اثرات سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں جو کہ اچھی تعلیم، اچھی آمدنی اور بہتر صحت سے مرتب ہوتے ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں خود بھی معیار حکومت کی مرہون منت ہوتی ہیں ۔

کنفیوشس نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں دہائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آہ کسی ذی عقل بادشاہ کو یہ سجھائی نہیں دیتا کہ مجھے اپنا اتالیق بنائے۔‘‘ افلاطون نے کہا ہے سچ ابدی ہوتا ہے، یہ سچ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ناکام رہے ہیں اور اس سچ کو جتنی جلدی ہم تسلیم کر لیں گے اتنی ہی جلدی ہم کامیابی کا سفر طے کر لیں گے۔ جب ہم اس سچ کو تسلیم کر لیں گے تو ہم اس کے اسباب کو ڈھونڈیں گے جب اسباب مل جائینگے تو ہم اس کا حل تلاش کرینگے اور جب ہمیں اس کا حل مل جائے گا تو وہ ہماری کامیابی کا پہلا قدم ہو گا آپ نے حضرات دائود علیہ السلام اور گولائتھ کی لڑائی کا واقعہ تو سنا ہو گا۔ گولائتھ ایک دیو نما شخص تھا ہر کوئی اس سے خو ف کھاتا تھا ایک دن 15سالہ چرواہا بچہ اپنے بھائیوں سے ملنے آیا اس بچے نے کہا تم اس دیو سے لڑنے کے لیے کیوں نہیں اٹھتے اس کے بھائی گولائتھ سے خو ف زدہ تھے۔ انھوں نے کہا تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ وہ اتنا لحیم شحیم ہے کہ اسے مارا نہیں جا سکتا۔

حضرت دائود علیہ السلام نے کہا نہیں وہ اتنا بڑا نہیں ہے کہ اسے مارا نہ جا سکے اس کے لحیم شحیم ہونے کا تو فائدہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی نشانہ چُوک نہیں سکتا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ولیم جیمز نے کہا تھا میری نسل کی عظیم ترین دریافت یہ ہے کہ انسان اپنے ذہنی رحجان کو بدل کر اپنی زندگیوں کو یکسر تبدیل کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے عوام بہت بہادر ہیں وہ اپنا خون، پسینہ اور آنسو دینا جانتے ہیں قربانیاں دینے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ آئیں ہم اپنی بیماریوں، خرابیوں کی وجوہات کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں، اپنے ذہنی رحجان کو یکسر بدل دیں۔ یہ کام اس وقت ممکن ہے جب ہم سب مل کر متحد ہو کر تمام تر اختلافات بھلا کر یکسوئی کے ساتھ ریاست کے نظام کی ساری خرابیوں کو دور کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں جب ریاست کے نظام کی ساری خرابیاں دور ہو جائیں گی تو پھر ریاست کو ایسے حکمران بھی مل جائیں گے جو حکمرانی نہیں بلکہ خدمت کرنے آئیں گے۔ عوام کی ساری خوشیوں اور خوشحالی کا سارا دارو مدار اچھی حکومت پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہمارے ملک میں پھیلی ہوئی برائیاں اور خرابیاں دیو بن گئی ہیں لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے کہ اس دیو کو مارا نہ جا سکے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔