اپنے گدھے سنبھال لیجیے پلیز

خرم شہزاد  بدھ 29 اپريل 2020
معاشرے میں پھیلے ہوئے گدھوں کو سنبھالیے، ورنہ کوئی گدھے والی رونما ہونے کے بعد تاریخ کا حصہ بننے کےلیے تیار رہیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

معاشرے میں پھیلے ہوئے گدھوں کو سنبھالیے، ورنہ کوئی گدھے والی رونما ہونے کے بعد تاریخ کا حصہ بننے کےلیے تیار رہیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

واقعہ فرضی لیکن سبق آموز ہے اس لیے سب توجہ کیجیے۔ کہتے ہیں کہ کچھ فوجی سرحد پر گشت کر رہے تھے کہ غلطی سے وہ سرحد پار کر گئے۔ سرحد کے دوسری طرف کا علاقہ بارودی سرنگوں سے بھرا پڑا تھا، اپنی غلطی کا احساس ہونے پر انہوں نے جلدی سے واپسی کا فیصلہ کیا اور بارودی سرنگوں سے بچتے بچاتے اپنے علاقے میں پہنچنے کی کوشش کرنے لگے۔ جب وہ فوجی اپنے علاقے میں پہنچے تو لوگوں نے دیکھا کہ ایک فوجی نے ایک گدھا کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے۔ لوگ بہت حیران ہوئے اور پوچھا کہ جناب لگتا ہے کہ یہ آپ کا گدھا ہے اور آپ کو بہت عزیز ہے اس لیے آپ نے اسے کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے۔ فوجی نے جواب دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں، نہ یہ میرا گدھا ہے اور نہ مجھے عزیز ہے۔ دراصل سرحد پار سے جب ہم واپس آنے لگے تو یہ گدھا وہاں آوارہ گھوم رہا تھا اور ہمیں دیکھ کر ہماری طرف چلا آیا۔

وہ سارا علاقہ بارودی سرنگوں سے بھرا پڑا ہے، ہم اسے بار بار واپس بھیجیں لیکن یہ پھر ہمارے قریب آجائے۔ تب میں نے سوچا کہ اس گدھے نے اگر گدھے والی کوئی حرکت کر دی تو بارودی سرنگوں کے علاقے سے ہم میں سے کوئی فوجی بھی زندہ واپس نہیں جا پائے گا۔ بس اسی وجہ سے میں نے اسے کندھوں پر اٹھا لیا تاکہ یہ گدھے والی کوئی حرکت نہ کردے۔

آج کے حالات میں خصوصی طور پر اور ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر جو رویہ اپنایا جاتا ہے، اس میں ہمیں ایسی ہی کسی احتیاط کی بے حد ضرورت ہے۔ آپ شاید نہیں سمجھے تو آپ کو بتائیں کہ ہمارے معاشرے میں بھی ایسے کچھ گدھے موجود ہیں جو بار بار ہمارے پاس چلے آتے ہیں اور ہمیں کوئی پتا نہیں ہوتا کہ یہ گدھے کب، کون سی گدھے والی حرکت کر دیں اور اس حرکت کا ہمیں کتنا بڑا خمیازہ بھگتنا پڑ جائے۔ اس لیے کوشش کیجیے کہ نازک حالات میں ایسے گدھوں کو سنبھال لیا جائے، اس سے پہلے کہ کوئی گدھے والی حرکت ہوجائے۔

بہت معصومیت سے اگر آپ ان گدھوں کا تعارف چاہتے ہیں تو چند ایک کا ذکر کیے دیتے ہیں، اب یہ آپ پر ہے کہ آپ ان گدھوں کو وقت پر سنبھالتے ہیں یا پھر کوئی گدھے والی رونما ہونے کے بعد تاریخ کا حصہ بنتے ہیں۔

وبا کے ان دنوں میں سب سے خطرناک گدھے تفرقہ بازی اور نفرت پھیلانے والے ہیں۔ یہ گدھے اپنی وقت گزاری اور پیٹ میں پھنسی ڈکار نکالنے کےلیے ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن ان کی ڈھینچوں ڈھینچوں کی قیمت آپ کو چکانی پڑسکتی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کسی ایک خاص فرقے یا قوم کی ذاتی جاگیر کا نام ہرگز نہیں بلکہ یہ ملک یہاں بسنے والے ہر شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، ہندو، مسلم اور عیسائی غرض ہر وہ شخص جو پاکستان اور آئین پاکستان کا دفادار ہے، اس کا ملک ہے۔ وبا کے آغاز کے دنوں میں ایران سے لوٹنے والے زائرین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ایسا تاثر دیا گیا کہ جیسے ملک میں کورونا پھیلانے کے ذمہ دار یہی زائرین ہی ہیں۔ میڈیا میں موجود اینکرز اور دانشور اس حوالے سے خصوصی پروگرام کر رہے تھے اور سوشل میڈیا پر بھی انہی زائرئن کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام زور و شور سے جاری رہا لیکن کسی نے یہ نہ سوچا کہ ایران سے واپس آنے والے زائرین کی تعداد ستر ہزار سے زائد تھی جبکہ ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں کورونا کے کل سات ہزار مریض سامنے آئے۔

اگر یہ سات ہزار مریض زائرین کی وجہ سے بیمار ہوئے ہیں تو ستر ہزار بیمار زائرین خود کہاں ہیں اور اگر ایک زائر نے صرف ایک شخص کو بھی متاثر کیا ہو تو ستر ہزار بیماروں کا کہیں کسی کو کوئی پتا نہیں۔ یاد رکھیے کہ وبا کے دن گزر جائیں گے لیکن نفرت پھیلانے والے گدھے اگر کامیاب ہو گئے تو وبا کے بعد آپ سب ایک دوسرے کے خلاف لڑنے مرنے کو تیار کھڑے ہوں گے۔ اس لڑائی میں آپ اپنے پیاروں کو روتے ہیں یا آپ کے پیارے آپ کو روتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ایسا کوئی وقت آنے سے پہلے نفرت اور تفرقہ پھیلانے والے گدھوں کو سنبھال لیجیے تاکہ ان کا پاؤں کسی نفرت کی بارودی سرنگ پر نہ آجائے۔

ہمارے اردگرد ایک حکومت مخالف گدھا بھی موجود ہوتا ہے جو ہر وقت ہمیں حکومت کے خلاف اکسانے کی بھرپور کوشش کرتا رہتا ہے۔ ان گدھوں کے مطابق ہر حکومت چور ڈاکو اور عوام دشمن ہوتی ہے لیکن اندر کی بات یہ ہے کہ یہ سارے گدھے گھاس حکومتی زمینوں کی ہی کھاتے ہیں۔ آپ پی ٹی وی دیکھنے لگیں تو فورا یہ سامنے آجاتے ہیں کہ بھئی یہ حکومتی چینل ہے یہاں سچ بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ کورونا کے مریضوں کی تعداد بتادیں فوراً یہ گدھے کہنے لگیں گے کہ نہیں بھئی تعداد تو لاکھوں میں ہے، بس حکومت چھپا رہی ہے۔ کوئی بھی حکومتی اقدام ہو، یہ اس میں نقص نکالنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ آپ ایسے گدھوں اور ان کے اجداد کا ماضی دیکھ لیں تو یہ ہر حکومت کے مخالف ہی نظر آئیں گے۔ آپ ان گدھوں سے اگر پوچھیں کہ اگر ستر سال کی ہر حکومت چور ڈاکو اور عوام دشمن تھی تو پھر ہر چار پانچ سال بعد پانچ سے دس ارب کا معیشت کو ٹیکہ لگوا کر ان لوگوں کو کیوں منتخب کیا جاتا ہے؟ ہر طرح کی آفات اور پریشانیوں میں ہم انہی حکومتوں کے امدادی اقدامات تلے ہی کیوں زندہ رہنے پر مجبور ہوتے ہیں؟ ستر سال میں ان گدھوں نے خود کیا کچھ کیا ہے؟

ایسے ہی کچھ تلخ سوالات کے جواب میں ایسے گدھوں کی ڈھینچوں ڈھینچوں سننے والی ہوتی ہے۔ یاد رکھیے یہ گدھے سلو پوائزن میں آپ کو حکومت مخالفت کے ساتھ ساتھ قانون اور آئین شکنی پر بھی مائل کر رہے ہوتے ہیں لیکن آپ کے کسی غلط قدم پر آپ کا تماشا بنانے کےلیے بھی یہ سب سے آگے ہوتے ہیں۔

وبا کے ان دنوں میں ایک اور گدھا بھی آپ کے آس پاس موجود ہے جسے کھلا ہر گز نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ گدھا شیر جیسی بہادری کا دعویدار تو ہوتا ہے لیکن کتے جیسی موت مرتا بھی نظر آتا ہے۔ کبھی یہ گدھا مذہب کا لبادہ اوڑھ کر آپ سے کہے گا کہ جو رات قبر میں لکھی ہے وہ باہر نہیں ہو سکتی اس لیے کسی پابندی اور لاک ڈاؤن کو ماننے کی ضرورت نہیں، لیکن روڈ پار کرتے وقت بیس منٹ سڑک کنارے کھڑے رہتا ہے کیونکہ سائیکل والے سے بھی اسے ڈر لگتا ہے۔ اسی طرح کبھی یہ گدھا اپنی خرمستی میں گھر نہیں بیٹھ سکتا اور پیروں میں پڑے دائرے اسے باہر آوارہ گردی پر مجبور کرتے ہیں۔ اب باہر یہ کس کس سے ملا اور کس طرح کے جراثیم لے کر گھر والوں کو بیمار کرنے آیا؟ اسے اس بات کا کوئی خیال نہیں کیونکہ یہ گدھا ہوتا ہے اور اس کی اپنی زندگی کتوں والی گزر رہی ہوتی ہے اس لیے یہ ایسی حرکتیں کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اگر اس کی اپنی زندگی قیمتی ہوتی تو یہ اسے بچانے کی کوشش ضرور کرتا۔

آپ کو ایسے گدھوں سے بالخصوص بچ کر رہنے کی ضرورت ہے اور اگر وبا کے دنوں میں ایسا کوئی گدھا یوں کھلا سڑکوں پر گھومتا ہوا ملے تو فوراً پکڑ کر اسے باندھ دیجیے کیونکہ اسے تو اپنے گدھے پن سے باز نہیں آنا لیکن اس کی وجہ سے وبا اور موت خوامخواہ آپ کے گھر کا راستہ دیکھ لیں گی۔

آپ شعور رکھتے ہیں تو اپنے اردگرد ایسے بہت سے گدھوں کو بہ آسانی تلاش کرسکتے ہیں اور ان سے بچنے کےلیے بروقت ضروری اقدامات کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیے، کسی بھی گدھے نے اگر اپنے گدھے پن میں کسی بارودی سرنگ پر پاؤں رکھ دیا تو اس کا خمیازہ بہت سوں کو بھگتنا پڑ جائے گا۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ان گدھوں کو بروقت سنبھال لیا جائے کہ بعد میں رونے اور افسوس کرنے کو کوئی تو باقی رہے۔ آپ اپنے اردگرد ایسے گدھوں کو تلاش کیجیے اور ان سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کیجیے۔ ہم آپ کی خیر و عافیت کےلیے دعا گو رہیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔