سلام اے مسیحاؤ!

سیّدہ نازاں جبیں  جمعرات 30 اپريل 2020
کورونا کے خلاف لڑنے والے ڈاکٹروں کو تین طرح کے مسائل کا سامنا ہے: جسمانی صحت، ذہنی صحت اور مالی صحت۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کورونا کے خلاف لڑنے والے ڈاکٹروں کو تین طرح کے مسائل کا سامنا ہے: جسمانی صحت، ذہنی صحت اور مالی صحت۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’ڈاکٹر عرفان کو کورونا وائرس ہوگیا ہے اس لیے اب ان کی جگہ مجھے کورونا کے مریضوں کو وینٹی لیٹر پر شفٹ کرنا ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر حماد نے اپنی بیوی کو بتایا۔

’’اوہ! اللہ خیر کرے اور انہیں جلد شفا یاب کرے۔ مگر آپ کو کیوں؟ آپ نے تو بتایا تھا کہ یہ کام کوئی سینئر ڈاکٹر کرتا ہے؟‘‘ ڈاکٹر حماد کی بیوی عارفہ نے فکرمند ہو کر پوچھا۔

’’ہاں سینئر ڈاکٹر ہی کرتا ہے لیکن اگر کوئی سینئر اس وقت موجود نہ ہو یا کسی وجہ سے چھٹی پر ہو تو پھر ہم جونیئرز کو کرنا پڑتا ہے،‘‘ ڈاکٹر حماد نے جواب دیا۔

’’اللہ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ ساری احتیاطی تدابیر کر لیجیے گا کہیں خدا نخواستہ آپ کو بھی…‘‘ عارفہ نے ڈرتے ہوئے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

’’اللہ مالک ہے۔ ہمارا پیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدس قرار دیا گیا ہے۔ وہی ہماری حفاظت کرے گا،‘‘ ڈاکٹر حماد نے پر عزم ہو کر کہا۔

یہ پریشانی آج کل ہر ڈاکٹر اور شعبئہ طب سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کے اہلِ خانہ کا چین و سکون تباہ کیے ہوئے ہے۔ کورونا وائرس کی وبا جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل چکی ہے اور خطرہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے اور لوگ قرنطینہ میں ہیں۔ سب کے کام بند ہوگئے ہیں مگر ڈاکٹرز کا طبقہ اس سنگین صورتِ حال میں بھی سرگرم ہے۔ انہیں ہر طرح کے مریضوں کے ساتھ ساتھ کورونا سے متاثرین کا بھی علاج کرنا ہے۔

اسی حوالے سے کچھ ڈاکٹرز سے جب پوچھا گیا تو سب نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

ڈاکٹر رومانہ درانی کہتی ہیں، ’’ڈاکٹرز کو تین طرح کے مسائل کا سامنا ہے: جسمانی صحت، ذہنی صحت اور مالی صحت۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کے مریض کو وینٹی لیٹر پر شفٹ کرنے کےلیے گائیڈ لائن کے مطابق سینئر ترین بندہ ہونا چاہیے تاکہ غلطی کی گنجائش نہ ہواور معمر افراد کو اس وبا سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحبہ نے مزید بتایا، ’’جونئیر ڈاکٹرز میں یہ پریشانی پائی جاتی ہے کہ اگر سینئر ڈاکٹر نہ آئے تو یہ کام انہیں سرانجام دینا پڑے گا جو خاصا رسکی ہے اور کسی کو نہیں پتا کہ اس کا امیون سسٹم کیسا ہے۔‘‘

جب کسی شخص کو وینٹی لیٹر پر منتقل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو کوئی تجربہ کار ڈاکٹر اینڈوٹریکیئل ٹیوب (Endotrachael Tube) کے ذریعے اسے منتقل کرتا ہے۔ یہ ٹیوب مریض کی ناک یا منہ کے ذریعے اس کی سانس کی نالی میں ڈالی جاتی ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹرز کےلیے متاثرہ مریضوں کی سانس کی نالی میں نلکی ڈالنا خطرناک ہے کیوں کہ اس عمل کے دوران وہ خود بھی اس وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں۔ کیلیفورنیا کے شہر اِرون کے میڈیکل سینٹر اور کیلیفورنیا یونیورسٹی میں اینیستھیزیولوجی ڈپارٹمنٹ کے شعبہ طب کے ڈائریکٹر ڈاکٹر گووند راجن کہتے ہیں، ’’ہم مریض کو آکسیجن کا تیز بہاؤ نہیں دینا چاہتے کیوں کہ اس دوران جب کوئی مریض کھانستا ہے تو اس بات کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کہ وائرس مزید پھیل جائے اور یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘‘

ذہنی صحت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر رومانہ نے بتایا، ’’ڈاکٹرز میں معذوری کا خوف (Fear of Disability) پایا جاتا ہے کہ اگر وائرس سے متاثر ہو کر بچ بھی گئے تو ضروری تو نہیں کہ مکمل طور پر صحت یاب ہو جائیں گے۔ اگر کسی بھی طرح کی خرابی پیدا ہوگئی تو بقیہ زندگی کیسے گزاریں گے۔ اس کے علاوہ یہ فکر ہے کہ اگر ہمیں کچھ ہوگیا تو بعد میں ہماری فیملی کا کیا ہوگا۔ بزرگوں میں یہ خوف کم ہے کیوں کہ وہ اپنی زندگی کا ایک طویل حصّہ گزار چکے ہوتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے انٹرویو میں مالی مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا، ’’وبا کی روک تھام کےلیے جو لاک ڈاؤن کیا گیا ہے اس سے ڈاکٹرز کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ انہیں ڈیوٹی پر بھی آنا پڑتا ہے، وائرس کا شکار ہونے کا بھی خطرہ ہے اور تنخواہ کی بھی ٹینشن ہے کہ ملے گی یا نہیں۔ سرکاری اداروں میں تو بونس مل گئے ہیں مگر پرائیویٹ اداروں میں بڑے پیمانے پر تنخواہیں کٹ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اسپتال اور دیگر طبی مراکز میں امداد بند ہوگئی ہیں اور ان اداروں کے طبی عملے پر بہت گہرا اثر پڑ رہا ہے، خاص طور پر معاون عملے کو تنخواہوں کے حوالے سے زیادہ پریشانی کا سامنا ہے۔‘‘

طبّی عملہ شدید دباؤ میں کام کر رہا ہے جس میں وائرس سے متاثر ہونے کا بہت بڑ ا خطرہ بھی شامل ہے اور کئی بار حفاظتی تدابیر بھی ناکافی ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے بھی ملے جلے تاثرات پائے جاتے ہیں۔ امریکا کے ایک ڈاکٹر کے مطابق ان کے ساتھی ڈاکٹرز کا مورال بلند نہیں اور بہت سے ڈاکٹرز اسپتال نہیں آرہے ہیں۔ دوسری طرف شمالی امریکا کے ڈاکٹرز کورونا وائرس کے شکار ایسے مریض جن کی حالت تشویشناک ہے، ان کا علاج کرنے میں مصروف ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ جتنے زیادہ مریض وہ دیکھیں گے اتنے زیادہ اس وبا کا شکار ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

ان میں سے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے، ’’اپنے کام کے حوالے سے ہم پر عزم ہیں مگر ساتھ ہی نفسیاتی دباؤ کا شکار بھی ہیں کیوں کہ اسپتال میں زیادہ وقت گزارنے کے باعث ہمارے اہلِ خانہ کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اور کس کا مدافعتی نظام کمزور ہے اور کس کا طاقت ور، یہ کوئی نہیں جانتا۔ کہیں ہمارے ذریعے یہ وائرس ہمارے گھروں تک نہ پہنچ جائے مگر جانا بھی ضروری ہے کیوں کہ یہ ہمارا فرض ہے۔ اس کے علاوہ اپنے گھر والوں کی کفالت بھی تو کرنی ہے۔‘‘

پاکستانی ڈاکٹر حنا ارسلان کہتی ہیں، ’’جس دن ہم میڈیکل کی فیلڈ میں آتے ہیں اسی دن ہمیں ہر خوف اور ڈر کو پیچھے چھوڑ دینا چاہیے، تبھی ہم انسانیت کی خدمت کر سکیں گے۔ اگر ڈاکٹر خود یہ سوچے کہ وبا کے دنوں میں ہم بھی گھر بیٹھ جائیں تو یہ غلط ہے۔ اپنی حفاظت بھی کیجیے اور دوسروں کی خدمت بھی کیجیے۔‘‘

26 سالہ پاکستانی ڈاکٹر اسامہ ریاض کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا۔ اپنے کام کے دوران انہوں نے ایران سے واپس آنے والے زائرین کا چیک اپ کیا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر اسامہ نے ان مریضوں کا بھی علاج کیا جو کورونا وائرس کا شکار ہو کر آئی سی یو میں ایڈمٹ تھے۔ اس بات سے واقف ہوتے ہوئے بھی کہ ذاتی حفاظتی سازو سامان کی کمی ہے، انہوں نے یہ خطرہ مول لیا۔ 23 مارچ 2020 کو ڈاکٹر اسامہ ریاض کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انتقال کرگئے۔ وہ پاکستان کے پہلے ڈاکٹر تھے جو اس وبا کا شکار ہوکر دنیا سے منہ موڑ گئے۔ ان کی وفات کے بعد 27 مارچ 2020 کو آزاد کشمیر کے وزیراعظم کی جانب سے ان کی گراں قدر خدمات کے پیشِ نظر انہیں ’’نشانِ کشمیر‘‘ سے نوازا گیا۔

Some heroes don’t wear caps, we call them doctors

کسی نامعلوم شخص کی طرف سے ڈاکٹرز کی شان میں کہا گیا یہ یک سطری جملہ ایسا ہے جسے ہم سب اپنی زندگیوں میں کبھی نہ کبھی محسوس کرتے ہیں۔ بے شک ڈاکٹرز ہماری زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک، دونوں واقعات کی تصدیق یہی کرتے ہیں۔ مرض کیسا ہی خطرناک کیوں نہ ہو، اللہ کے حکم سے یہ ڈاکٹرز ہی ہیں جو علاج کرکے ہمیں شفایاب کرتے ہیں۔ یہ بے غرض لوگ ہیں جو ہم سب کے فائدے کےلیے اس خطرناک وبا کے دنوں میں نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے پیاروں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

دنیا بھر کے مختلف ممالک مختلف تاریخوں میں ڈاکٹرز کا دن مناتے ہیں تاکہ ان فرشتوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے۔ مگر سال 2020 میں اس وبا کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور اس دوران اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے بعد یہ مستحق ہیں کہ کسی خاص دن نہیں بلکہ ہمیشہ ان کی خدمات کو تسلیم کیا جائے اور ان کا شکریہ ادا کیا جائے۔

یہ سب ہمارے ہیروز ہیں جو ہماری تعریف، تعظیم اور دل کی گہرائیوں سے تشکر کے حق دار ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ خطرہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو ہے مگر یہ ہمارے مسیحا ہیں جو اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ایسے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔

تمام ہیلتھ کیئر ورکرز، ڈاکٹرز، نرسز، میڈیکل اسٹاف، ٹیکنیشنز، انتظامیہ کے لوگ، فوڈ سروس ورکرز، فارماسسٹس، سکیورٹی گارڈز اور ہماری فوج جو امداد فراہم کر رہی ہے، ہم سب ان کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور کورونا وائرس جیسی خطرناک وبا کا ہمارے ملک سمیت اس دنیا سے جلد از جلد خاتمہ ہوجائے، آمین۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔